Home » پوھوزانت » تاج محل۔ محبت کا کنول ۔۔۔۔۔ طاہرہ اقبال

تاج محل۔ محبت کا کنول ۔۔۔۔۔ طاہرہ اقبال

اَمرہوٹل آگرہ کا کشادہ ڈائیننگ ہال کھچاکھچ بھرا رہتا تھا۔ بریک فاسٹ کے وقت کوئی نشست خالی نہ ملتی تھی۔ قطاردرقطار بوفے میں مختلف ناشتے سجے ہوتے ،ٹھنڈے جوسزز کی مشینیں، چائے کافی کی گرم بھاپ چھوڑتی ہوئی مشینیں ،مختلف فلورز کے سریل، دودھ دلیا، بریڈ، آملیٹ، فرائی بائلڈایگز، کیک مٹھیاں، بسکٹ،تازہ پھل، ڈرائی فروٹ، پوری، حلوہ، پراٹھے، آلو کی بھجیا، چنے اور نجانے کس کس انداز کی پکی سبزیاں اور دالیں، ان فورفائیوسٹارز ہوٹلز میں ویجی بوفے میں ڈشیز کی تعداد پوری کرنے کے لیے نجانے کیسے کیسے پاپڑ بیلنے پڑتے تھے۔ ہاں پاپڑ بھی موجود رہتے تھے۔ گوشت کی شان تو پھر نرالی ہے ایک جانور سے بیسیوںکھانے تیار کر لو، قیمہ، کوفتے، پسندے، کڑاہی گوشت، بالٹی گوشت، اچارگوشت، قورمہ، شوربہ، سبزی گوشت، روسٹ بروسٹ، سجی، سٹیم، تنوری، چرغہ، حلیم، نہاری، گردے، قلیجی، کتنی قسموں کے کباب، چاول، سالن، چاہے دس فائیوسٹارز کی متعین ڈشز پوری کر لو،جو ایک دوسری سے مختلف بھی ہوں، یہاں ہندوستان میں یہی کام دالوں اور سبزیوں سے لیا جاتا ہے۔ جو سلوک گوشت کے ساتھ ہم پاکستانی کرتے ہیں وہی سلوک ان غریب النہاد جانوں یعنی دالوں، سبزیوں کے ساتھ وہاں ہوتا ہے۔

ناشتے میں مجھے تو اٹلی پسند آیا، جسے سانبھڑ کے ساتھ کھایا جاتا ہے۔ مختلف دالوں اور آلوﺅں کے قتلوں کا پتلا سا آمیزہ، سانبھڑ غالباً چاول کے آٹے سے بنی مخروطی مرکز والی ٹکیاں اٹلی اس میں ڈبو کر کھائی جاتی ہیں، جسے گورے بھی شوق سے کھا رہے ہوتے، ہر صبح یہ ڈائننگ ہال مہمانوں سے بھرا ہوتا، جن کے لیے انڈین، عربی اور مغربی طرز کے ناشتے سجے رہتے، مہمان جلدی جلدی ناشتے سے نمٹ کر بیرونی دروازے کی سمت بڑھتے، جہاں کسی ہندو دیوی کا طویل قامت بت ایستادہ تھا، جس کے پہلوﺅں سے مصنوعی آبشاریں بہتی تھیں اور جس سے پرے ٹورسٹ بسیں اور ٹیکسیاں کھڑی ہوتیں اور یہ سبھی بس ایک ہی رُوٹ پر جاتی تھیں”تاج محل“۔

آگرہ کا یہ تاریخی شہر مغلوں کی پہلی راج دھانی، جس کی شکستہ حال سڑکوں کے گرد غلاظتوں کے ڈھیر لگے رہتے تھے مکھیاں بھنبھناتی تھیں۔ کج مج بازاروں میں ہتھ ریڑھیوں، سائیکل رِکشوں، آٹورِکشوں کی بے ہنگم بھیڑ اور شور لیکن سیاح ہیں کہ اسی شہد کے چھتے پراُمڈے پڑ رہے ہیں کیونکہ اسی گدڑی میں وہ لعل چھپا ہے جس کی کشش سے ہی سارک رائٹرز فیسٹول اس سال یہاں منعقد کیا گیا تھا،کسی دُکان دارسے، کسی رِکشہ ڈرائیور سے کسی بھی شخص سے وہاں بات کرو تو ایک ہی سوال منتظرہوتا۔

”پاکستان سے آئے ہیں تاج دیکھ لیا۔“

”ابھی نہیں دیکھا۔“

پوچھنے والا جیسے ہماری گستاخی پر حیرتوں میں ڈوب جھنجھلا جاتا۔
” ارے یہ کیسے ممکن ہے آگرہ پہنچ کر تاج دیکھے بنا کوئی کیسے رہ سکتا ہے۔“

جیسے آگرہ پہنچتے ہی تاج پر حاضری نہ دیناسوئِ ادب ہو۔ آگرہ کے شہری قوانین کی محبت کے آداب کی سخت خلاف ورزی ہو لیکن سارک فیسٹیول کے شرکاءکو صبر کا باٹ لگایا گیا تھا کہ کانفرنس کے اختتام پر تاج محل لے جانے کا پروگرام ابتداءمیں ہی دے دیا گیا تھا۔ اسی لیے تاج سے پہلے ہم نے فتح پور سیکری کا قلعہ دیکھ لیا، جسے شہنشاہِ اکبر نے صوفی سلیم چشتی سے ارادت کے جذبے کے تحت اُن کی درگاہ کے قصبے میں تعمیر کروایا تھا۔ اس قلعے کا بھی عجب ماجرہ ہے۔ میلوں پھیلے قلعے کے اندر پورا دارالخلافہ بسایا گیا تھا۔ یہ ۱۷۵۱ءسے ۵۸۵۱ءتک مغلیہ دارالحکومت رہا۔ فصیلِ شہرکے اندر وزیروں، امیروں، لشکریوں اور دیگر حکام کی رہائش گاہیں بنائی گئی تھیں، یہاں دفاتر، عدالتیں دیگر سرکاری عمارتوں کے علاوہ شاہی محل، حرم گاہیں اور مسجد تعمیر ہوئیں۔ ہم جس طویل و عریض دروازے سے داخل ہوئے وہ شکست و ریخت کے آخری مراحل سے دوچار تھا۔ فصیل کے ساتھ ساتھ شکستہ تاریخی عمارتیں اب غریب بستی کی شکل اختیار کر چکی تھیں۔ ایک ایک کمرے میں بڑے بڑے کنبے آباد تھے۔ اُکھڑے ہوئے فرش، دھوئیں سے سیاہ پڑی سرخ اینٹیں، غربت و افلاس کے گردبار کی بھوت نگری جیسے کوئی۔

