مست کا مصرع

(26جنوری1948……..26جنوری2016)
نسرین انجم بھٹی دھیمے لہجے کی شاعرہ تھی ۔افضل توصیف کی طرح وہ بھی خود کو ” بلوچ “ کہتی تھی ۔بلوچستان میں پیدا جو ہوئی تھی۔ اور پیدائش کی جگہ کے لیے زندگی بھر جو کشش اور چاہت رہتی ہے، وہی نسرین میں بھی تھی۔ باپ کا نام بن یامین اورماں کا ایلس۔ یعنی وہ مسیحی تھی۔
وہ عورتوں کے حقوق کے حق میں لڑنے والی سیاسی ورکر اور شاعرہ تھی ۔ یہ یاد نہیں کہ اس سے میری پہلی ملاقات لاہور میں کہاں ہوئی۔ اُس سے ٹوٹل پانچ چھ ملاقاتیں رہیں۔ایک آدھ تواس کے خاوند ز بیررانا کے ساتھ ادبی محفلوں میں ہوئی ۔ مجھے یہ عورت بہت اچھی اس لیے لگی کہ خاوندجب بقول ماما عبداللہ جان ” سرگرم“ رکھنے کا پانی زیادہ پی کر بہک جاتا تو یہ اس کی گندی گالیاں کہا کہا کر بھی محفل میں اسے خاموش کرانے کی جتن کیا کرتی تھی۔
ویسے تو تیسری دنیا میں عورت خواہ جس بھی عقیدہ، زبان اور نسل سے ہو اُس کے حقوق کا تو دُھر پھٹے منہ ہے۔ مگر مسیحی لوگ بہر حال کچھ بہتر ہیں۔ پھر نسرین کے ماں باپ تو نچلے طبقے کے محنت کش لوگ تھے۔ اور نچلے طبقے کے لوگوں میں مڈل کلاسی نخرے نہیں ہوتے۔ پردہ اور ” آئیے گا جائیے گا“ جیسے چونچلے تو درمیانہ اہلکاریت کے پخ ہوتے ہیں۔ اسی لیے اس کی نظمیں جاگیردارانہ لذت وصال اور کرب ہجر کااظہاریہ نہیں ہیں۔نسرین کی طبقاتی خصوصیت نے اُسے اِن اٹھکیلیوں سے بچائے رکھا ۔
اگلی مہربانی اُس پہ خدا نے یہ کی کہ وہ بلوچستان میں پیدا ہوئی ، کوئٹہ میں ہزارہ بچیوں کے ساتھ سکول میں پڑھی۔ یعنی اس کی ابتدائی تعلیم کوئٹہ میں ہوئی۔ جو پورے صوبے کا واحد سوک سنٹرتھا ۔ اسی سبب تو کلاس میں بلوچستان بھر سے بچے موجود تھے۔ مختلف زبانوں عقیدوں رنگوں کے لوگ۔ نسرین کا دماغ وسیع ہونے کا اس سے بہتر موقع اور کیا ہوتا!!۔
پھر فیملی سندھ چلی گئی،  اس نے جیکب آباد میں  تعلیم حاصل کی ۔ ڈومی سائل سندھ کا ہی بنا۔ سکالر شپ ملا اور لاہور سے فائن آرٹس میں گریجویشن کی ۔ لاہور میں پنجابی سے شادی کرلی۔ یوں پنجابی بھی ہوگئی۔
اس نے زندگی کا بیشتر حصہ لاہور میں گزارا۔
یعنی نسرین انجم بھٹی چار خاصیتیں رکھنے والی دانشور تھی۔ ایک بلوچستانی اوریجن، دوسرا مذہبی اقلیت سے تعلق، تیسری خاصیت یہ ہے کہ وہ ایک عورت تھی ( اورعورتوں کی طرفدار شاعر تھی)۔ اور چوتھی بات یہ کہ اس کا معاشی سماجی تعلق نچلے محنت کش طبقے سے تھا۔چنانچہ وہ اِن چاروں مظاہر کی دانشور اور شاعر تھی۔
حیران ہوں کہ جو انسان کوئٹہ میں پیدا ہو، حیدر آباد سندھ میں پلے بڑھے، لاہورپنجاب میں رہائش رکھے اور کراچی سندھ میں وفات پائے تو اسے دفن کہاں کیا جائے۔ مجھ سے پوچھا جاتا تو میں امیر الدین کی طرح اِسے بھی کوئٹہ دفن کرنے کی پیشکش کرتا  ۔

