مست تئوکلی

 

تئوکلی مست !۔
سمو کی خواب آلود آنکھوں سے
گری تھی جو تجلی تیرے سینے پر
اگر وہ طور پر گرتی تو جل کر راکھ ہوجاتا

وہ کیسا حسن آفاقی تھا
جس تمثیل کی خاطر
نجانے کیسے کیسے حسنِ فطرت کے فسوں انگیز نقشے کھینچتا تُو
تری رمز آشنا نظروں نے کیسا خواب دیکھا تھا
نہ تھی جس کی کوئی تعبیر ممکن

نجانے کتنے رنگوں کو سمیٹا
کتنے احساسات کا میلہ لگایا
پرندے ، پھول، چاند، جگنو، تتلیاں، لعل وگہر، کہسار ، صحرا ، پیڑ ، چشمے (نخلِ طوبہ، آبِ کوثر)
استعارے لے کے آیا
پروہ کیا تصویر تھی تیرے تخُیل میں
یہ کس آغوش کی خواہش تھی تیری بے قراری کو
کہ جو کاہاں سے لے کر
سندھ کے بے انت صحراؤں کی بانہوں تک نہیں ملتی
زُباں کو کس طرح اس بات پر قائل کیا تُونے
کہ اس صحرا برابر تشنگی کو کم نہیں کرنا
نظر کو مست رکھنا ہے
مگر ساغر کا پیکر نم نہیں کرنا

گراں لمحہ تھا وہ کیسا
جسے تو عمر ساری تیاگ کر بھی جی نہیں پایا
وہ کیسا زخمِ لامحدود تھا
جس کو کہ تارِ زلفِ جاناں سی نہیں پایا

 

ماہنامہ سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*