پرانے بوسیدہ درختوں تلے کئی مرد بے کار بیٹھے جیسے تاریخ کے بوسیدہ اوراق کی جگالی کرتے ہوں اور ان نہائے دھوئے بچے دھماچوکڑی مچا رہے تھے۔ عورتیں موٹی موٹی قدیم چوکھٹوں والے کالک زدہ دروازوں کی اوٹ سے جھانکتی تھیں۔ ُپرشکوہ تاریخ اور عسرت کا عجب بے ہنگم، ملاپ شاہی محلات اور تاریخی قلعوں پر ایسا افلاس برستا ہوا کبھی نہ دیکھا۔ شاید یہ ناجائز قابضین تھے یا شاید انھی شہزادے شہزادیوں کی اولادیں جنھیں خواجہ حسن نظامی نے بھیک مانگتے، ٹھیلے لگاتے، بھٹیارے دہکاتے ہوئے دیکھا تھا۔ شاید انھی کے بھوت ان تاریخی عمارتوں کی شکستگی میں کہیں مقید ہو گئے ہیں۔ ہمارے گائیڈ نے خصوصاً تاکید کی تھی کہ ہمیں اپنی پاکستانی شناخت کو چھپانا ہے۔ اگرچہ فتح پور سیکری کا قصبہ آگرہ سے تقریباً بیس پچیس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے لیکن آگرہ کی میونسپلٹی میں شامِل نہیں ہے۔ اس لیے ہمارے پاسپورٹس پر اِس شہر کی سٹمپ موجود نہیں تھی لیکن پرانے برگد تلے بیٹھے سفید ٹوپی اور کُرتے پائجاموں میں ملبوس ان مسلمانوں نے دُور سے ہی خوشی کے نعرے بلند کیے۔

”آیئے آیئے پاکستان سے آئے ہیں خوش آمدید۔“

جیسے کہتے ہوں ہم تو آپ کی آمد کے منتظر نجانے کتنی صدیوں سے اس آسیب زدہ قلعے میں چشم براہ کیے بیٹھے ہیں۔ اُنھی میں سے ایک صاحب ہمارے ساتھ گائیڈ کے طور پر چل پڑے۔ اس دارالخلافے کی بیشتر عمارتیں تو منہدم ہو چکی ہیں لیکن فصیلِ شہربعد زمانہ کی دست برد کے سامنے ابھی ڈٹی کھڑی ہے جس شہر کی حصار تھی وہ تو کب کا مٹ چکا لیکن یہ اپنے فرائضِ منصبی میں ابھی بھی مستعد کھڑی ہے۔ نجانے اس بیرونی دروازے کی اُونچائی کتنی تھی لیکن اتنی ضرور تھی کہ یہاں سے ہاتھی ہودوں سمیت گزرتے ہوں گے۔ ادھر دکن کی مہموں کے لیے لشکر، گھڑسواروں اور توپ خانوں کے ہمراہ روانہ ہوتے ہوں گے۔ شہزادیوں کی پالکیاں اور شہزادوں کے تخت تشریف لاتے ہوں گے لیکن ہماری چھوٹی سی مارُوتی کار باہر ہی پارک ہوئی تھی جب کہ اندر میل ہامیل وسعت و کشادگی پھیلی تھی، جس میں پارک، لان گراسی پلاٹ، بوڑھے قدیمی درخت، تازہ کھلے پھول، نوخیز پودے تاحد ِنگاہ پھیلے تھے۔ بلند فصیل سے ُجڑی کوٹھریاںشاید فوجی چوکیاں رہی ہوں گی۔ شاید پورا لشکر یہیں قیام کرتا ہو گا۔ سرخ پتھر سے تعمیر کنگرے دار تاریخی فصیل کے ساتھ ساتھ آباد غریب بستی کو چھوڑ کر ہم تارکول کی کشادہ سڑکوں کی سمت نکل گئے۔ یہ سڑکیں ڈھلانی تھیں۔ شاید شاہی محل بہت اُونچائی پر بنایا گیا ہو گا۔ شاہی محل سے دارالخلافے کے دفاتر تک برق رفتار گھڑسوار پیغامات کی ترسیل انھی سڑکوں کے ذریعے کرتے ہوں گے۔ ان چڑھتی اُترتی سڑکوں پر مستعد غلام اور حسین کنیزیں چولہیں کرتے پھرتے ہوں گے۔ چھتنارے درختوں، کشادہ پارکوں اور باغوں میں کیسے معاملات، محبت و عناد، سازشیں اور منصوبے تیار ہوتے
ہوں گے۔ یہ قلعہ بہت کم وقت کے لیے اکبر کا دارالخلافہ ہونے کا اعزاز حاصل کر سکا، پانی کی قلت کی وجہ سے دارالخلافہ لاہور منتقل کر دیا گیا۔ دکن کی مہموں کے دوران 1601ءمیں اسے پھر تھوڑے عرصے کے لیے دارالخلافہ بنایا گیا۔ البتہ مغل بادشاہ محمدشاہ کے دور میں 1719ءسے 1748ءتک وہی پھر دارالخلافہ بنا،آج یہ دارالخلافہ بہت تنہا اور افسردہ تھا جیسے اپنے مکینوں کی یاد میں گم سم پچھلے پانچ سو برس تغیرات کا امین حیران و پریشان بڑے بڑے چمن زاروں اور کشادہ سڑکوں سے گزرتے ہوئے ہم اُس بس میں بیٹھے جو سیاحوں کو شاہی محل تک لے جاتی تھی۔ چاروں اطراف پھیلے سبزہ زار کہیں کہیں تاریخی عمارتوں کے خاموش آثار اکبر کے اس اُجڑے ہوئے شہر کی شام کو سوگوار بنا رہے تھے۔ دُور سے ہی قوالی کی مخصوص آوازیں اُجڑے ہوئے دارالخلافے میں زندگی کی گونج کی طرح اُبھر رہی تھیں۔ سفید سنگ ِمرمر کے اس چھوٹے سے مزار کے کشادہ صحن میں قوالوں کی جماعت اپنی بھرپور فنکاری کا مظاہرہ کر رہی تھی کیونکہ سلیم چشتی کے مزار کے تھڑے پر اُس وقت کے وزیرِتجارت پاکستان امین فہیم اور ایک نوخیز حسین و جمیل لڑکی ،غالباً سیکرٹری اور بہت سے دیگرملازموں کے ہمراہ تشریف رکھتے تھے۔ اکبر کی سلیم چشتی سے عقیدت و محبت کی انتہا کہ اس کوچہ تصوف میں اپنا دارالحکومت قائم کر دیا۔ آج یہ شکستہ دارالحکومت تو ویران پڑا تھا لیکن کوچہ تصوف آج بھی زائرین سے بھرا تھا۔ پھول اور عقیدت بھری چادریں چڑھانے والوں کی کمی نہ تھی۔ عجب ماجرئہ عشق و دل ہے یہ بھی، یہاں سے کوئی ایک کلومیٹر کی دُوری پر شاہی ایوان سنسان کھڑے ہیں۔ بہترین ترتیب اور نظم ونسق کے ساتھ یہاں کئی شاہی عمارتیں تعمیر کی گئی تھیں یہ انتہائی ویل پلینڈ شہر بنایا گیا تھا، یہیں اکبر کے نورتنوں کا ظہور بھی ہوا، یہیں ایرانی اسلامی طرزِتعمیر میں مقامی اور ہندومت کے مظاہر کو بھی ہم آمیز کیا گیا۔ آگرہ کے قریب لال پتھر کے ذخائر موجود تھے۔ سو تمام عمارتیںاسی پتھر سے انڈین اور ایرانی طرزِتعمیر کا نمونہ بنائی گئیں۔ شاہی محلات کئی ایوانوں پر مشتمل تھے،خیموں کا اسٹائل اسلامی طرزِتعمیر کی یادگار ہے۔
ٹھہرے ہوئے پانی کے تالابوں پر تعمیر ایوانوں پر شام کے ڈھلتے سائے طلسم بن کر چھا رہے تھے۔ شاید یہ ایوانِ عام ہو جس کے مضبوط ستون پانیوں میں کھڑے تھے اور اُن کے اُوپر بے شمار دروں، زینوں، برآمدوں، غلام گردشوں، جالیوں، ستونوں ،کشادہ محل کھڑا تھا، پھر اُس کے اُوپر شاندار تعمیر، پھر اُس کے اُوپر اس طرح کہ ہر ایک ایوان کے سامنے کشادہ صحن موجود رہتا، یوں ہر منزل دوسری سے بہت پیچھے ہٹتی چلی جاتی۔ ہر منزل پر اِکّا دُکّا سیاح گھوم رہے تھے۔ محل کے سرخ پتھروں پر ڈوبتے سورج کی شفق، اساطیر کے پرانے کھلے ورقوں میں آگ دہکا رہی تھی، جیسے یہ محل کے ایوان نہ ہوں کسی مصور کی تخلیق کو سرخ رنگوں نے سینچ دیا ہو۔ اسی ایوان میں خیموں کی عکاسی کا عنصر شامِل ہے۔ چوگردشی نہر کے گرد تعمیر یہ ایوان کسی سوگوار نظم کی طرح معلوم ہوتا تھا۔ کسی افسردہ دیوی کی طرح کسی خاموش مُغنیہ کی طرح۔ کسی اُداس سُر کی طرح، سورج ڈوب رہا تھا۔ تالابوں میں ٹھہرے کاہی زدہ سبزپانیوں میں سرخ پتھر کا عکس آگ دہکا رہا تھا۔