میں تو اُس کے خاوند نما رفیق، زبیر رانا کو جانتا تھا ۔اس کی کتاب میں نے پڑھی تھی۔ پھر جب اس سے واقف ہوا تو معلوم ہوا کہ وہ ایسے تلخ و خشک لہجے میں سچ بولتا تھا جتنا کہ سچ تلخ اور خشک ہوتا ہے۔ ننگے سچ۔ نسرین بے چاری انہیں تراش تراش کر کپڑے پہنانے کی کوشش میں لگی رہتی تھی(1)-مگر وہ تو خود ” عشق کا مارکسی تصور“ لکھ کربہت عرصہ ہوا مر گیا تھا۔ اس لیے چپ رہا کہ بے تکبر نسرین کو جہاں دو گز زمین ملے گاڑ دیا جائے۔

اب تو ” یو نی پولر“ گلوب میں برہمن ومرشد کے بطور کب کا باون ستارہ کا بام ( یا، شام) تسلیم ہوچکے ہیں۔ مگر نسرین ایک جینوئن سامراج دشمن شاعرہ تھی۔

پاکستان کی بیشتر زبانیں جانتی تھی، لیکن اُس نے اظہا رخیال پنجابی اور اردو میں کیا ۔
اور کیا جگر بُر شاعری تھی ، کیا من میں اترتا لہجہ تھا۔ کیا دریا سی روانی تھی۔ شعری الفاظ ایسے جیسے دشتِ بے دولت میں زرد و سفید و سرخ و نیلے رنگ کے گواڑخ وگلِ لالہ کے پھول جمع کر کرکے پرودیے ہوں۔ مقامی الفاظ۔ وسیع دامن پنجابی زبان کے الفاظ۔ بُلے شاہی زبان کے الفاظ مایا کوسکوی فکر کے ساتھ مل کر جو شاعری بنتی تھی وہی امرتا پریتم کی اِس رعیت کی ملکیت تھی۔ اُس کی اتھل پتھل نظمیں دل کو اتھل پتھل کردیتی تھیں۔ شاعرہ نسرین انجم بھٹی کے آنسو چیختے تھے اور اس کی چیخیں اشک بن جاتی تھیں۔
اندازہ کریں جس نے میٹرک میں ہی پرومی تھی یس پڑھا ہو اُس پہ آسمانِ دانش کتنا مہربان ہوگا۔ اسی لیے تو وہ فیوڈلزم اور مارشل لا کی ہمیشہ مخالف رہی۔ اسی لیے تو وہ ہمیشہ روشنی کی شاعرہ رہی ہے۔ روشنی اور آگ کی روشنی اس کا مستقل استعارہ رہی ہیں۔ وہ رقص، گانا اور پینٹنگ کی دلدادہ تھی۔ 1971 میں ماسٹرز کیا ۔ پنجابی میں ایم اے1997 میں کیا۔
1971 میں ریڈیو پاکستان میں پروڈیوسر لگی تو اُس کے شعور کے مزے ہوگئے۔ ریڈیو پاکستان اُس زمانے میں ایک ادارہ ہوا کرتا تھا۔ یہ شاعر، دانشور، ڈرامہ نگار، موسیقی کے لوگوں، صحافیوں اور علم و ادب کے دلداد گان کا اڈہ ہوتا تھا۔ وہاں نسرین انجم نے خوب سیکھا۔ موسیقی کے بارے میں ، شاعری کے بارے میں، مزاحمتی ادب کے بارے میں ، جمہوریت کے بارے میں ، محفل میٹنگ کے آداب کے بارے میں……..
وہ خود کہا کرتی تھی کہ ریڈیو پاکستان نے بطور آرٹسٹ میری گرومنگ میں اہم کردار ادا کیا۔ میں خوش قسمت تھی کہ یہاں مجھے امانت علی خان، وزیر افضال ، جی اے چشتی ، ظہیر کا شمیری ، صوفی تبسم، ناصر کاظمی اور منیر نیازی جیسی شخصیات کی صحبت ملی۔ نسرین انجم کو ریڈیو پاکستان کی پہلی خاتون سٹیشن ڈائریکٹر بننے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔
