گرامچی

اس کا پورا نام انتونیو فرانسسکو گرامچی تھا۔ وہ اٹلی کے جزیرہ ساروینیا میں 22جنوری1891 میں پیدا ہوا۔ گرامچی نے سنگین غربت اور افلاس زدہ ماحول میں آنکھ کھولی۔ پھر اس کے باپ کو سیاسی سازش کے تحت جیل بھجوایا گیا اور یوںماں پرسات بچوں کی پرورش کا بوجھ آن پڑا۔
گرامچی بچپن سے ہی مختلف بیماریوں کا شکار ہوا۔ وہ جسمانی طور پر بہت نحیف و لاغر شخص تھا۔ اس کے ذہن میں بغاوت کی پہلی چنگاری نے اُس وقت جنم لیا جب سیکنڈری سکول کی تعلیم امتیازی حیثیت میں ختم کرنے کے باوجود حالات نے اُسے مزید تعلیم جاری رکھنے نہ دیا۔
1904 میں جب باپ جیل سے رہا ہوا تب معاشی حالت قدرے بہتر ہوئی اور گرامچی کوسکول میں داخل کردیا گیا۔ اس دور میں گرامچی نے سوشلزم پڑھنا شروع کیا۔
1908 میں گرامچی ،کا لیاری نامی چھوٹے شہر آگیا اور وہاںکالج میں داخلہ لیا۔ وہ تنگدستی میں آدھی خوراک پر گزارہ کرتا رہا ۔ جب کالج کا تیسرا سال آیا تو غذائیت کی کمی کی وجہ سے وہ سخت جسمانی کمزوری کا شکار ہوگیا۔ مگر اس کاذہن زبردست رہا۔ اس دور میں اس نے نو آبادیاتی نظام اور محکوم عوام کے بارے میں مضمون لکھا:
” یہ جنگیں تجارت کےلئے لڑی جاتی ہیں تہذیب کے لئے نہیں ۔ جب چینیوں نے انگریزوں کا افیم خریدنے سے انکار کردیا تو انگریزوں نے چین کے بہت سے شہروں کو تاراج کردیا تھا؟ ۔اسے کہتے ہیں تہذیب! ۔روسیوں اور جاپانیوں نے کوریا اور منچوریا کی تجارت پر قبضہ کرنے کے لئے ہی ایک دوسرے کا بے دریغ خون بہایا تھا۔(1)
اس کے بعد گرامچی سکالر شپ لے کر تورین یونیورسٹی داخل ہوا۔لیکن سکالر شپ بھی اُس کی تنگدستی کا مداوا نہ کرسکی۔
اپریل 1915 میں یونیورسٹی کی تعلیم کا سلسلہ ہمیشہ کے لئے بند ہوگیا۔ لیکن یہ گرامچی کے لئے اس حوالے سے سود مند ہوا کہ وہ تنہائی کے اس خول سے جس میں وہ اب تک قید تھا، باہر نکل آیا۔ اور زندگی کے میدانِ عمل میں کود پڑا ۔عملی سیاست میں حصہ لینے کے ساتھ ساتھ صحافت کے میدان میں بھی اُس کے وہ جوہر کھلے جو تنہائی میں نشوونماپارہے تھے۔ اسی دور میںاُس کے ادراک و احساس میں سوشلزم کا فلسفہ پوری طرح جذب ہوچکا تھا اور وہ اب مکمل طور پر انقلابی بن چکا تھا۔ اُس وقت اُس کی عمر 25سال تھی۔
اخبارات کے صفحات پر گرامچی ایک ایسے صحافی کے روپ میں ابھرا جس کا انفرادی رنگ،سوشلسٹ اندازِ فکر و نظر پر مبنی تھا اور جس کے اسلوب کو طنز کے عنصر نے مزید کاٹ دار بنادیا تھا۔ اور یہی وجہ ہے کہ مضامین پر اس کا پورا نام شائع نہ ہونے کے باوجود اُس کے انفرادی رنگ کی وجہ سے پہچان لیا جاتا تھا کہ یہ تحریر گرامچی کی ہے۔
