شاعری

*

راستہ ایسا بچھایا گر پڑے ہم گر پڑے منزلوں نے یوں اٹھایا گر پڑے ہم گر پڑے وقت کے زینوں سے اٹھے تھے ہمارے تو قدم اس نے کیا چکّر چلایا گر پڑے ہم گر پڑے مست بے خود جھومتے ہی جا رہے تھے رقص میں جوں جوں ہم کو ...

مزید پڑھیں »

درد

درد کی کوئی شکل مُرتّب ہو پاتی تو درد کوئی آہو ہی ہوتا درد کوئی قطرہ ہوتا تو ممکن تھا آنسو ہی ہوتا درد کی کوئی شکل مُرتّب ہو پاتی تو درد دِیا یا مندر ہوتا درد مسیت یا کوئی گرجا یا پِھر شاید منبر ہوتا درد کوئی موسم ہوتا ...

مزید پڑھیں »

تخلیق

  بہت سی ادھوری کہانیاں میرے گیسوئووں کی بل کھاتی زہریلی ناگنوں میں پھنکارتی ہیں ہمیں مکمل تو کردو، کہ ہم سانس لینا چاہتی ہیں ہمارے عنوان، خزاں کے پتوں پہ قلم تھے جو نا جانے کب کے خس وخاشاک ہوگئے کہ تم بہاروں سے بھاگتے بھاگتے پرانے برگد کے ...

مزید پڑھیں »

نیلامی!!!

سوال کیا ہے؟ بظاہر کُچھ نہیں پر کُچھ تو ہے جو نوکیلے پنجے گاڑے ہوئے ہے جیسے کوئی خون آشام درندہ دانت نکوسے گھات میں ہو ذہن وہی سوچتا ہے جو آنکھیں دیکھتی ہیں اندر کُوئی ہے جو وقت بے وقت ستاتا ہے یہ بے کلی برداشت نہیں ہوتی پھر ...

مزید پڑھیں »

Hallucination

  ہمارے جسم کوہ ہسار و دشت سے دھتکارے جانے کے بعد بلا جواز دربدر بھٹکتے رہے۔ ہمارے سینے کوہِ آتش فشاں کی مانند دہکے۔ ہماری نرمل پوریں ہجرستانی کوچوں پر سفید رت سے ہمارے بوسیدہ خال و خد تراشنے لگیں۔ ہمارے نرم قدم بےمٹل چلتے رہے، عہدِ تجدید نے ...

مزید پڑھیں »

ادھورا لمس

  تمہارا وہ ادھورا لمس آج بھی کنوارہ ہے کہ جس کی تکمیل کی جستجو میں ، نہ جانے کتنے اتصال کر چکی مگر ایک کنواری پاکیزگی لیے ، یہ ازلی کنوارہ پن، قدیم مندروں میں، دیوتاوں سے بیاہے  جانے کی آس میں، کنواری مر مٹنے والی داسیوں کی مانند ...

مزید پڑھیں »

آوازیں ہم کو شہرِ عدم تک لے جاتی ہیں

  آوازیں آتی ہیں اَن جانی سمتوں سے اَن جان آوازیں آتی ہیں روشنیوں کے دائرے ٹوٹتے رہتے ہیں کہنے کو تو کتنا کچھ انسان کے دستِ بیش بہا میں ہے کتنے سیّاروں کی روشنیاں اِ ن آنکھوں کی قید میں ہیں کتنی دنیاو¿ں کی آوازیں اِن کانوں کے قفل ...

مزید پڑھیں »

حُور وَش

  خَلوت کے کینوس پر مُزین سبزۂِ نوخیز پہ ہم چاہت کی اوٹ لگائے بیٹھے ہیں۔ اوندھے امبر کے سائے تلے امرت ندی بہتی ہے۔ جس میں سنہری شگوفوں کے رَگ و رَیشے اے میری حُور وَش!! تمہاری مسکان کے توسط سے کھلتے ہیں۔ ہم مقامِ ہُو میں رہ کر ...

مزید پڑھیں »

اندھا کباڑی

  شہر کے گوشوں میں ہیں بکھرے ہوئے پا شکستہ سر بریدہ خواب جن سے شہر والے بے خبر! گھومتا ہوں شہر کے گوشوں میں روز و شب کہ ان کو جمع کر لوں دل کی بھٹی میں تپاؤں جس سے چھٹ جائے پرانا میل ان کے دست و پا ...

مزید پڑھیں »

دریا

میں دیوتاؤں کے متعلق زیادہ نہی جانتا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ دریا ایک طاقتور مٹیالا دیوتا ہے تند مزاج’ غصیلا اپنے موسمو‌ں اور اپنے غیظ و غضب کا مالک’ تباہ کن اور ان چیزوں کی یاد دلاتا رہتا ہے جنھیں انسان بھول جانا چاہتے ہیں خاتمہ کہاں ہے——- بے ...

مزید پڑھیں »