میری کشتی گئی کہ کنارہ گیا۔۔ فرتاش سید

 

زاہدہ نے بڑی گرمجوشی سے فون پر بتایا:” مجھے پتا چلا ہے کہ کل تمہارے شہر ساہیوال میں ڈاکٹر فرتاش سید کے اعزاز میں ایک تقریب ہونے والی ہے” ۔ایک شناسا نام عرصے بعد سنا۔میرے لمحہ بھر کے سکوت کو زاہدہ کی ہیلوہیلو نے توڑ دیا، میں چونکتے ہوئے بولی :” فرتاش؟”_ زاہدہ نے جواب دیا : جیا ! فرتاش، اب وہ ڈاکٹر فرتاش سید ہے”
اگلے دن میاں آفس جانے واسطے تیار ہورہے تھے۔میں نے کہا کہ مجھے آرٹس کونسل ڈراپ کرتے جائیے۔ وقت کے دوسرے ہی پل میں آرٹس کونسل موجود تھی۔ہال میں داخل ہوتے ہی سٹیج پر براجمان مہمانوں پر نظر دوڑائی تو دبلا پتلا ،تیکھے نقش، گندمی رنگت ،سیاہ اور شاعرانہ آنکھوں والے مست ملنگ فرتاش کی جگہ اب بالوں میں چاندی کے تار لیے ،تھری پیس سوٹ میں ملبوس ،دانش کی چمتکار کے ساتھ ایک اور فرتاش سید مسکراتے ہوئے میری پذیرائی کر رہا تھا۔وقت نے فرتاش کو کس قدر نکھار دیا تھا _
مجھے دیکھتے ہی اس نے اسی پرانے انداز میں ہاتھ جوڑ کر "پرنام ” کیا_ میں نے بھی بمشکل ہاتھوں میں سیل سنبھالتے ہوئے دونوں ہاتھ جوڑے۔ حاضرین نے استعجاب سے ہمیں دیکھا ۔شاید چند ایک نے گھورا بھی ہو، میں سٹیج کے جانب بڑھی تو دو مو¿دب نوجوانوں نے سٹیج کے سامنے ہمارے لیے دو کرسیاں خالی کر دیں۔
مشتاق احمد یوسفی نے کہا تھا کہ "میں اپنا لکھا "پال” میں لگا دیتا ہوں ،سال دو سال بعد نکال کر دیکھتا ہوں کہ کچھ دم بھی ہے کہ۔۔۔۔۔۔”
میں نے بھی فرتاش کی دوستی کو پال میں لگا دیا تھا۔پچیس سال بعد نکال کر دیکھی تو ویسی ہی تروتازہ!۔
فرتاش پوڈیم پر اپنی غزل سنا رہا تھا ،اس کا ہر شعر سامعین کے احساسات و جذبات کو برابر چھوتا ہوا محسوس ہورہا تھا۔جون ایلیا کے بعد فرتاش میں یہ خصوصیت دیکھی کہ وہ اپنی بدن بولی میں بھی شعر کا اظہار سمو دیتا تھا۔ اس دوران اس نے ایک شعر سنایا:
تڑپ کے رہ گیا دل کرب نارسائی سے
کتاب،ماضی کی جب بھی نکال کر بیٹھا

اس شعر پر نعرہِ تحسین بلند ہوا اور ہال میں مکرر ارشاد مکرر ارشاد کی آواز سے گونجنے لگا۔”مکرر ارشاد” سے ایک یاد چہرے پر مسکراہٹ لے آئی۔جب مشاعرے میں ہم دوستوں کا گروپ صرف مکرر ارشاد کہنے واسطے مقرر کیا جاتا تھا۔فرتاش سے احتجاج کرتی کہ بھئی! مجھے تو شعر سمجھ نہیں آتے پھر مکرر ارشاد کیوں؟ فرتاش کہتا "بس اسی لیے مکرر ارشاد”۔
مشاعرے سے فراغت کے بعد گورنمنٹ پوسٹ کالج ساہیوال کے اساتذہ اور ایم اے اردو کے طالب علم ڈاکٹر ندیم اشرف کی سرپرستی میں فرتاش سید کے لیکچر کے منتظر تھے۔ ساہیوال آرٹس کونسل کے ڈائریکٹر کی گاڑی ہمیں کالج پہنچا آئی۔ہمارا بھرپور استقبال کیا گیا۔ ہمارا ؟ جی ! جھونگے میں کچھ پھول ہمارے ہاتھ بھی آئے۔فرتاش کا تعارف کرواتے ہوئے ڈاکٹر ندیم اشرف نے شعبہ اردو ،بہاالدین زکریا یونیورسٹی ملتان اور استاد محترم ڈاکٹر انوار احمد کا حوالہ دیا۔