گرامچی اپنے مضامین میں حقائق کو مارکسی نظریہ اور اصول کی روشنی میں دیکھتا تھا۔اس کی تحریریں ایک طرف تو اچھی خاصی مشکل ہوتی ہیں مگر بیک وقت دلچسپی سے بھری ہوتی ہیں۔ وہ جگہ جگہ ان میں اٹلی کے کسانوں والے محاورے ، ضرب الامثال اور جملے استعمال کرتا ہے ۔ ان کسانوں کے دو ضرب الامثال یہاں کافی ہوں گے: ۔”اگر تم گھاس بن جاﺅ گے تو حتیٰ کہ بکریاں بھی تم کو نگل لیں گی “۔”سارے بھیڑیوں کاانجام بہر حال فَربیچنے کی دکان ہوتا ہے “۔
1917 میںجب روس میں سوشلسٹ انقلاب آیا تو گرامچی نے ان الفاظ میں اُس پر تبصرہ کیا” ہمارا یقین ہے کہ روسی انقلاب کی نوعیت پرولتاری ہے اور اس کی یہ نوعیت اس کے اب تک کے اقدامات سے ظاہر ہوتی ہے۔ یہ پرولتاری انقلاب سوشلسٹ حکومت پر ہی منتج ہوگا“(2)۔
اس نے اپنے دوستوں سے مل کر تورین کے مزدوروں کو روس کے تازہ ترین حالات سے آگاہ رکھنے کے لئے ایک رسالہ نکالا۔
1921 میں وہ اٹلی کی کمیونسٹ پارٹی کا بانی ممبر بنا۔1922 میں وہ کمیونسٹ پارٹی کے ممبر کے بطور ماسکو گیا اور وہاں ایک سال تک رہا۔وہاںایک بہت ہی جاذب نوجوان لڑکی جولیا شوخت اس کی محبوبہ اوراس کی ساتھی بنی، اس کی بیوی بنی اور اس کے دو بیٹوں کی ماں بنی ۔
گرامچی نے لینن کے بارے میں لکھا اور اس شخص سے ملاقات کے خواب دیکھنے لگا ” جس کاطاقتور دماغ اُسے عالمی سوشلسٹ قوتوں کا لیڈر بنانے کے قابل بناتا ہے “۔ (3)یہ دونوں راہنما خطوط کے ذریعے ایک دوسرے کے واقف بنے ۔
16مئی1925 کو گرامچی کا پارلیمنٹ میں مسولینی کے ساتھ پہلی بار آمنا سامنا ہوا۔ مسولینی فاشسٹ پارٹی کا لیڈر تھا اور گرامچی بائیں بازو والے اپوزیشن کا لیڈر۔
فاشسٹ مسولینی اُس کی موت کے در پے ہوگیا ۔ کمیونسٹ پارٹی اس کی حفاظت کے لئے ہمہ وقت خبردار رہتی تھی ۔
8نومبر1926 کو مسولینی کی فاشسٹ پولیس نے گرامچی کو حراست میں لے لیا۔ کمیونسٹوں کے لئے جیلیںاذیت گاہیں ہوتی ہیں ۔ کوئی انسانی حقوق پھر نہیں ملتے خواہ وہ بنیادی ہوں یا غیر بنیادی ۔
گرامچی جیسا بہادر انسان ، بیماری اور تباہ حالی کے باوجود جیل کے پنجروں میں سے لڑتا رہا ۔ فاشسٹ حکومت کا لگڑ بھگڑ پراسیکیوٹر سخت طیش میں تھا ” یہ بات یقینی بنانی ہے کہ یہ ماسٹر مائنڈ بیس برس کے لئے آپریشن سے باہر رہے “۔ اور گرامچی کا مشہور جواب تو دنیا بھر کو معلوم ہے :” تم اٹلی کو تباہی کی طرف لے جارہے ہو جہاں سے ہم کمیونسٹ اُسے بچا لیں گے “ ۔یہ کہہ کر وہ خاموش ہوا ۔ جج بھی چپ ۔ پھر فیصلہ آیا ”بیس سال چار ماہ اور پانچ دن جیل “(4)۔ اس طرح گرامچی کی بقیہ زندگی کے آخری دس سال سخت ترین بیماریوں میں فاشزم کی کال کوٹھڑیوں میں بسر ہوئے۔ جہاں اس نے طرح طرح کی ناقابل بیان ذہنی اور جسمانی اذیتوںکو جھیلا۔وہاں اُس نے کئی جلدوں اور تین ہزار صفحات پر مشتمل ”جیل نوٹ بکس “ لکھے ۔ اور آخر27 اپریل1937 کی صبح فاشسٹ حکومت کا سب سے بڑا باغی اور مارکسزم کا داعی صرف 46سال کی عمر میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاموش ہوگیا۔