اس کی پنجابی بڑی ٹھیٹ ہوا کر تی تھی۔میں نے اپنے آپ پر جبر کرکے اُس کی پنجابی شاعری اور نثر پڑھ لی ۔ روانی اتنی کہ دل چاہتا ہے تیرتا گزر جاﺅں۔ مگر الفاظ اتنے اصلی اور” مقامی“ کہ آدھی بات سمجھ میں آجائے اور آدھی نہیں۔ میں نے اس قدر سُچی پنجابی کہیں اور نہیں پڑھی۔” مُٹھیاں مراداں دی بھال وچ اساں کہانیاں جوڑیاں تے نظماں کڈھیاں۔ گیت اُنے تے وچار وٹا ندرے کیتے۔ التھنا واں کیتیاں۔ جیہناں دامُل اوہناں دی قیمت نہیں سگوں قبولیت اے۔۔۔۔۔۔ ہاں نسرین! میں نے تمہاری پنجابی بغیر سمجھے بھی پڑھی۔ پشتو مثل ہے :” یار کی خاطر انسان گائے کاگوشت بھی کھالیتا ہے “۔
مگر میں نے اسے پڑھنا ترک نہ کیا ۔ جہاں لفظ سمجھ نہ آیا کسی سے پوچھ لیا، فیس بک پہ ڈال کر مطلب حاصل کیے ۔ ہاں ہاں ، نسرین بھٹی ، اے محنت کشوں اور عورتوں کی آواز شاعر ہ !میں نے تمہیں پڑھا ۔ تم واقعتا پنجابی نثری شاعری کا آغاز تھیں ۔ اور ہم عصر پنجابی شاعری میں سب سے بڑی شاعر۔
اور پھر جب ضیاءالحق سب کچھ لپیٹنے آیا تو نسرین محاذ میں اپنے حلیف صف کا انتخاب کرچکی تھی ۔ وہ اپنی مادری قومی زبان پنجابی میں آمریت کے خلاف اپنی شاعری کے تیر برسانے لگی۔ کوڑوں جیلو ں لاٹھیوں کا پورا دور اس پاک روح نے بغاوت و مزاحمت میں گزارا۔
جل بُھن جاتا ہوں جب ضیا کے خلاف برملا اور اونچی آواز میں شاعری کرنے والے کسی دانشورکو جغرافیائی سرحدوں میں بند کرنے کی مکروہ کوشش ہوتی ہے۔
اُس کے بعد تو ضیا کے لگائے جنگل کے پودے بڑھوتری کر کے درخت بن گئے ۔ پورا سماج اِن سے بھر گیا ، اُن کے کانٹے لمبے اور زہریلے ہوگئے۔ اور ہمارا پورا سماج ناقابل بیاں جہالت اور اندھیروں کی نذر ہوگیا۔جمہوری اور طبقاتی حقوق تو دور کی بات زندہ رہنے کا حق چلا گیا۔ اس پہ مشرقی یورپ میں عوامی جمہوری قوتوں کا انہدام مزید تاریکی انڈیل گیا۔ کالا جادو چھا گیا سماج میں۔ ایران افغانستان اور پاکستان پر مشتمل خطہ ڈنڈے، فرمان اور پھانسیوں کا تکون بن گیا۔ ایک ایک کرکے جمہوری ادارے برباد کیے گئے۔ مذہبی اور نسلی اقلیتیں گلا گھونٹ ہوتی رہیں۔
مگر ایک بات ہے۔انسان کی موت تو ایک بار ہوتی ہے اور قبر بھی ایک بار بنتی ہے۔ مگر ایک ظالم سماج سے پون صدی تک لڑنے والے انسان کی بھی ایک موت ہوتی ہے ؟ ۔کیا نسرین محض ایک بار مری؟۔ اور اگر نہیں تو روایتوں سے کھیلنے والوں کو کیسے سمجھاﺅں کہ ایک انسان کی کئی قبریں ہوسکتی ہیں۔ تصوراتی نہیں اصلی ، حقیقی۔ میں چونکہ حقوق نسواں کے لیے لکھتا رہا ہوں اس لیے  میں نے عورتوں کی تحریکوں کے بارے میں،عورتوں کے حقوق  کے بارے میں شاعری اور تحریریں بہت پڑھیں ۔ مگر جب اِسے پڑھا تواچھی طرح سمجھ میں آیا کہ عورت کی محکومیاں مجبوریاں کیا ہیں۔ غم واندوہ بھرا اس کا یہ شعر پڑھیے اور میری طرح سمجھنے کے لیے پنجابیوں کے آگے پیچھے دوڑ نے کی بجائے اس کا ترجمہ بھی پڑھیے اورسماج کی ایک قبر جیسی تاریکی کی گہرائی کا تصور  کیجیے۔
وے کیہڑا ایں میریاں آندراں نال منجی اُندا
میرا دل داون آلے پاسے رکھیں تے
اکھاں سرہانے بنے