پروفیسر موصوف ،انوار صاحب کی جملہ خصوصیات کا ذکر کررہے تھے۔میں نے گرہ لگائی کہ ان خصوصیات میں اگر شگفتگی کا اضافہ کر دیا جائے تو یہ جناب فرتاش سید ہیں۔ استاد محترم انوار احمد کی جملہ سازی کے کئی مداح ہیں تو ان کی جملہ بازی کے کئی گھائل بھی ہیں۔فرتاش ان دونوں معاملات میں کورا ہے۔ وہ شاعرانہ معصومیت کی آڑ لے کر جملہ وائیڈ بال بنا دیتا ہے اور کریز سے باہر نکل کر کھیلنا تو اسے کبھی آیا نہیں۔
ذہن میں کتاب ماضی کے اوراق پھڑپھڑانے لگے۔ بھولی بسری تصویروں پر سے گرد سی اڑنے لگی ،جیسے آج ہی کی بات ہو۔ منظر اپنی تابناکی کے ساتھ یکے بعد دیگرے سامنے آتے چلے گئے۔
زکریا یونیورسٹی کے ہاسٹل مریم ہال سے زاہدہ بشیر اور میں کیمپس کے لیے نکلتے تو شعبہ اردو کی داخلی سیڑھیوں ہی پر فرتاش سید ہمارا منتظر ہوتا۔دونوں ہاتھ جوڑ کر پرنام کرتا۔ یہ ہمارا سلام کا خاص انداز تھا۔ہمارے ہمسائے شعبہ اسلامیات کے مومنین کی آنکھیں ہمیں کافر کافر پکارتیں،لیکن کسے پرواہ تھی!
اس زمانے میں جذبہ جواں اور تند خو تھا۔ہم سمجھتے تھے کہ منافق ہونے سے کافر ہونا اچھا ہے۔لیکن زندگی ایسے چھل بل دکھاتی ہے کہ کفر کی ہمت ہی نہیں رہتی بس چاہت باقی رہ جاتی ہے۔چاہت بھی تو چند سر پھروں ہی میں رہ جاتی ہے ورنہ سجدے ہی ماتھوں سے تڑپتے ٹپکتے ہیں۔صنم پتھر کے ہوں یا تصور کے ،ان کے مینیو فیکچرر ان پر ایکسپائری ڈیٹ لکھنا بھول جاتے ہیں۔
زمانہ یونیورسٹی میں ( قبل از مسیح ہرگز نہیں ) ہمیں شاعری سے زیادہ دلچسپی نثر سے تھی۔ پھر بھی یعنی ناسمجھی میں بھی اس کی شاعری انتہائی انہماک سے سنی۔اس کا انعام یہ ہوا کہ اس کے پہلے شعری مجموعے ” ہر ورق پر اسی کا نام” کا انتساب ہمارے نام ٹھہرا اور یہ ” ہم ” بہت وسعت لیے ہوئے تھا۔ بعضوں کی
خیال ارائی ہے کہ اس میں محض زاہدہ بشیر اور میں ہی نہیں اور بھی بہت سے پردہ نشینوں کے نام آتے ہیں۔ملتانی دوشیزائیں لک چھپ دلوں کا شکار کرتی ہیں ، اپنی شناخت تو ناک سمیت چادر میں چھپا لیتی ہیں اور کجرارے کٹیلے نین کسی ماہر تیر انداز کی طرح نشانے لگاتے ہیں۔کس میں یارا ہے کہ بچ کے دکھائے !فرتاش نمانڑا شاعر ہی تو تھا۔اس لیے اس” ہم ” میں موجود ہر ایک کو بجا یقین تھا کہ انتساب اسی کے نام ہے۔
کتاب "ہر ورق پر اسی کا نام” کے سرورق کے لیے زوالفقار بھٹی صاحب سے فرتاش سکیچ بنوا رہا تھا، جو کسی "معشوق فریبی "کا تھا۔ جس کی تفصیلات سن کر بھٹی صاحب سے رہا نہ گیا، بڑے اشتیاق سے پوچھا :” یار! تمہاری محبوبہ حقیقی ہے کہ خیالی”۔ فرتاش نے جواب دیا :” ہے تو حقیقی لیکن خیالوں خوابوں جیسی ہے،آنکھ کھلتے ہی غائب ہو جاتی ہے۔”