مختلف ایوانوں میں کتنی فن کاریاں، باریکیاں، نزاکتیں اور نفاستیں پتھروں کی نازک کٹائی، جالی ورک، گولائیاں اور چھدائیاں اتنی فن کاری اور خوبصورتی کہ لال قلعہ دِلّی مجھے تو اس کے مقابل بہت کم لگا اور لاہور کا شاہی قلعہ تو بس ایک قدیم تاریخی عمارت تخیل دھوکہ کھاتا تھا کہ قلعہ میں باقی بچ رہے یہ شاہی ایوان کیا حقیقی محلات ہیں یا مصورانہ تخیلات، سرخ پتھروں کا عجب آرٹ، جو اکبراعظم کے گنگاجمنی عقائد کا عکاس ہے۔

دیوی دیوتاﺅں کی شبیوں سے مزین ایک عالی شان مندر بھی جو جودہ بائی کے لیے تعمیرہوا تھا، جودہ بائی کارہائشی محل بھی یہیں تھا جس کی طرزِتعمیر میں سرخ پتھر کی عجب ماہرانہ کٹائی سے جھالریں، کنگرے، قوسیں اور Corvesبنے تھے، یہاں تہاں کئی ایوان، لیکن تالابوں کے کناروں کھڑے محلات جن کے درمیان بنے تخت کورواں پانیوں کے اُوپر سے گزرتی کشادہ سڑکیں مختلف ایوانوں سے ملاتی تھیں۔ یہاں شہزادیاں دبیز غالیچوں پر گاﺅتکیے لگا بیٹھتی ہوں گی اور نیچے بہتے حوضوں اور نہروں میں شنگرخی بجرے رواں رہتے ہوں گے۔ روشوں پر سے حسین کنیزیں کامدانی پشوازیں لہراتی کورنش بجالاتی ہوں گی۔ عجب منظر ہو گا۔ پُرشکوہ حسن، پُرجلال اقتدار، سب فنا، معدوم۔ قوالی کی صدا مزید تیز ہو گئی تھی۔ سبزپانیوں میں سُرمئی اندھیرا گھل رہا تھا۔ سُرخ پتھروں سے تراشیدہ فن پارے، ماضی کی یاد میں عنابی اُداس چہرے لیے یہ محلات بالکل خالی اور تنہا کھڑے تھے، عجب سوگوار اورپُروقارحسن، کیا روئے زمین پر کوئی چیز ان سے بھی خوبصورت ہو سکتی ہے۔

ارے تاج نہیں دیکھاآپ نے۔

عقب سے سفید ٹوپی اور ُکرتے پائجامے میں ملبوس گائیڈ سُرخ پتھروں کی شفق میں بھڑک اُٹھا۔

”نہیں ابھی نہیں۔“

”واہ کیسے صبر کیے بیٹھے ہو۔ تاج دیکھو گے تو باقی سب بھول جاﺅ گے۔“

تاج محل بر ِعظیم کے ہر باشعور شخص کی فنٹسی جس سے وابستہ متھ نے دُوراُفتادہ اُس پسماندہ گاﺅں میں بستے میرے بچپن پر بھی اپنے پروں کے سائے پھیلائے رکھے اور اب یہاں ہر ایک روک روک پوچھتا تھا۔

”تاج دیکھا۔“

شاپنگ کرتے ہوئے آگرہ کے بھیڑ بھرے بازاروں میں بھی، ہماری پاکستانی شناخت عیاں ہو جاتی اورہر دُکان دار ایک ہی سوال بن سامنے کھڑا ہو جاتا۔

”تاج دیکھا۔“

جس رِکشہ ڈرائیور نے ہمیں گرینڈہوٹل سے کانفرنس کے اختتام پر اُٹھایا۔ وہ مسلمان تھا۔ لگتا تھا، یہاں سفید ٹوپی پہن کر مسلمان اپنی شناخت کروانے کے درپے ہیں۔ اُس آٹوڈرائیور نے ہمیں پاکستانی جان کر ہمارے اسلامی جذبات خوب مشتعل کیے۔
”ایک پاکستان تو وہ ہے جہاں سے آپ آئے ہیں اور ایک چھوٹا پاکستان یہاں آگرہ کے قلب میں واقع ہے، جہاں پاکستان کے یومِ آزادی پر جھنڈا لہرایاجاتا ہے کسی شیوسینا کی کسی اکالی دل کی جرا¿ت نہیں کہ اس چھوٹے پاکستان کی حدود میں دخل اندازی کرے۔“
ہمیں معلوم تھا کہ وہ ہمارے جذبات کو کیوں بھڑکا رہا ہے،لیکن ہم میں سے کوئی بھی اُسے ٹپ دینے کے موڈ میں نہ تھا لیکن یہاں مسلمانوں کی مجموعی حالت انتہائی دگرگوں ہے۔ غربت، گندگی، جہالت ان چھوٹے پاکستانوں کا عمومی چہرہ ہے۔ ایسے ہی ایک چھوٹے پاکستان کی ایک تنگ و تاریک دکان کے سامنے اُس نے ہمیں لے جا اُتارا، اور اپنے بھائی بند کو آواز لگائی۔

”میم لوگ پاکستان سے آئے ہیں۔کیلے کے چھلکے کی اچھی اچھی ساڑھیاں انھیں دکھاﺅ۔“ وہ مصر تھا کہ ہم آگرہ کا یہ نایاب تحفہ ضرور خریدیں لیکن ہم کیلے کے چھلکے سے بنی ان اکڑی ہوئی گاڑھے رنگوں کی ساڑھیوں کو خریدنے میں کوئی دلچسپی نہ رکھتے تھے، پھر اُس نے آگرہ کا پسندیدہ سوال کیا۔

”تاج دیکھ آئے۔“

”نہیں ابھی نہیں۔“

”ارے نہیں دیکھا تو پہلے وہیں چلیے۔“

لگتا تھا جیسے سبھی کو ہمارے تاج نہ دیکھنے سے ڈیپریشن لاحق ہو رہا ہے۔ ہم پچھلے پانچ دن سے آگرہ میں مقیم تھے لیکن تاج کے دیدار سے محروم تھے تو تعزیرات جمالیات کی رُو سے سنگین جرم کے مرتکب ٹھہرے تھے۔ اب تو تاج سے ِچڑ سی ہونے لگی تھی۔ جوابی وار کیا۔
”تاج سے بھی زیادہ خوبصورت چیز دیکھی ہے ہم نے۔“