ترجمہ:
تم کون ہو
میری آنتوں سے چار پائی بُننے والے
اور دیکھےے:
ہاتھوں میں چوڑیاں ہتھکڑیاں ہیں بج اٹھیں گی
پائوں میں جھانجھریں بیڑیاں ہیں
اب ذرا دیکھیے مزدوروں والی جیون قبر کا بیانیہ کیسا ہے ۔ ذرا یوم مئی کا definition تو دیکھو:
بے عزتاں دے میلے لگنے تے عزتاں آلیاں لٹنے
ایس ورھے کمیاں دے میلے تسیں وی آنا
ایس ورھے لیراں دے میلے تسیں وی آنا
ایس ورھے گڈیاں دے میلے تسیں وی آنا
ایس ورھے لعلاں دے میلے تسیں وی آنا
ایس ورھے سجناں دے میلے تسیں وی آنا
نثر ی نظموں کی خالق نسرین انجم کا تو اعلان تھا کہ عورت کے پسماندہ ہونے کا دکھ ہی میری شاعری کا دکھ ہے“۔
نسرین کی نظم ”تانبے کی عورت“ سے کچھ اشعار

ہتھوڑے کے ہاتھوں میں سونے کے کنگن
جچے کیوں نہیں
اور تانبے کی عورت
تپی ، تمتائی ، مگر مسکرائی ، جمی ہی رہی
کیوں پگھل نہ سکی
پاﺅں جلتے رہے ، وہ کڑی دھوپ میں بھی کھڑی ہی رہی
اس کے آنے تلک
لوٹ جانے تلک
نہیں اس کو سچ مچ کسی بت کی بھی
کوئی سدھ نہیں
نسرین جو صرف کوئٹہ کی جائی ہوئی نہ تھی وہ تو بلوچستان بھر کے لیے ترانے لکھنے والی ہماری ترجمان بھی تھی۔

یہ با کمال انسان نو کتابوں کی مصنف تھی۔ اس کا پنجابی زبان کے بے قدروں کے لیے لکھا مجموعہِ کلام ” نیل کرائیاں نےلکاں“ ہم نے ایک ایک لفظ کے مطلب پوچھ پوچھ کر پڑھا تھا۔” بن باس“ اردو کا مجموعہ ہے ۔” اپنی گواہی“ انگریزی سے اردو میں ترجمہ شدہ مجموعہ ہے ۔” جنم کے ساتھی“ سندھی سے اردو میں ترجمہ کردہ جی ایم سید کی یادیں ہیں۔ رت دا لیکھا، زندگی اور تصانیف، اٹھے پہر تراہ۔
یہاں ہم اُس کی ایک نظم ”کھدائی میں نکلی ایک سِل پر ملی عبارت “پڑھ کر آگے بڑھتے ہیں:

کھدائی میں جو شہر نکلا تھا
اس میں سب ڈھانچے عورتوں کے تھے
زندگی کی مشقتوں میں مصروف
پھول کاڑھنے، گندم پیسنے اورکوڑے کھانے تک کی حنوط شکلیں
جوں کی توں سب موجود تھیں
یوں لگتا تھا زلزلے کے دوران اس شہر کے مرد کہیں بھاگ گئے تھے
کیونکہ نیلے پر کھڑی ایک صابر عورت
جس نے عورت کا Matamarphosisدیکھا ، وہ وہیں جم گئی
ایسی عورت جو عورت راج اور عورت غلام دونوں طرز ہائے حکومت پر یقین نہیں رکھتی ہوگی
یہ عورت مجھے کہاں ملی جہاں میں کبھی نہیں گئی
مگر وہ تو میری ہڈیوں میں منتقل ہوتی رہی ہے
سورج پکنے تک میں اپنی ماں کی بیل سے لٹکی رہی
وہ آہستہ قدم عورت
مجھے سانس کی طرح آہستہ خرامی سے یہاں تک لائی
کہ میں کوڑے پڑنے تک کی اچانک چوٹ کو اسی آہستہ خرامی سے سہہ جاﺅں
دھوپ بہت تیز تھی اور سازش بہت گہری
اسی لیے میں انڈر گراﺅنڈ ہوگئی
کیونکہ چھپکلیوں اور عورتوں میں خوف اور تحفظ کا رشتہ ہے
ایک بڑی چھپکلی نے ایک خوبصورت مچھلی کا روپ دھارا
اور ایک خوبصورت مچھلی
آدھی عورت بنتے بنتے کسی بدنیتی کی نذر ہوگئی
کسی سازش نے اُسے پوری عورت بن کر جنمنے نہ دیا
میں تو ایک جنم پر بھی یقین نہ رکھتی
اگر یقین رکھنے کے لیے مجھے مٹی سے مٹکے نہ بنانے پڑتے
کسی گہری سازش کا شکار ہوئے شہروں کے ڈھانچے
پھر کن سودا گروں ، منافقوں اور بازار گروں کے منتظر ہیں
تجسیم کی تجدید جنموں کا پھیر ہے
رونا اور آنکھیں رکھنا زندگی کی سلامتی کی علامت ہیں
کھدائی میں مٹی ایک سِل کی عبارت