ان دنوں اکثر شام ڈھلے فرتاش سید اور قاضی عابد کیمپس کی روشوں اور ملتان کی سڑکوں پر ایسے سرگرداں رہتے جیسے گمشدہ ہوں۔ ناکام لو افیرز کو شاعری واسطے خام مال سمجھا جاتا ہے _ اس لیے شاعر ہونے کے شوقین ایک دوسرے سے ناکامیوں کے ٹوٹکے پوچھتے اور نوٹس ملاتے ہیں۔ قاضی عابد تو سگریٹ کے دھوئیں کے مرغولوں میں "رقص یار” دیکھتا اور فرتاش "ہر ورق پر اسی کے نام ” کی گردان کیے جاتا۔آخر زچ ہوکر قاضی نے فی البدیہ شعر کہا:
وہ تو کج فہم ہے ،کیا بات تری سمجھے گی
تو نے ہر صفحہ پہ تصویر بنا دی ہوتی
قاضی عابد تو ایک آدھ نظم لکھنے کے بعد شاعر ہونے سے بال بال بچ گیا ،اب نرا پروفیسر ہے۔ لیکن فرتاش کی شخصیت کا اولڑا چوکھا رنگ اس کا شاعر ہونا ہی ہے۔ عاشقی اس کے لیے بازیچہ اطفال نہ تھی۔ اس نے مر کر جی اٹھنے کا ہنر عاشقی ہی سے سیکھا۔
عشق کے کھیل میں کیا تمہارا گیا میں تو مارا گیا

شاعری اس کی شخصیت ہے۔ شاعری اس کی ہمزاد ہے_ شاعری اس کی معشوق ہے _جب شاعری کی دیوی مہربان نہیں ہوتی تو تشنگی اور طلب کی ناقابل بیان کیفیت میں چلا جاتا ہے:
مَیڈی لوں لوں لہندی لَمس تیڈا
فرتاش اور قاضی کی دوستی دو رنگوں کا امتزاج ہے۔ فرتاش جذبے کا، قاضی سوچ کا آدمی ہے۔نقاد ہونے کی وجہ سے قاضی ہر کام سوچ بچار کے بعد اور شاید مین میخ نکال کر بھی کرتا ہے۔فرتاش محبتی یے،محبتیں بانٹتا ہے ،محبتیں سمیٹتا ہے۔
پانچویں جماعت ہی سے اپنی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے کمرشل طور پر بطور پینٹر اپنی شناخت بنائی ،کبھی گھر سے تعلیمی اخراجات کے لیے پیسے نہیں لیے۔ اکثر یونیورسٹی سے غائب ہوجاتا ،دوکانوں کے بورڈ ،الیکشن کی گہما گہمی میں بینرز اور پوٹریٹ وغیرہ اس کی روزی روٹی کے حیلے وسیلے تھے۔ وہ چائلڈ میریج وکٹم ہے۔ کالج پہنچنے سے قبل ہی باپ کے عہدے پر براجمان ہو چکا تھا۔فرتاش کی ننھی سی دو پریاں اور کم گو سی بیوی مسرت کبری سے بھی بارہا ملاقات رہی۔ گرلز ہاسٹل میں شامیں بہت شور انگیز ہوتی ہیں۔ یکے بعد دیگرے روشن ہوتی ہوئیں کمروں کی کھڑکیاں ،اڑتے رنگین آنچل، سریلی گنگناتی آوزیں ،چھنکتے قہقہے ، تتلیوں سی خوشرنگ سبک لڑکیاں _ ان سب کے درمیان وہ جو ہماری ہم عمر ہی تھی ، مامتا کی سنجیدہ ذمہ داری کی بکل میں گم ص±م رہتی۔ لیکن جب فرتاش کی کوئی تعریف کرتا تو مسرت کبری جلدی سے تائید میں سر ضرور ہلاتی۔_ وہ شاعری کو محض حسیناوں کو لکھے گئے لو لیٹرز نہیں سمجھتی تھی اس لیے اس کی شاعری کی مداح بھی تھی۔ جانے اس کی شوہریت کی بھی مداح تھی کہ نہیں؟ ۔یہ تو وہ آپ جانے یا اس کا رب جانے کہ عام طور پر بیویاں شوہریت کے متعلق اپنے خیالات عالیہ کو کم ہی ہوا لگنے دیتی ہیں۔
کم گوئی اور مداحی کسی بھی تخلیق کار کے ہمسفر کی خصوصیت ہونا چاہیے ورنہ شاعری کے مسودے ردی،تلخی ،رنجش کے بھائو بکتے بھی نظر آتے ہیں۔