سفید اسلامی ٹوپی کے نیچے لال لال آنکھیں پھٹ گئیں۔

”بھئی اس دُنیامیں تو تاج سے خوبصورت دوسری کوئی چیز نہیں ہو سکتی۔“

”ہے نا فتح پور سیکری کا قلعہ۔“

”ارے وہ! ہندوانہ کلچر کی یادگار،جودہ بائی کا خوشامدی شہکار، اکبر کے دینِ الٰہی کی تعبیر۔“

وہ ہماری نالائقی پر اسلامی ٹوپی کے اندر اندر مسکرایا۔

”لیکن کاری گری تو دیکھو،پُرکاری اور فنکارانہ عظمت تو دیکھو۔۔۔“

اُس نے سامنی گاڑی میںٹھکتے ٹھکتے زور سے بریک لگایا۔

”اُس کے بنانے والے تو انجینئرز ہوں گے نا، لیکن تاج محل تو کسی شاعر کا تخیل ہے کسی مصور کی تخلیق ہے کسی سنگ تراش کا الوہی مجسمہ ہے واہ! آپا آپ دیکھیئے تو سہی سب بھول جائیں گی،تاج عجب تعویذ ہے جس کسی کی آنکھوں سے مس ہوتا ہے توباقی سب نظارے دُھندلا جاتے ہیں۔“

”ارے یہی تو۔۔۔ اس سے وابستہ رومانی داستانوں نے ہی تو اسے یوں بڑھاچڑھا کر پیش کر رکھا ہے کہ باقی سب کو کیموفلاج کر گیا ہے۔ دیکھے اَن دیکھے اس عشق کی یادگار پر سب عاشق ہیں، ہم برصغیر کے باسی جس پتھر کو چاہیں خدا بنا لیں اور پھر اُس کی پرستش کے لیے جتنے چاہیں پجاری اکٹھا کر لیں۔ ہمارے عقائد جس قدرسخت ہیں۔ اُتنے ہی لچکیلے بھی۔“

اب تو اندر ہی اندر تاج سے مخالفانہ جذبات اُبھرنے لگے تھے جس نے فتح پور سیکری کے لامثال سوگوار حسن کو بھی کیموفلاج کر لیا تھا۔ ان آگرہ والوں کی گفتگو کا سوتا تو جیسے آگرہ کے منبع سے ہی پھوٹتا ہے، جس سے ملو ایک ہی سوال:

”تاج دیکھا، ارے ابھی تک نہیں دیکھا تو پھر کیا دیکھا۔“

سارک رائٹرزکانفرنس میں شرکت کی دعوت جب ملی تھی تو سب سے پہلا ردّ ِعمل یہی تھا۔ نہیں فراغت نہیں ہے جانے کی، لیکن اس دعوت میں ایسا لاسہ چھپا رکھا تھا، کہ بال و پر پھڑپھڑانے کی جرا¿ت نہ ہوپائی تھی۔ اس باریہکانفرنس آگرہ میں منعقد ہونا تھی، جہاں کہیں تاج محل بستا ہے۔

کانفرنس کے اختتامی سیشن کے بعد معلوم ہوا کہ کل کا دن ہماری زندگیوں میں بہت اہمیت اختیار کر جانے والا ہے کیونکہ ہم تاج محل کی سیر کو جا رہے ہیں۔

انتہائی گنجان آباد کوڑے کرکٹ اور مکھیوں سے بھری ٹوٹی پھوٹی سڑکوں والے علاقوں سے گزرنے کے بعد ہم ایک وسیع و عریض پارکنگ میں جا کر بسوں سے اُترے۔ یہاں سے بگھیوں پر سوار ہو کر لوگ کہیں کو جا رہے تھے۔ ہم سمجھے تاج محل کو یہ بگھیاں جاتی ہوں گی۔ اس شاہی یادگار تک شاہی سواروں کو ہی جانے کی اجازت ہو گی۔ یہ دھواں چھوڑتی پٹرول پیتی، شورمچاتی مشینیں توشاہی جوڑے کی نیند میں مخل ہوتی ہوں گی لیکن جب بگھیوں سے اُترے تو معلوم ہوا کہ سامنے جو بلڈنگ موجود ہے۔ یہ تاج کو لپیٹے ہوئے نہیں ہے بلکہ تاج محل کو جانے والے وزٹرز کے پا سپورٹس اور دیگر شناختیں یہاں چیک کی جاتی ہیں اورجو شک و شبے سے بالاتر قرار پاتا ہے۔ اُسی کو تاج کی زیارت کا پروانہ جاری ہوتا ہے۔ بنگلہ دیش، بھوٹان، نیپال، مالدیپ، حدافغانی بھی کلیئرہو گئے لیکن سداسدا کے مشکوک لوگ پاکستانی روک لیے گئے لیکن جانا تو سبھی کو اکٹھے ہی تھا۔ اس لیے کلیئر ہو چکے بھی وہیں رُک گئے۔

یہاں ایک ہجوم تھا جو کاغذات کلیئر کروا کر لمبی لمبی ٹرامز میں سوار فتح مندی کے پھریرے لہراتے ہوئے ہماری نگاہوں کے سامنے تاج کو جاتا تھا۔ ایک ہم تھے کہ عمارت کے سامنے بچھی فٹ پاتھوں پر اُداس اور ناکام بیٹھے تھے۔تبھی ایک نوعمر لرکا گھوڑے کے ماسک پر سوار کرتب دکھاتا ادھر آ نکلا جس کا ساتھ ایک ڈھولچی دے رہا تھا۔ افغانیوں نے اس ڈھول کو اپنے قبضے میں لیا اور خٹک ڈانس کی بیٹ پر پورا افغانی گروپ رقص کرنے لگا۔ بس پھر کیا تھا پاکستانی دھمال پارٹی کو تو یوں لگا جیسے یہاں تاج محل کے شہر آگرہ میں اُن سے دوبارہ کشمیر چھن گیا ہو۔ وہ بس میں سے اپنا ذاتی ڈھول اُتار لائے اور اب جو بھنگڑے کی تھاپ بجی ہے تو دھمک دُور تک گئی۔ سیکڑوں ہزاروں کا مجمع پل بھر میں گرد جمع ہو گیا۔

