تمنا کی وسعت کی کس کو خبر ہے محبت اور اس کی سبھی نرم شاخیں گزشتہ صدی سے بدن کی رگوں میں نمو پارہی ہیں تمنا کی ترشی زباں سے حلق تک گھلی جارہی ہے نظر اور حدِ نظر تک نظارے کہیں بہتے جھرنے، کہیں ابر پارے تیرے نام کی اس سنہری مہک سے چمکنے لگے ہیں یہ بستی، جو ...
Read More »Monthly Archives: November 2018
انجیل صحیفہ
میں اور تم آسمان ہمیشہ سے اوپر ہے کبھی جھکتا نہیں اور زمین ابتداء افرینیش سے زمین پر ہی ہے یہ اشارے کنائے سمجھتی ہے اور اپنے ہی محور پر گھومتی ہے آسمان غصے میں غرائے تو زمین گرد میں اپنا بدن لپیٹے رقص کرنے لگتی ہے وہاں سے توجہ کی چند بوندیں ٹپکیں تو یہ یہاں مہک مہک کر ...
Read More »امداد حسینی
ترجمہ: الیاس عشقی حملہ شب کے شب خون میں اک تیرہ شبی کا خنجر دہر کے سینہِ بیدار میں حسبِ معمول وار بھرپور تھا ؛ پیوست ہوا قبضے تک رو کے خاموش ہوئی گنبدِ مسجد میں اذان میوزیم میں کہیں اوندھی گری گوتم کی شبیہہ نے شکستہ ہوئی ؛ نوحے تھے نہ نغمے باقی جام زہراب کا یونان کے دانا ...
Read More »اکبر بارکزئی
عالم ئے اسرار کوہ باریں بِچکند اَنت؟ گوات باریں گُژنگ بنت؟ نود باریں تُنگ بنت؟ مور باریں سر شودانت؟ باریں پُل ہم گند اَنت؟ رَنگ ہم نپس کش اَنت؟ روچ وَشدلی زانت اِنت؟ ماہ باریں سُہبت کَنت؟ آس باریں آپُس بِیت؟ آپ واب ہم گند اِنت؟ باریں سِنگ وڈوک و ڈل چُک وپیر و ورنا بنت؟ باریں مُہرگ و مُشتک ...
Read More »افضل مرادؔ
نظم ایک کمزور بنیاد پر ایستادہ یہ بوسیدہ دیوار ، جو اپنے سائے سے محروم ہوتے ہوئے اپنے نابود ہونے سے بھی بے خبر۔۔۔!۔ جس کے چار وں طرف وحشتوں کا نگر جن کے اعصاب پر میرے ہونے کا ڈر ۔۔۔!۔ روز آتا ہے وہ روز اپنا تماشا دکھاتا ہے وہ میرا صبر وسکوں چھین جاتا ہے وہ خستہ دیوار ...
Read More »افضال احمد سید
کیا محبت کہیں کھو گئی ہے کیا محبت کے لئے کبھی تمہارا لباس سر نگوں نہیں ہوا یا تمہارا دل آراستہ بالکنیوں سے فاختاؤں کے ساتھ ہوا میں بلند نہیں کیا گیا میں نے رقص کو فاصلے اور رقاصہ کو قریب سے دیکھا وہ تھک کر میرے زانو پر سو سکتی تھی مگر وہ اپنے دل سے تیز نہیں ناچ ...
Read More »افضل مرادؔ
ایک پرانی رسم گاؤں کے جوہڑ سے اکیلی پا نی بھرنے جاتی ہوں آتے جاتے نادیدہ آنکھوں سے ڈرتی جاتی ہوں اپنے لرزتے اورالجھتے لہجے سے اماں ابا کو باہر کے وحشت کے قصے سناتی ہوں شک کی بنا پر تھپڑ گھونسے کھاتی ہوں بھائی کے غصے سے اس کے سرخی مائل آنکھوں سے ڈرتی جاتی ہوں مشکیزہ رکھ کر ...
Read More »احمد وقاص کاشی
” امن کا نوحہ ” اُداس نظمیں اُداس غزلیں اُداس مطلعے ُُاُداس مقطعے اداس لوگوں کی داستانیں سُنا رہے ہیں….. کہ کس گلی میں ہے کس کو مارا کہاں ہوا کون کون زخمی یہ میری سادہ سی نظم جس کا ہر ایک مصرع سس ک سس ک کر بتا رہا ہے…..۔ کہ نظمِ انسان میں کب کہاں پر بگاڑ آیا ...
Read More »احمد شہریار
”وقت” 1 پرانی حویلی کے اک خستہ و سالخورہ سے کمرے میں رونے کی آواز ۔ بچے کے رونے کی آواز ۔ ادھر کچھ صداؤں کی آپس میں سرگوشیاں قہقہے اور گھٹتے ہوئے قہقہے اور پھر خامشی وقت چلتا رہا 2 محلے کے اک گھر میں جلتے ہوئے قمقموں کی دھنک اور ڈھولک کی تھاپ نشۂ رقص میں محو قدموں ...
Read More »احمد شہریار
بوڑھے شاعر کا ہذیان 1 مار دے گا مجھے عمرِ فانی کا دکھ۔۔۔ یہ مرے دل میں کروٹ بدلتا ہوا رائگانی کا دکھ۔۔۔ کون ہے تو! تو کیا کہہ رہا تھا میں؟؟؟ ہاں! آسماں راکھ ہے۔۔۔ ہے دراڑیں زمیں اور زماں راکھ ہے ایش ٹرے میں پڑے میرے سگریٹ دھواں ہیں، دھواں راکھ ہے۔۔۔ اور اس راکھ میں دل سلگتا ...
Read More »