تعلیم سے فراغت کے بعد دوحہ قطر کے ریگستانوں میں علم وادب کی آبیاری کرتا رہا۔بین القوامی مشاعرے اس قیام کا ثمر ہیں۔انہی مشاعروں میں شرکت کی وجہ سے جون ایلیا کی شاگردی اور مشاہیر ادب سے ملاقاتوں کا بھی اعزاز حاصل کیا۔
15۔اپریل 1967 میں وہاڑی کے تاریخی قصبہ لڈن میں سید فضل حسین فرتاش کی پیدائش ہوئی۔ میٹرک گورنمنٹ ہائی سکول لڈن ، گریجوایشن گوڑنمٹ کالج وہاڑی جب کہ ایم اے اردو ،ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں شعبہ اردو بہاءالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے حاصل کیں۔سٹوڈنٹس یونین میں پی ایس ایف کے پلیٹ فارم سے صدارت کا الیکشن لڑا۔سکول۔کالج یونیورسٹی کا بہترین مقرر رہا۔
میرتقی میر کے بابا کی طرح فرتاش کے بابا نے بھی اسے شعر کہنے ،عشق کرنے اور دشت آباد کرنے کا درس دیا۔
فرتاش کی ساری زندگی اسی سے عبارت ہے۔ پچپن میں اپنے دادا دلدادہ سید احمد علی بخاری صاحب کی انگلی تھامے روحانیت کی چوکھٹوں پر قدم بوسی کرتا رہا۔ روحانیت کی سبز چادروں میں چھپی فلاسفی اور دانش کو بھی دل و دماغ کا حصہ بناتا رہا _ ان یاترائوں نے دل کو سوزگداز بھی عطا کیا۔قوالوں کے ہوکتے کوکتے راگ دل میں ات مچا دیتے ہیں۔نمدیدہ شام غریباں کے جلتے بجھتے دیﺅں کی جوت ،عود میں سلگتے مہکتے ماحول نے شاعر کی مٹی ایسے گوندھ کر تیار کی کہ اس میں جوگ بجوگ ،راگ بیراگ سب شامل ہوگئے۔
میں ماضی کے دریچے وا کیے گزرے منظروں میں گم تھی کہ فرتاش کی آواز مجھے گورنمنٹ کالج ساہیوال کے لمحہ موجود میں واپس لے آئی۔فرتاش ایم اے اردو کے طلبہ کو "شعر وادب کے زندگی پر اثرات ” کے موضوع پر لیکچر دے رہا تھا_ سوال و جواب سے فرصت ملتے ہی وہ میری ساتھ والی نشست پر بیٹھ گیا۔
شادی کے بعد میری زندگی بہت جمود کا شکار تھی، سٹوڈنٹ لائف جس بے پرواہی سے گزری ازدواجی زندگی کو اسقدر سنجیدگی سے لیناپڑا۔ ہو کا عالم تھا، نہ یار زیرک ،نہ بادہِ کہن نہ فراغتے نہ گوشہِ چمنے ۔دوست احباب اپنے مشاغل میں مصروف تھے۔میں کسی ادھ پڑھی کتاب مانند تھی جو جوں کی تیوں طاق پہ دھری تھی۔زندگی کچھوے کے سے سخت خول میں مقید تھی،بس عافیت کے ساتھ سانس لیتے رہو ، زندگی جینے کی گنجائش نہ تھی۔اس یادگار دن فرتاش نے یہ خودساختہ خول بڑی مہارت اور نفاست سے ہولے ہولے توڑنا شروع کیا۔۔۔۔۔ساتھ بیٹھتے ہی سوالات کی بوچھاڑ۔۔۔۔۔۔لکھتی ہو؟ پڑھتی ہو؟ آج کل کس شاعر کو پڑھ رہی ؟ کونسا ناول زیر مطالعہ ہے؟ کہیں پڑھا رہی ہو؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری خامشی کو میری آنکھوں میں بولتا دیکھ کر گویا ہوا کہ زاہدہ ٹیچر ہے،فریحہ پرنسپل ہے، کچھ پروفیسر ہیں ،قاضی عبدالرحمان عابد صدر شعبہ اردو ہے،مبشر حسن دی نیشن کا چیف رپورٹر ہے، راناشہباز حمید بزنسمین ،ثمینہ اشرف لکھاری ہے،کچھ وکیل ہیں تو باقی جج ،کچھ ایم فل کر چکے ہیں تو کچھ پی ایچ ڈی ،جن مشاعروں میں شرکت کی اور جن ادبی شخصیات سے ملاقاتیں رہیں ،اجمالا بتایا۔