نسرین انجم بھٹی کی پنجابی شاعری کا مجموعہ ”شاملاٹ“2017کے وسط میں شائع ہوا ہے ۔ مزاج کے لحاظ سے یہ نظمیں نسرین کی پہلی کتابوں نیل کرائیاں نیلکاں ، اٹھے پہر تراہ اور بن باس سے مختلف ہیں۔”شاملاٹ“ بدلتے ہوئے سماج میں فکری آزادی کے محدود تر ہوتے چلے جانے کا استعارہ ہے۔ اس میں پدری معاشرہ سے پیدا ہوانیوالی عدم مساوات صنفی جدل اور تفریق کے حوالے سے احتجاج کا رنگ بہت واضح ہے ۔
اس نے نتھنے پھلانے والے مارشل لا کی پرواہ کی اور نہ وہ فیس بک کے بے فیس اور بے پتہ پروووکیٹ کرنے والے پنچمی کا لمسٹوں کی جال میں آئی۔ وہ انقلابی تحکم والی شاعری کی برادری میں سے نہیں ہے۔ وہ تو جیسے خود سے بول رہی ہو۔دل و جان سے اپنے نظریات کے ساتھ 75سال تک رہنے والا انسان محض ایک شہرکا نہیں پوری دنیا کے اچھے انسانوں کا میراث ہوتا ہے۔ مگر ایسے انسانوں کو تو قیر و احترام دینے کے لیے دِل دماغ بھی تو ایسا چاہیے۔
اگر کوئی ایک فقرے میں اُس کی فکری جوہر کا پوچھے تو میں جواب دوں گا:” وہ سیاست میں ڈکٹیٹر شپ کے خلاف تھی اور سماج میں پدرسری کے“۔ اپنے جیسے بے شمار لوگوں میں یقین رکھتی تھی۔
؟الفاظ کا جادو بھی خداکا نعمت ہوتا ہے مگر سوچوں کی نعمت کی فراوانی بھی اُس کے ساتھ ہو تو وہ شاعرنسرین انجم بھٹی کہلاتے گی۔ اردو کے اُس کے ایک مصرعے کی خوشبو سو نگھیے۔
میں نے دریا سے کچھ نہیں لیا ‘ مٹی میں نے اپنے آنسوﺅں سے گوندھی ہے۔
جیسے کہ پہلے ذکر ہوا، نسرین نے بڑی کٹھن زندگی بسر کی۔ غربت تو تھی ہی، غربت سے وابستہ وہ مسائل بھی ساتھ مل گئے جو ایک پڑھے لکھے، ذہنی طور پر نجات یافتہ خاندان کے ساتھ لازمی ہوتے ہیں ۔جو مروج سے باغی ہیں۔ مگر باغیوں کی تحریک موجود نہیں ہوتی۔ پھر، اسے گھریلو تشدد کا سامنا بھی رہا۔ رفیقِ حیات کی طرف سے بے کیف زندگانی کو کیف آوری کے مصنوعی ذرائع کی غلامی اختیار کرنے کا دکھ بھی جھیلنا پڑتا۔
2016 کی جنوری کی 26 تاریخ کو نسرین انجم بھٹی انتقال کرگئیں۔(1948میں 26جنوری کو دنیا میں آنے والی 2016میں اسی تاریخ کو رخصت ہوئی )۔۔۔۔  مست کا ایک مصرع رسترانی پہاڑ میں کھو گیا
مگر
مست کا مصرع رسترانی پہاڑ میں کھو سکے گا؟

ریفرنسز
-1 پنجابی ادب صفحہ85

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*