جیل میں اس نے 33کتابیں لکھیں۔
سچی بات یہ ہے کہ اگر کارل مارکس اور اینگلز نے کپٹل ازم پہ لکھا ، لینن نے امپیریلزم پر، تو دیمتروف اور گرامچی نے فاشزم پہ لکھا۔ مارکسزم میں خوبصورت اضافہ تھے یہ سارے موضوعات ۔
اس قید میں بھی اس نے لکھا:” میری ہمت بلند ہے….شہید یا ہیرو بننے کی میری قطعی کوئی خواہش نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ میں محض ایک اوسط آدمی ہوں جس کے عقائد کی جڑیں کافی گہری تھیں اور جو کسی قیمت پر بھی انہیں ترک کرنے پر آمادہ نہیں ہے“۔(5)
اور اس گیٹ پر ان فقروں پر مشتمل بورڈ لگا ہوا ہے :” انتونیو گرامچی اسیری کے زمانے میں یہاں رہا تھا ۔۔۔۔ استاد ، آزادی دینے والا ، اور اپنے کاز کے لئے شہید ، ایک ایسا شخص جس نے اپنے خلاف مقدمہ چلانے والے پاگلوںکے زوال ، اپنی سرزمین کے مصائب سے نجات ،اور محنت کش لوگوں کی فتح کی پیش گوئی کی تھی “۔ (6)
گوکہ اُس کے نام پر بعد میں ایک الگ مارکسسٹ فرقہ بنایا گیا جسے ”نی او مارکسسٹ “ کہا جانے لگا۔ اصل میں اُس نے ورکنگ کلاس کی بہ نسبت دانشوروں کو بہت اہمیت دی ۔ اُدھر ہی سے سُبالٹرن والا لفظ نکلا جسے پاکستان میں یونیورسٹی پروفیسرز کے گروپ استعمال کرتے رہتے ہیں۔ ایجوکیشن کے اندر اسی طرح کا ایک لفظ اُس کے ہم فکر پاﺅلو فرار ے نے استعمال کیا: کرٹیکل پیڈا گوگی “۔ فرانز فین بھی اسی کا ہم خیال تھا۔
گرامچی ”سول سوسائٹی “ کی اہمیت پر ضرورت سے زیادہ ہی زور دیتا ہے ۔حتی کہ سول سوسائٹی کے پھیلاﺅ سے ”ریاست کو مٹایا بھی جاسکتا ہے “۔

ریفرنسز

1۔مترجم اقبال اختر ۔ انتو نیوگرامچی ۔ کراچی دانیال 1992۔ صفحہ14
2۔ایضاً ۔ صفحہ24
3۔Khigerov ,Raphial "Mourn not for the fallen fighters” , in book Lenin’s comrades in arms . 1969
پراگریس پبلشرز ماسکو ۔ صفحہ36
(4)۔Khigerov ,Raphial "Mourn not for the fallen fighters” , in book Lenin’s comrades in arms . 1969
پراگریس پبلشرز ماسکو ۔ صفحہ 48
5۔مترجم اقبال اختر۔ انتونیو گرامچی۔صفحہ42
6۔ ایضاً۔ صفحہ52

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*