Home » شیرانی رلی (page 12)

شیرانی رلی

September, 2021

  • 16 September

    نظم ۔۔۔  رابندر ناتھ ٹیگور

    جب میں مر جاؤں آپ کے آنسو بہیں گے لیکن میں نہیں جانتا اس کے بجائے اب میرے ساتھ رونا   آپ پھول بھیجیں گے، لیکن میں نہیں دیکھوں گا اس کے بجائے انہیں ابھی بھیجیں   آپ تعریف کے الفاظ کہیں گے لیکن میں نہیں سنوں گا۔ اب میری تعریف کرو   آپ میری غلطیاں معاف کر دیں گے، ...

  • 16 September

    وقت کی دھوپ ۔۔۔ ڈاکٹر فوقیہ مشتاق

    کبھی کبھی ایسا لگتا ہے خلا کے اندر ہی سب کچھ ہے سناٹوں کی اپنی ہی آوازیں ہوتی ہیں اور ان آوازوں کا سننا مشکل ہوتا ہے آنے والے لمحے خوف دلاتے ہیں ماضی مستقبل تک پیچھا کرتا ہے کچھ نہ نظر آنے کا خوف بہت ہوتا ہے لیکن بینائی کی اپنی قیمت ہوتی ہے سب کچھ سامنے آجائے تو ...

  • 16 September

    عورتیں ۔۔۔  نیلم احمد بشیر

    بڑے شہر کی عمر رسیدہ متمول تنہا عورتیں متروک پرانی حبس زدہ حویلیوں کی مانند اپنے سنسان بدن لیے تازہ ہوا کے لالچ میں تنہائیوں کی بالکونیوں پر لٹکی رہتی ہیں۔ پرندے جن کے آشیا نوں سے اڑ چکے ہیں سایئں سایئں کر رہے ہیں دل کے خالی مکان ترستے ہیں کسی موہوم نے سی آہٹ کو مدتوں سے لٹک ...

  • 16 September

    مسودے میں نہیں لکھ سکتے ۔۔۔  طوبی سہیل

    گرم ہواکی تابناکی سے غازہ ِگلال میرے درخشندہ چہرے سے ہوامیں تحلیل ہوجاتاہے۔ ان حسرتوں کاتخمینہ لہب نمالوگ کسی صورت بھی بھگت نہیں سکتے جوشِیرخواردل میں بس جاتی ہیں۔ اکھڑلہجے اکثروبیشتر جستجوؤں کی رودادکی شہہ رگ پہ چاقوچلاتے ہیں۔ نچڑتے خون سے سلیقہ ِگفتگوکا پاس نہیں رکھاجاتا، امیدکادامن میری انگلی کو اپنے باتھ سے چھوڑدیتاہے۔ خاکستری بدن مضحمل ہوتے ہوئے، ...

  • 16 September

    غزل ۔۔۔  عشرت آفرین

    ساعت نا مہرباں کا خوف ہے ایک مرگِ ناگہاں کا خوف ہے   رنج پھولوں کے بکھرنے کا نہیں ہم کو خوشبو کے زیاں کا خوف ہے   لوگ بازی ہار بیٹھے جان کی آپ کو اپنی دکاں کا خوف ہے   کارِ ہستی ہو یا کارِ نیستی آپ کو سود و زیاں کا خوف ہے   ہم نے آنکھیں ...

August, 2021

  • 10 August

    افتخار عارف

    جاہ و جلال, دام و درم اور کتنی دیر ریگِ رواں پہ نقش قدم اور کتنی دیر اب اور کتنی دیر یہ دہشت، یہ ڈر، یہ خوف گرد و غبار عہدِ ستم اور کتنی دیر حلقہ بگوشوں، عرض گزاروں کے درمیان یہ تمکنت، یہ زعمِ کرم اور کتنی دیر پل بھر میں ہو رہے گا حسابِ نبود و بود پیچ ...

  • 10 August

    مبارک قاضی

    دنیا دنیادار نہ بیت من چے بہ گشاں یار کہ گوں من یار نہ بیت من چے بہ گشاں   پْشت ءَ  چندے تھلیں ترانگ پش گیج ایت وھد کسی پادار نہ بیت من چے بہ گشاں   مولم وش اِنت گوات سبک آ کشان اِنت دؤر ئے  سرا  آچار نہ بیت من چے بہ گشاں   تو بِلّے  چماں ...

  • 9 August

    خس کم جہاں پاک ۔۔۔ علی زیوف

    محبت کی بھیک مانگتے ہوئے تمہیں چار سال کا عرصہ بیت چکا ہے۔ پھر بھی سلیقہِ گدائی نے تمہارا ہاتھ نہیں تھاما اس خوف سے کہ تمہیں لاج کی پاج رکھنا نہیں آتی۔ تم بھیک میں ملی خوشیاں اک سگریٹ کے پیکٹ یا چائے کی پیالی کے عوض بیچ دیتے ہو۔ رات  پیٹ کا جہنم بھرنے کے لیے تم نے ...

  • 9 August

    ابھی تو ہمارے جاگنے کے دنوں نے آنا تھا ۔۔۔ (آئی اے رحمن) ۔۔۔ کشور ناہید

    رحمان صاحب! جو کچھ آپ نے لکھا اتنا تو فرشتے بھی نہ لکھ سکے ہوں گے وہ تو لوگوں کے گناہ و ثواب لکھتے ہیں اور آپ ان کی داستان لکھتے تھے جن کو نہ قلم بردوش صحافی لکھتے تھے اور نہ مسجدوں میں خطبہ دینے والے آپ کبھی کبھی خدا کی آواز بن کر ہمارے نام کے مسلمان لوگوں ...

  • 9 August

    یہ عید کے دن ہیں  ۔۔۔ فاطمہ حسن

    ملبوس کے رنگوں میں بسی عطر کی خوشبو آنچل میں بندھے چند کھنکتے ہوے سکے کچھ روز انہیں سنگ گذاروں گی خوشی کے یہ عید کے دن ہیں چاہت کی مسرت کی سبھی یادیں ہیں اچھی ان یادوں کے سائے میں ہے اک چھوٹی سی بچی جو مچلی تھی مہندی کے لئے چوڑی سے بہلی کچھ روزاسی سنگ گذاروں گی ...