عجب سماں بندھ چکا تھا۔ وہاں موجود بیشتر سیاح اپنے پاسپورٹس اور دیگر شناختی دستاویزات چیک کروانے کا عمل اِلتوا میں چھوڑ کراس بھنگڑا ناچ میں شریک ہو چکے تھے۔ نیپال، بھوٹان، مالدیپ کی رائٹرز لڑکیاں جین شرٹس میں ملبوس،ساڑھی بندی والیاں چوڑی دار پائجاموں اور گھیردار فراکوں والیاں ہم پاکستانی خواتین بھی ایک طرف دُبکی کھڑی تھیں۔ نیلی پیلی پگڑیوں والے سکھ، گھیردار شلواروں والے افغانی، نیلی آنکھوں والے گورے اور گوریاں ایک انٹرنیشنل رقص کا نمونہ پیش کیا جا رہا تھا۔ رقاصوں کا دائرہ وسیع ہو رہا تھا۔ تالیاں بجانے والوں کی دیواریں کنکریٹ ہو چلی تھیں۔ نئے آنے والے ڈھول کی بیٹ سے بندھے انسانی دیواروں کے روزنوں سے جھانکتے اور بے اختیار رقص کے دائرے میں شامِل ہو جاتے تو کچھ تالیاں بجانے والوں میں۔۔۔ بھنگڑا تھاپ نے ایک خودفراموشی کا ماحول طاری کر رکھا تھا۔ ہر سرگرمی تھم گئی تھی جاری کام اِلتوا میں چلا گیا تھا۔ بس ایک ہی ضروری کام بچا تھا۔ بھنگڑا، بھانگڑا، جھومر، گھومر، بے پناہ خوشی اور بے قابو جذبات کا بے اختیار اظہار بھنگڑا، جس کی نزاکتوں کو سیکھنے کے لیے برسوں کی ریاضتوں اور پیشہ ور اُستادوں کی ضرورت نہیں پڑتی۔ بس اندر سے، دِل سے، رُوح سے کوئی الوہی سا جذبہ پھوٹتا ہے اور ہاتھ اور پیردیوانہ وار ڈھول کی مخصوص بیٹ کا ساتھ دینے لگتے ہیں۔ مغلوں کی پہلی راج دھانی اُترپردیش کے اس تاریخی شہر آگرہ میں پنجاب کے شوخ رنگ بکھرے تھے اور مادھو لال کے دربار کے دھمالی اپنے لمبے چمکدار پٹوں اور پھرتیلے جسموں کے ساتھ مرکز ِنگاہ تھے۔ گزشتہ سب سارک ممالک کے ثقافتی شو میں وہ صوفیانہ دھمال سے سبھی ثقافتی طائفوں کو پچھاڑ چکے تھے اس وقت بھی تماشائی تاج محل کی زیارت کے بے تابانہ دباﺅ سے کسی حد تک باہر نکل آئے تھے۔

تبھی نورسجاد ظہیر سراسیمہ سی چلی آئی تھیں۔رائٹرز فیسٹیول میں وہ کوچیئرپرسن تھیں، وہ پاکستانیوںکے پاسپورٹس اُٹھائے لائی تھیں اور تیر کی تیزی سے عمارت کے اندر چلی گئی تھیں۔اب انتظارکی کوفت شروع ہو گئی تھی اِدھر اُدھر تانک جھانک، شاید کہیں سے تاج محل کی کوئی کترن کوئی جھلک پڑ جائے پارکنگ سے بگھیوں میں سوار ہو کر یہاں پہنچنے اور اس آفس کے اِردگرد پچھلے ڈھائی تین گھنٹے گزارنے کے دوران ایک ہی سوال حیران کیے جاتا تھا۔ تاج محل ہے کہاں؟ کہاں چھپا رکھا ہے، اس تاج محل کوکہانیوں، روائتوں، شاعروں، مصوروں، سنگ تراشوں کے متخیّلہ کی مہمیز کوہم میں سے ہر کسی کے بچپن کی طلسم نگری، نوعمری کاخواب نگر، پختہ عمری کا حیرت کدہ، تاج محل نظاروں کی پہلی چاہت، محلات کا تاج۔۔۔ تاج محل جس کی تعمیر، ڈیزائن، اخراجات، عرصہ¿ تعمیر، کاریگروں کی مہارت اور فن کاری، اتنی حیرت ناکیاں، میتھ اور فنٹسی ہمارے گوہرنایاب کوحافظوں کا سرمایہ تھی اور وہ سبھی احساسات جو حصول سے بالاتر چیزوں سے وابستہ ہو جاتے ہیں۔ آج ہم اس سب کا نظارہ کرنے والے تھے۔ اس احساس کا دباﺅ ہی بدن میں سنسنی پیدا کرتا تھا اور متخیّلہ کو ایک مرکزپر لا کر جھنجھوڑ ڈالتا تھا۔ تاج محل محلوں کا تاج جسے 1983ءمیں یونیسکو نے عجائبات زمانہ میں شامِل کر لیا ہے، جس کی تعمیر1632ءمیں شروع ہوئی اور1653ءمیں مکمل ہوئی اور جس کے کاریگروں کی محنت یوں تمام ہوئی کہ اس کے بعد ان کی ہمتیں جواب دے گئیں ۔ اسی لیے اس جیسا معجزہ دوبارہ ظہورپذیر نہ ہو سکا۔ اتنا سرمایہ صرف ہوا کہ مغلیہ خزانے خالی ہو گئے۔ ممتازمحل کی محبت نے جسے یوں سیراب کیا کہ لازوال بنا دیا۔ گوہیربیگم ایرانی شہزادی جو چودھویں بچے کی پیدائش کے دوران مر گئی تو شاہ جہاں دو مہینے تک اپنے کمرے سے باہر نہیں نکلا اور جب اس حزن گاہ سے باہر آیا تو سر کے تمام بال سفید ہو چکے تھے، پھر اُس نے اپنی محبت کی اس انتہا کو رہتی دُنیا تک زمین کے سینے پر نقش کرنے کا فیصلہ کیا اور محبت کے غیرمرئی احساس کو مجسم شکل میں منتقل کر دیا۔ تاج محل بارگاہِ محبت، تاجوں کا تاج جس پر شاعروں نے شعر کہے انشاءپردازوں نے نثرپارے تخلیق کیے۔ مصو روں نے مرقع کھینچے، سنگ تراشوں نے مجسّمے تراشے، ہر پریمی نے اپنی پریمیکا کو تحفے میں اس ماڈل کو پیش کیا۔ گھروں میں اس کی شبیہ سجائی گئی، قالینوں، کپڑوں،برتنوں پر اس کا ڈیزائن کندہ کیا گیا، اس کی نقل میں عمارتیں تعمیر ہوئیں، محبوباﺅں نے، بیوئیوں نے طعنہ دیا۔

”تم کونسا میرے لیے تاج محل بنا لوگے۔“

تو ساحرلدھیانوی پکار اُٹھا۔

اِک شاہ نے بنا کر تاج محل

ہم غریبوں کی محبت کا اُڑایا ہے مذاق

قصہ گوﺅں نے کہا۔ تاج کو آپ دیکھیں گے، تو اُسے دل میں بسا کر ساتھ لے جائیں گے۔تاج محل کو دیکھنا کوئی معمولی نظارہ نہیں ہے۔ وہ خوش قسمت اور مقدر کا دھنی ہے، جس کی نظریں اس عظیم نظارے سے ہم کنار ہوتی ہیں اور آج ہم یہ غیرمعمولی نظارہ کرنے جا رہے تھے۔ آج ہم بھی مقدر کے دھنی کہلانے والے تھے۔ آج ہماری نظریں اس عظیم نظارے سے گراں بار ہونے کو تھیں۔ نورسجاد ظہیر معاملات طے کر کے اس وسیع عمارت سے باہر نکل رہی تھیں۔ اب ہمیں اُن ٹرامز پر سوار ہونا تھا، جو ہماری نظروں کے سامنے پچھلے تین گھنٹے سے فاتحین کی شاہانہ سواریوں کی طرح رُخصت ہو رہی تھیں۔ بگھیوں پرسوار ہو کر اِدھر اُدھر تاج کی متلاشی نگاہیں بھٹکتی رہی تھیں، شاید کہیں تاج کا کوئی ذرہ کوئی کونا نگاہ کی حد کو ُچھوجائے، اور اب یہاں ٹرامز پر سوار متجسس نظروں سے تاج محل کو سب ڈھونڈتے تھے لیکن وہ تو محلوں کا تاج ہے۔ تاجوں کا تاج ہے۔یوں آسانی سے نظر کے تیر کا شکار تھوڑی ہو گا۔

