Home » شیرانی رلی (page 80)

شیرانی رلی

February, 2018

  • 12 February

    غزل ۔۔۔ رابعہ بصری 

    کہاں یہ وقت کہاں یہ دیار ٹھہرے گا کہاں یہ تخت کہاں تاجدار ٹھہر ے گا فقط یہی کہ تیرا انتظار ٹھہرے گا “نہ گل رہے گا چمن میں نہ خار ٹھہرے گا ” وہ جس نے چوم کے سولی کو جان دے ڈالی وہی مسیحا میرا داغدار ٹھہرے گا ہمارے بس میں اگر ہو تو روک لیں تم کو ...

  • 12 February

    غزل ۔۔۔ اسامہ امیر 

    اک تجسس لئے جب گوشہ نشیں ملتے تھے تو گماں کاٹ کے دونوں کے یقیں ملتے تھے ایک عادت تھی جو ہم دونوں میں مشترکہ تھی اور وہ یہ کہ محبت سے نہیں ملتے تھے ہم کو ماحول نے چھوڑا نہیں جانے کا کہیں شام ہوتی تھی تو دریا کے قریں ملتے تھے کتنا حیران پریشان ہے وہ چہرہ جسے ...

  • 12 February

    کوئی تو آئے ۔۔۔ فیصل ریحان

    کوئی تو آئے فضا میں تازہ بشارتوں کی نوید لائے تمام غم بیچ دے ہمارے اور اس کے بدلے مسرتیں کچھ خرید لائے کوئی تو آئے کوئی تو آئے جو تپتے صحرا میں ابر پارے کا عکس رکھ دے ہمارے ظلمت بھرے افق پر کسی چمکتے ہوئے ستارے کا عکس رکھ دے کوئی تو آئے کوئی تو آئے جو غم ...

  • 12 February

    نظم بہتی آنکھوں کا خواب  ۔۔۔ سلمیٰ جیلانی 

    میں خواب دیکھتی ہوں یہ ست رنگی صبح کا خواب نہیں کچھ ستے ہوئے سے چہرے ہیں کھائیوں سے ابھرتی دکھ کی گہری پرچھائیاں ہیں بہت سی آنکھیں چھم چھم نیر بہاتی ہیں بارش برستی رہتی ہے کوئی دیکھتا نہیں گائے کو سر پر بٹھائے وہ مدقوق انسانوں کی بلی دیتے ہیں ماں میرے چہرے پر گائے کا مکھوٹا چڑھا ...

  • 12 February

    مہلبیں برپیچک ۔۔۔ عبداللہ شوہاز

    زندگی ساھکندنئے ارجان پدا وھدئے ہر گام ئے سفربیگا نگیں روچ آتی کشک مٹ کتگ ماہ ئے اوں بانزل پُرشتگ اَنت کوہانی دروشم مٹ اِتگ گوات ئے کوار اکُنٹگ اَنت چو نیم جانیں بلی یے پہ کجّوک و ناکامیں دلے دیم پہ گلانی میتگا ٹمبان و کتانیں رون شال ئے ہمک دمک ودران درچکانی تاکان سرچناں چوبانا شکیں شکّ دیان ...

  • 12 February

    آدرش ۔۔۔ نور محمد شیخ

    اے میرے اچھّے دل ، تم اپنا آدَرش کبھی نہ بھلانا زندگانی میں تُند مزاجی سے بچ کر شانت ہو کر چلو تیز رفتاری سے بچ کر دھیرج سے چلو ہر اچّھے انسان: عورت ، مردکا خلوصِ دل سے احترام کرو قلم، کاغذ، کتاب انسانی تہذیب کا دَرہیں اِن کی روشنی میں رہو اپنی دَھرتی ، اپنا آسمان ہماری پناہ ...

  • 12 February

    غزل ۔۔۔ اسامہ امیر 

    درختوں پر لکھی ہوئی نظمیں پہلی بارش سے بہ آسانی دھوئی جا سکتی ہے برہنہ آدمی گفت گو کرتے ہوئے اپنی زبان کو پوشاک پہنا دینے میں ماہر ہے اور بہت احتیاط سے زبان کو چھری بنا دینے میں بارش ہونے سے پہلے میں نے اپنے ارد گرد تمہارے جسم کے غبار سے ڈھال بنا لی ہے اب کے سال ...

  • 12 February

    سعید مزاری

    کھپتی ئیں مرشاں منی دل چو کہ بیمارے کفی پھیریہاآ ھلکے آ مسیتا چو گناہ گارے کفی شہ رگا دستا جناں یالامکانا سرگراں من ترا پھولاں بکو ار گو تھہ مئیں کارے کفی.

January, 2018

  • 12 January

    نثری نظم ۔۔۔ نور محمد شیخ

    خود کو خوش اَسلُوبی کے ساتھ زندہ رکھو جینا بہت اہم جیے جاؤ حصولِ منزل تک جیے جاؤ یہ نہ سوچو: میری زندگانی کب تلک!؟ بس جیے جاؤ ڈگمگاتے قدموں کے ساتھ بجھتی ہوئی نظر کے ساتھ کم زور جسم وجان کے ساتھ جتنا لکھ سکو، لکھتے رہو جتنا پڑھ سکو ، پڑھتے رہو بس جیے جاؤ غیر مُہذِّب اور ...

  • 12 January

    ہم شاعر ہوتے ہیں ۔۔۔ ڈاکٹر وحید احمد

    ہم پیدا کرتے ہیں ہم گیلی مٹی کو مٹھی میں بھینچا کرتے ہیں تو شکلیں بنتی ہیں ہم ان کی چونچیں کھول کے سانسیں پھونکا کرتے ہیں جومٹی تھے وہ چھو لینے سے طائر ہوتے ہیں ہم شاعرہوتے ہیں کنعان میں رہتے ہیں جب جلوہ کرتے ہیں تو ششدرانگشتوں کو پوریں نشتر دیتی ہیں پھر خون ٹپکتا ہے ، جو ...