Home » شیرانی رلی (page 5)

شیرانی رلی

April, 2022

  • 23 April

    ملامت ۔۔۔ گوہر ملک

    زندئے پیژگاہا واہگ و ارمان روک بنت موتک کاریت شپ رپتگین ترانگ نوک بنت بے وسی جیڑیت دل زھیرانی پلوا ترونگیں ارسان پہک کنت ارس و پرسیگ کا ملیں زندئے ہر متاہ سکیاں زندئے زیراں امبازاں وشیاں تیلانک دیاں روچ کندیلے کہ مریت سہب ئے دروشما کندگو بچکند موتکو زاری ہچ نہ بیت گوں دلا جیڑاں چوں بہ رکیناں من ...

  • 23 April

    غزل ۔۔۔  عبدالرحمن غور

    تمہاری بزم کا دستور ہم سمجھتے ہیں کوئی تو ہے تمہیں منظور ہم سمجھتے ہیں ہمیں خبر ہے یہ قصرو کاخ ہیں کس کے کہ فرقِ خواجہ و مزدور ہم سمجھتے ہیں صلیب ودار سے اَ بتک لہو ٹپکتا ہے حدیث عیسیٰ و منصور ہم سمجھتے ہیں نہ چُھپ سکے گی کوئی داستان ِ جُرم و سزا ہر ایک جام ...

  • 23 April

    بیدل حیدری

    فاقوں سے تنگ آئے تو پوشاک بیچ دی عریاں ہوئے تو شب کا اندھیرا پہن لیا گرمی لگی تو خود سے الگ ہو کے سو گئے سردی لگی تو خود کو دوبارہ پہن لیا بھونچال میں کفن کی ضرورت نہیں پڑی ہر لاش نے مکان کا ملبہ پہن لیا بیدلؔ لباسِ  زیست بڑا دیدہ زیب تھا اور ہم نے اس ...

  • 23 April

    اک ذرا دیر ۔۔۔ رؤف قیصرانی

    اک ذرا دیر میری دوست بس اک ذرا دیر تیرے نکھرے خیالوں سے اجالوں کی شفق پھوٹے گی تیرے لفظوں کی دھنک رنگ سے اس ابر کے موسم کو قرار آئے گا اک ذرا دیر میری دوست فقط چند ہی لمحوں کا صبر تو نے مرتی ہوئی خواہش کا دھیاں رکھا ہے میرے اندر کی جنوں خیز تڑپ کو بھی ...

  • 23 April

    Aqsa

    In moment still this war Has taken way too far The sight of snow-capped peaks The sound of our Rabab The smell of lavish grass In moment still, this War Has opened up ajar The sight of burning valleys The sound of crashing blasts The smell of ashened grass The moon is at it’s edge O river steep and wide ...

March, 2022

  • 11 March

    آخر کب تک ۔۔۔ رخسانہ صبا

    چلتے چلتے کیسے موڑ پہ آنکلی ہوں شہرِ جبر کے ان سنگین حصاروں سے باہر آئی تو دل کو کیسی خوش فہمی تھی میرے ساتھی یہ سمجھے تھے ہم منزل تک آپہنچے ہیں لیکن اب تو سارا چہرہ دھول ہوا ہے سر پر خاک ہے پاؤں کے چھالے اب تو دل تک آپہنچے ہیں   میری ماں کے شانوں پر ...

  • 11 March

    مجھے بولنے دو ۔۔۔   مطربہ شیخ

    میں جانتی نہ تھی کہ میں صرف بدن ہوں میں جانتی نہ تھی کہ میں صرف وحشت کی ساتھی ہوں میں جانتی نہ تھی کہ میری عمر کتنی ہے تین سال۔ چار سال۔ سات سال۔ تیرہ سال سولہ سال۔ بیس سال ساٹھ سال یا قبر میں مردار مجھے تو بس یہ بتایا گیا کہ تو صرف جسم ہے تو وہ ...

  • 11 March

    مہمیز ۔۔۔ میرساگر

    چالیس اْونٹیں نوّے گھوڑے اَسّی بھیڑیں لاکھ پیادے تیرے آگے چلتے ہیں لاکھ سپاہی پیچھے، پھر بھی اے سردار!۔ مْجھ ناچار کے سر سے چادر کھینچتا ہے

  • 11 March

    عورت ذات ۔۔۔ ناصرہ زبیری

    جلتا سورج، راہیں لمبی ننگے پاؤں، دْور ہے ندی ٹیڑھا پینڈا، گہری وادی موڑ مْڑے گی کب پگڈنڈی کبھی میں رکھوں راہ پہ آنکھیں کبھی اْٹھاؤں رکھ کے گگری   کبھی یہ سوچوں کنکر، پتھر توڑ نہ ڈالیں میری جھجھری کبھی نکالوں کْھلتا گھونگھٹ کبھی سمیٹوں گِرتی چْنری کبھی نکالوں پیر سے کانٹا کبھی سنبھالوں سر پر مٹکی ”بہت کٹھن ...

  • 11 March

    ہچکی ۔۔۔  قندیل بدر

    سنتی بھی ہو کبر کی ماری مٹی کی ڈھیری کتنے سال پرانی ہو گئی یہ تیری چمڑی دیکھ چکی ہے کتنے منظر آنکھوں کی پتلی تھاپ چکی ہے ان ہونٹوں پر کتنے من سرخی کیا کیا ہڑپ لیا ہے تو نے بھوک بھری تھالی کتنا پانی جذب کیا ہے کتنی سانسیں لیں ناپ سکی ہے ان پیروں سے کتنے میل ...