ٹرام نے جہاں اُتارا وہاں سڑک کے اطراف بنی دُکانوں میں نوادرات بھرے تھے۔ خواتین دُکانوں میں گھس گئیں۔ اللّٰہ! تاج کے راستے میں کیسی کیسی رکاوٹیں حائل کررکھی ہیں،ان ترغیبات سے دامن چھڑا کر کئی داخلی دروازوں والے واک تھرو گیٹ کی سمت بڑھے، چیکنگ کے مراحل سے گزرنے کے بعد نگاہیں پھر متلاشی ہوئیں۔ اب تو تاج نظر آنے کو ہی ہے یہیں کہیں اِردگرد ہمارے آس پاس ہم کتنا اہم اور خاص محسوس کر رہے تھے خود کو لیکن ابھی عشق کے امتحان اور بھی تھے۔ دائیں ہاتھ پردے لگا کر چھوٹے چھوٹے کیبن بنائے گئے تھے جہاں خواتین گارڈز نے بھرپور تلاشی لی، جسموں کی، کپڑوں کی، پرسوں کی، ان تمام مراحل سے گزارا گیا جن سے گزرتے ہوئے ایئرپورٹس پر بدمزہ اور زِچ ہو جاتے ہیں لیکن تاج کی کشش کہ یہ درگت بھی بُری نہ لگی۔ طویل لائنوں میں لگنے اور تلاشی کے مراحل سے گزرنے کے بعد جب باہر نکلے تو سامنے مغلیہ طرز کا وسیع و عریض باغ تھا، جس میں داہنے ہاتھ سُرخ پتھروں سے بنا روشن چراغ سا بلندوبالا بیرونی دروازہ کھڑا تھا۔ پورا گروپ بے تابانہ اُسی سمت بڑھا یقینا تاج اسی کے اندر کہیں چھپا تھا، لیکن پھر روک دیا گیا۔ معلوم ہوا ٹکٹ چیک کیے جا رہے ہیں۔

آخر تاج محل کو اتنا چھپا کر کیوں رکھا جاتاہے؟ بتایا گیا کہ بابری مسجد کی شہادت کے بعد تاج محل کو انتہاپسندوں کی جانب سے خطرہ لاحق ہے۔ معبدگاہوں سے مخاصمت تو مذاہب کی تقابلی ضرورت ٹھہری لیکن محبت گاہوں سے دُشمنی کن نفرتوں کی زائیدہ ہے۔ گروپ کے اراکین وہیں تراشیدہ باڑوں، پھولوں کی کیاریوں اور مغلیہ طرز کی روشوں کے جلو میں تصویریں بنانے لگے کہ آخر تو یہی باغ ہے جو تاج محل کو سمیٹے ہوئے تھا۔ اسی کی آغوش میں کہیں تاج چھپا تھا۔ آخرکار حکم ہوا کوچ کرو، پورا گروپ لال پتھروں سے تعمیر، بغلی چوبرجیوں والے بلندوبالا گیٹ کی سمت رواں ہوا، اور داخل ہوتے ہی پتھر ہو گیا۔ تاج یکبارگی پورے کا پورا ہماری بصارتوں میں گھسا چلا آیا تھا۔ کوئی جگ مگ ہیرا جیسے بہترین تراسوں والا دودھیا موتی شعاعیں چھوڑتا ہوا۔ ستمبر کی تیز دھوپ میں نہایا ہوا چاندی کا بجرا،اتنا شفاف، اس قدر نیا، اتنا تروتازہ، اتنا قریب، اس قدر مکمل اور شگفتہ آنکھ کے گل دان میں کھلتا ہوا شاداب کنول، ادھ کھلی نازک پنکھڑیوں پہ دھرا ہوا پورا چاند، آنکھ کے تل میں سماتا ہوا جہانِ حسن آبِ شبنم سے بھری سفید گلاب کی کٹوری جیسے، شفاف چھلکتا ہوا کرسٹل کا جام، دم سادھے، سانس روکے ساری حسیات بصارتوں میں تبدیل ہو گئیں۔ کیا آنکھ کی اس ذرا سی پتلی میں اتنی کشادگی اتنی تابناکی سہارنے کی اہلیت بھی کہیں چھپی تھی؟ آنکھ سمندر میں یہ براق بجرا ہلکورے کھاتا ہوا ۔۔۔ تاج محل مغلیہ طرزِتعمیر کے بہت نظارے کیے اس نور کی چٹکی نے، لال قلعہ، جامع مسجد، قطب مینار، ہمایوں کا مقبرہ اور بہت کچھ لیکن جستہ جستہ سلسلہ بہ سلسلہ، آگے پیچھے ،دائیں بائیں پھیلے ہوئے مناظر آنکھیں پھٹی بھی، حیران بھی ہوئیں لیکن ذرہ ذرہ، بتدریج آہستہ آہستہ ایسا تو کبھی نہ ہوا کہ مجسم حُسنِ، مجسم حیرت، مجسم طلسم، مجسم سحر، مجسم چاند، مجسم سورج، ایک ہی نظارے میں سب ہم آمیز گھسے چلے آئیں۔ ایک مکمل جہان، ایک بھرپور تکمیل، سنگ ِمرمر سے تراشا ہوا یہ شاداب پھول آنکھ کے گل دان میں یوں آن کھلا تھا جیسے یہ اُسی کے ناپ کا قالب ہو۔ کیا یہ تاج ہر ایک کے ساتھ ایسا ہی کرتا ہے، جیسے ہی آپ بیرونی دروازے میں داخل ہوتے ہیں تاج فضاﺅں میں تیرتا ہوا آپ کی نگاہوں میں لبالب جست بھر کر سما جاتا ہے۔ وہاں کے قصہ گو کہتے ہیں”آپ تاج کو اپنے دل میں سما کر اپنی آنکھوں میں بسا کر لے جائیں گے اور پھرعمر بھر اسے خود سے الگ نہ کر پائیں گے“۔