غرض ایک پل میں بیتے پچیس سال آنکھوں کے سامنے گھومنے لگے۔میں فرتاش کی آنکھوں سے وہ دنیا دیکھتی رہی جو کبھی میری بھی تھی_مجھے پڑھنے لکھنے اور فیسبک پر آئی ڈی بنانے کی ہدایت کے ساتھ رخصت ہو گیا۔ کچھ کتابیں دے گیا اور بہت ساری کتابیں مہیا کرنے کا وعدہ بھی کرتا گیا۔میں نے نہ صرف پڑھنا بلکہ لکھنا بھی شروع کردیا۔سنگت میگزین سے مجھے بطور افسانہ نگار ایک شناخت ملی وہ مجھے واپس اپنی دنیا میں لے آیا۔ ایلس پھر قلم کتاب کے ونڈر لینڈ میں ہے۔
فرتاش شعبہ اردو زکریا یونیورسٹی ملتان میں تدریسی فرائض انجام دے رہا تھا۔ پھر سننے میں آیا کہ اسے کچھ مسائل کا سامنا ہے۔مزدور شاعر غم روزگار اور غم عاشقی کو یکساں برتتا رہا۔ وہ کبھی ادھورا چھوڑنے کی حیلہ سازی اور خوبصورت موڑ دے کر چھوڑ دینے والی دنیاداری نہ سیکھ سکا، اس لیے مجھے یقین ہے کہ اس نے ملتان کو نہیں ملتان نے اسے چھوڑ دیا ہوگا _جی سی یونیورسٹی لاہور میں پڑھا رہا تھا۔ چھٹیوں کی وجہ سے اپنے گھر لڈن میں آیا ہوا تھا۔
18 اپریل 2021 کو فیسبک پر یک سطری پوسٹ نے "پروفیسر ڈاکٹر فرتاش سید جھوک لڈا گئے” بھونچکا کر رکھ دیا۔
کووڈ سے نبرد آزما فرتاش نے سر تکیے پر رکھتے ہوئے اپنے بیٹے سے کہا: ” تھک گیا ہوں ذرا سونا چاہتا ہوں”. وہ زندگی کے جھمیلوں سے الجھتے ہوئے بھی شاید اتنا تھک گیا کہ سانس لینے کی زحمت سے بھی کنارہ کش ہوگیا۔
ایم اے فرسٹ پارٹ کے امتحان سے قبل استاد محترم انوار صاحب نے فرتاش کو دفتر میں بلوایا اور کہا :”میں تمیں اور قاضی عابد کو یونیورسٹی میں لانا چاہتا ہوں،اس لیے شاعری وائری چھوڑو اور امتحان پر توجہ دو۔ ” فرتاش نے بڑے ادب سے جواب دیا: "سر! اس کرم فرمائی کا بہت شکریہ، میں امتحان چھوڑ سکتا ہوں ,جینا چھوڑ سکتا ہوں لیکن شاعری نہیں چھوڑ سکتا اور پھر ایسا ہی ہوا اس نے شاعری نہیں امتحان چھوڑ دیا اور پھر ایسے ہی یکدم جینا بھی چھوڑ دیا۔ موت کو موت نہیں آتی، لیکن جب لفظ ایک بار زندہ ہو جائیں پھر مرتے نہیں ،اس کی شاعری زندہ جاوید ہے ۔
نخلِ ممنوعہ کے رخ دوبارہ گیا، میں تو مارا گیا
عرش سے فرش پر کیوں اتارا گیا؟ میں تو مارا گیا
جو پڑھا تھا کتابوں میں وہ اور تھا، زندگی اور ہے
میرا ایمان سارے کا سارا گیا میں تو مارا گیا
غم گلے پڑ گیا، زندگی بجھ گئی، عقل جاتی رہی
عشق کے کھیل میں کیا تمھارا گیا، میں تو مارا گیا
مجھ کو گھیرا ہے طوفان نے اِس قدر، کچھ نہ آئے نظر
میری کشتی گئی یا کنارہ گیا، میں تو مارا گیا
مجھ کو تو ہی بتا، دست و بازو مرے کھو گئے ہیں کہاں؟
اے محبت! مرا ہر سہارا گیا، میں تو مارا گیا

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*