اب ہم تاج کی سمت بڑھےµ تو تاج پیچھے ہٹنے لگا۔ وہ جو ہاتھ بھر کی دُوری پر دکھائی دیتا تھا۔ وہ بہت دُور ہو گیا۔ ہم بڑھ رہے تھے تاج ہٹ رہا تھا۔ سُرخ پتھر کی روشوں کے دونوں اطراف تراشیدہ باڑیں اُن سے پرے کھلے ہوئے چمن زارِ دونوں روشوں کے درمیان شفاف پانیوں سے بھری کشادہ نہر فواروں سے چھلکتی۔ تو ہم آگے بڑھ رہے تھے۔ تاج پیچھے ہٹ رہا تھا۔ سب سے پہلے ہمیں اُس چاندی سے چبوترے نے روکا، جو ایک کشادہ حوض کو اپنی آغوش میں سمیٹے ہوئے تھا۔ سفید بُراق سنگ ِمرمر کے اس تخت پر بے داغ سفید پتھروں سے بنچ بنے تھے جو دھوپ میں قلعی شدہ ظروفوں کی مانند جگ مگ تھے، جن پر بیٹھ کر جوڑے تصویریں بنوا رہے تھے۔ فوٹوگرافر گلوں میں کیمرے لٹکائے گھومتے تھے۔ قصہ گو تاج کی رومانی داستان سناتے تھے۔ سفید سنگ ِمرمر کے یہ دو تخت جس حوض کو گھیرے ہوئے تھے اس کے دائیں بائیں نہریں نکلتی تھیں، یہاں کا سارا منظر جنت ِسماوی کے قرآنی تصوّرکو پیش کرتا ہے۔حوضِ کوثر سے نکلتی تسنیم اور سلسبیل یہاں سورہ فجر کی یہ آیت کندہ ہے:”وَادخ±ُلنی جَنَّتی“ جس کا ترجمہ ہے(اور داخل ہو جا میری جنت میں) اور ہم جنت میں داخل ہو رہے تھے۔ یہ جنت ِارضی زمین سے بہت اُوپر کہیں بلندیوں میں لیے جاتی تھی۔ عجب احساس تھا جیسے خدا کی صناعی کا یہ ٹکڑا ابھی تازہ تازہ زمین سے پھوٹا ہو کہ عرشوں سے اُتارا گیا ہو۔ شاید یہ اس آیت ِقرآنی کے تعویذ کی برکت تھی کہ داخل ہونے والے اُنھی حیرتوں اور احتراموں سے آگے بڑھ رہے تھے کہ وہ جنت میں تشریف لاتے ہوں۔ شاہ جہان اور ممتازمحل کی محبتوں کی لامثال جنت ِارضی اس چبوترے پر جنتیوں کی بھیڑ تھی۔ ان سب کو جنت میں داخلے کے پروانے مِل چکے تھے۔ یہاں سے تاج کا نظارہ بدل گیا تھا۔ اب تاج محل بہت بلند کہیں فضاﺅں میں اُستوار نظر آتا تھا جیسے پنکھ پھیلائے راج ہنس کوکہا جاتا ہے۔ تاج اپنے رنگ اور موڈ بدلتا رہتا ہے۔دِن کے مختلف اوقات میں، بدلتے موسموں میں دن رات میں شاید اس لیے کہ یہاں ایسی آیات کندہ ہیں جن میں وقت کے بدلتے مزاجوں کی خداتعالیٰ نے خود قسم کھائی ہے۔ مختلف اوقات میں مختلف رنگ کبھی دودھیا، سپیدئہ سحر سا ،کبھی زرد دوپہری سورج سا۔ کبھی دُھند میں لپٹا ڈھلتی شام سا شاید سورہ فجر، الشمس جیسی آیات کی تاثیر ہے یہ تاج محل کا کنواں براق سفید ہے لیکن اِردگرد پھیلے مناظر اُسے کئی رنگوں میں لپیٹے ہوئے ہیں۔ پھولوں کے شوخ رنگ حوضِ کوثر سے نکلتی سلسبیل اور تسنیم کے سبز نیلے موتیا رنگ۔ کہتے ہیں بارش میں بھیگے تاج کی چھب نرالی ہے جب وہ قوسِ قزح کے رنگوں میں رنگ جاتا ہے۔ ابھی تاج اپنی دُودھیا چھب سے سورج کے سنہرے میں نہا گیا تھا، جیسے چاندی پر سونے کا پانی چڑھا ہوا، شاید اب یہ سورہ الشمس کا معجزہ تھا۔یعنی ”قسم ہے سورج کی اور اس کی دھوپ کی“ اور یہاں یہ قسم مجسم ہو رہی تھی۔ پورا تاج سورج اور اس کی دھوپ میں جگمگا رہا تھا۔ ہمیں قصہ گوﺅں اورفوٹوگرافروں نے گھیر رکھا تھا۔ تاج کا سیراب کھینچتا تھا، یہاںپھر دو روشوں کے درمیان بہتی شفاف پانی کی نہر تاج تک چلتی ہے، جس میں تاج کا عکس جھلملاتا ہے۔ آسمانی رنگ ٹائلز والے شفاف پانیوں میں تاج کا منظر، تسنیم و سلسبیل کی آغوش میں اُترتا ہوا تاج جیسے آئینے میں اپنا عکس دیکھتا ہو اور خود ہی حیران ہوتا ہو۔ ”اللّٰہ رے میں“ شاید یہ سورة الضحیٰ کی کرامت ہو، جس کی آخری آیت ہے۔ ”وَاَمّا بنعمتہ ربک فحدث“ او ر جو نعمتیں ہیں تہارے رب کی ان کو خوب بیان کرتے رہنا ،اور تاج محل ان نعمتوں کی مفصل تفسیر تھا۔ ان آیات کو کندہ کرنے کا کیا مقصد رہاہو گا۔ شاید محبت کے اس تعویذ کی تاثیر بڑھانا مقصود ہو۔شاید بارگاہِ محبت میں داخل ہونے کے آداب سکھاناہوں شاید اس جنت ِارضی سے جنت ِسماویٰ کی حقیقت سمجھاناہو۔

تو ہم بڑھ رہے تھے تاج ہٹ رہا تھا، جیسے کوئی سراب، جیسے کوئی طلسمی محل، جیسے نظر کا دھوکا، لیکن یہ حقیقت تھی، ناقابلِ یقین حقیقت کہ ہم تاج محل میں موجود تھے تاج سامنے تھا، اور ہم اپنی ننگی آنکھوں سے اسے ٹک ٹک دیکھتے تھے۔ جوتے رکھوائے اور ننگے پیر اُس وسیع و عریض صحن میں داخل ہونے کو سیڑھیاں چڑھنے لگے، جس کے چاروں کونوں میں تاج کے بیرونی مینار کھڑے ہیں۔ بیسوﺅں فٹ اُونچا صحن لیکن یہاں پہنچنے کو مختصر کشادگی والے یہی زینے ہیں، کہا جاتا ہے روزانہ تقریباً تین ہزار سیاح یہاں آتے ہیں۔سبھی کو جوتے اُتار کر انھی زِینوں سے اُوپر جانا ہوتا ہے کہ یہ بارگاہِ محبت ہے کہیں سوئے ادب نہ ہو جائے۔ ستمبر کی دھوپ میںسفید ٹائلز تپ رہی تھیں۔ چند قدم چلنے سے پیرچھالوں سے بھر گئے۔ کاش ہمارے قدموں تلے سرخ قالین بچھے ہوتے۔ کسی مُلک کے شہزادے شہزادیاں نہ سہی لیکن اس وقت تو سبھی خاص تھے کہ تقدیرنے اُنھیں تاج محل دیکھنے کے لائق بنا دیا تھا۔ جنت ِارضی میں داخل ہونے کا اعزاز بخشا تھا۔تاج محل کے شایانِ شان پروٹوکول ملنا چاہیے تھا۔سفید بے داغ سنگ ِمرمر سے آراستہ وسیع و عریض صحن کے چاروں کناروں پر ایستادہ بلندوبالا میناروں کے درمیان ممتاز محل کا مقبرہ۔۔۔ جس کا داخلی دروازہ کھلا تھا اور لوگ فاتحہ خوانی کے لیے داخل ہو رہے تھے۔ منتظمین یہاں زیادہ دیر کھڑا نہ رہنے دیتے تھے، دائیں ہاتھ سے چکر شروع کرو اور بائیں ہاتھ سے باہر نکل جاﺅ، سنگ ِمرمر کی جالی کے اندر دو قبریں ممتازمحل اور شاہ جہاں، ایک بڑی ایک نسبتاً چھوٹی قبر، ممتازمحل کی قبر پر لکھے خدا کے ننانوے نام ۔ جالی کے پیچھے چوگردشی کمرے ہر کمرے کے دروازے کے بالمقابل سیدھ میں پھر وہی سنگ ِمرمر کی نفیس جالیاں۔ بالکل اسی طرح جیسے تاج کے بیرونی دروازے میں پورا تاج بھر آتا ہے۔ ان جالیوں سے باہر کا منظر ہویدا تھا اور سورج کی روشنی اندرچھن رہی تھی۔ چھت پر مختلف رنگوں کی نقاشی ،ہلکے گہرے نیلے،بھورے، ہرے رنگ کاشی کاری، میناکاری، شیشہ گری کے نادر نمونے دیواروں پر آیاتِ قرآنی کی خطاطی کے علاوہ نجانے کس کس فن کی باریکیاں اور نفاستیں قبروں کے عین اُوپر گنبدنما چھت اس گنبد کے کئی بیضوی ٹکڑے جن کی سڈول گولائیاں دھیمے رنگوں کی نقاشی سے نمایاں تھیں۔ درمیان میں اُبھرے ہوئے مرکز کے ساتھ فانوس جھولتا تھا۔ شاید یہ بھی آثارِ قدیمہ کا حصہ ہو۔ ذرہ ذرہ آرٹ، نفاست و کاریگری، رنگ اور فن، چپہ چپہ آراستہ اور درمیان میں یہ پریمی جوڑا سوتا تھا۔ قبریں تو کہیں بہت نیچے تہ خانوں میں ہیں۔ نشانیاں اُوپر دھری ہیں۔ اس شاہی جوڑے کی محبت کی شاہانہ نشانی تاج محل، یہاں بھیڑ بہت تھی۔ چوگردشی کمروں میں داخل ہونے سے روکا جا رہا تھا۔ جلدی جلدی باہر نکالا جا رہا تھا۔ جنت ِارضی کے ساکن تو گہری نیند سوتے تھے۔ اُنھیں یہ بھیڑ بھاڑ کہاں پسندہو گی۔ ایک نے جلد ہی دُنیا سے منہ پھیر لیا اور دوسرا جو اس جنت کا معمار تھا وہ بیس برس ایک ہی نظارہ کرتا تھا۔ تاج محل کا نظارہ ۔

باہر نکل کر تاج کے چاروں طرف چکر لگایا۔ چھونے کی ممانعت نہ تھی، یہاں اِردگرد کوئی حفاظتی باڑ نہ لگائی گئی تھی۔ اُوپر نیچے سفید سنگ ِمرمر کی قوسیں جن میں نفیس جالی ورک تھا۔ اُوپر وہ گنبد جس نے فنِ تعمیر کے ماہرین کو آج بھی ورطہ¿ حیرت میں ڈال رکھا ہے، جس کے گرد آٹھ مینار کھڑے تھے۔ فن کاری کے ایسے نمونے کہ تاج محل کو عجائباتِ زمانہ میں لکھوا گئے۔ ہم تاج محل کی پچھلی طرف چلے گئے، جہاں جمنا کا کنارہ تھا اور دُور پرے آگرہ فورٹ نظر پڑتا تھا۔ یہیں کسی قفس میں یہ پریمی بادشاہ قید رہا ہو گا جس کی ایک ہی خواہش تھی کہ اُسے ایسے زندان میں رکھا جائے جس کا روزن تاج محل کی سمت کھلا ہو۔ لال پتھر سے بنا آگرہ فورٹ اکبر کا تعمیرکردہ محل ہماری نظروں میں تھا۔ اتنا دُور کہ بمشکل اُس کے خدوخال نمایاں ہو پاتے تھے۔ قیدی بادشاہ کو بھی کیا تاج یونہی دُھند میں لپٹا نظر آتا ہو گا لیکن نہیں تاج کی تو یہ عجب خوبی ہے کہ جتنا دُور ہٹو اتنا قریب، واضح اور بڑاہوتا چلا جاتا ہے، پھر قیدی بادشاہ کی آنکھوں میں تو اس کا خواب جاگا تھا وہ انجینئروں کے اُس گروہ کا سربراہ تھا جس نے تاج محل کو دُنیا کے نقشے پر عجوبہ بنایا وہ آنکھیں بند کرے یا کھولے تاج تو وہیں کہیں بستا ہو گا۔

بہت نیچے جمنا کنارہ، پانی اُتر چکا تھا۔ کبھی لبالب بھرا ہوتا ہو گا جس طرح تاج کے سامنے کا عکس تسنیم و سلسبیل میں جھلکتا تھا۔ بغلی منظر جمنا میں اُترتا ہو گا جہاں تاج محل کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے لیے فنِ تعمیر کے انوکھے طریقے اپنائے گئے تھے۔ وہی جمنا جہاں سے کشتی پر رکھ کر تاج محل کے معمار کا جسدِخاکی لایا گیا تھا اور اپنی ہی بنائی ہوئی جنت میں دفن ہوا تھا، اگر اورنگ زیب اوتاولا نہ ہو جاتا تو تاج کے سفید سنگ ِمرمر کے بالمقابل سیاہ سنگ ِمرمر سے اسی طرز کا ایک اور محل تعمیر ہونا تھا جس کا ڈھانچہ بن چکا تھا، پھر خزانہ جواب دے گیا اور شاہ جہان کا اقتدار بھی اور زنداں خانے کا روزن بیس برس تک حلقہ¿ چشم بنا رہا۔ درمیان میں جمنا حائل جس میں تاج بھیگتا تھا۔ عجب اُداسی کے رنگ بکھر گئے تھے۔ تاج اُداس بھی ہو جاتا ہے۔ دن ڈھل رہا تھا تاج پر اُداسی کے ملگجے رنگ چڑھ رہے تھے۔ دائیں ہاتھ سرخ پتھر سے بنا میوزیم تھا جس میں مغلیہ عہد کی تاریخی اشیاءموجود تھیں جو کہیں بھی ہو سکتی تھیں۔ لال قلعہ دلّی، بادشاہی قلعہ لاہور اور کہیں بھی، لیکن تاج کہیں اور نہیں ہو سکتا۔ برصغیر میں موجود تمام تاریخی عمارتوں کے ماتھے کا جھومر، مغلیہ آرکی ٹیکچر کا تاج، جس کی ایک ایک اینٹ سفید تابدار موتی سی جگمگاتی تھی۔ تاج اس تمام جزئیاتی حسن کو ایک مکمل معجزے کے اسرار میں سمو لیتا ہے۔ہم واپس جا رہے تھے۔ تاج ہماری سمت بڑھ رہا تھا پیچھے پیچھے چلا آتا تھا۔ مڑمڑ کر دیکھتے۔ تاج ہمارے ساتھ ساتھ تھا۔

شفاف روشوں پر سے گزرتا ہوا تاج، سلسبیل و تسنیم میں نہایا ہوا تاج، حوضِ کوثر سے اُبھرتا ہوا تاج، جس کی آرچوں کی براق جالیوں میں یادوں کے دِیپ جلتے تھے۔ ہرہرکٹ ورک میں جیسے نور کی پتلیاں رکھی ہوں جیسے آنکھوں کے پیالے وہیں حیرت سے کھلے رہ گئے ہوں۔ ہم چوبرجیوں والے عظیم الشان دروازے سے باہر نکل رہے تھے، جس کی تمام کشادگیوں اور رفعتوں میں تاج بھرا تھا، جیسے کہتا ہو کس سمت سے بچ کے نکلو گے، آنکھ کے تل میں سماتا ہوا جہانِ حسن، دل کی کٹوری میں کھلتا ہوا سنگ ِمرمر کا سفید کنول، مورپنکھ پہ دھرا محبتوں کا دِیپ،قصہ گو کی صدا، حوضِ کوثر سے اُبھرتی تھی۔ آپ جب یہاں سے جائیں گے تو تاج کو ہمراہ لے جائیں گے۔
جی توکلی آ

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *