سنگت ستمبر،ریویو

 

ہمیشہ کی طرح سنگت کا ٹائٹل پیج دل کو چھو لینے والا ہے۔تصویر میں پرنسز آف ہوپ کے بورڈ کے ساتھ ایک بچی کھڑی ہے جس یہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ایک پتھر پرنسز نہیں ہوسکتا، اصل پرنسز آف ہوپ تویہ بچی ہے یعنی عورت ہی امید کی شہزادی ہے۔کورکے اندرونی صفحہ پرسیمیں درانی کی نظم ’اڑن کھٹولہ‘ کے عنوان سے ہے جو والدین کے حوالے سے لکھی گئی ہے۔

میگزین کاآغاز مدیر کو لکھے گئے خطوط سے ہوتا ہے وہ جسے انگریزی میں کہتے ہیں: Letter to Editor۔ بڑے عرصہ بعد یہ شاندار روایت دیکھنے کو ملی۔ جہاں ریویوز ضروری ہوتے ہیں وہیں میں سمجھتی ہوں کہ یہ خطوط و مراسلات کا ہونا بھی انتہائی اہم ہے۔ یہ ادارے، ایڈیٹر و لکھاریوں کے لیے مہمیز کا کام کرتے ہیں، حوصلہ بڑھاتے ہیں، اصلاح کرتے ہیں، تجاویز فراہم کرتے ہیں۔

شونگال کے حصے میں اداریہ ہے۔ انتہائی دل چسپ اور میگزین کی جان جس میں بلوچستان کے دیہی زرعی نظام پہ بات کی گئی ہے کہ کس طرح اور کیونکر یہ درہم برہم ہوا۔ اس کے مختلف پہلوؤں پہ بات کی گئی ہے۔

حال حوال میں دو رپورٹ ہیں۔ ایک نجیب سائر کی پوہ زانت اور دوسری عظیم رونجھو کی سنگت حسن عسکری کے تعزیتی پروگرام کی۔یہ اچھی روایت ہے کہ عسکری صاحب جیسے بزرگ کامریڈ کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ ان کی روح کو تسکین ملی ہوگی اورپڑھنے والوں کو ان پر رشک آیا ہوگا۔اگر ہم اپنے ہیروز کو ان کی زندگی میں یاد کریں تو یقینایہ ان کے طبعی عمر میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔

اگلا حصہ پوہ زانت کا ہے جہاں نو مضامین ہیں۔شاہ محمد مری نے حسن عسکری کو یاد کیا ہے۔مضمون پڑھتے ہوئے مری صاحب کے کرب، جذبات اور لہجے کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔عسکری صاحب کی شخصیت نے دو طرح سے مجھے متاثر کیا۔ایک تو ان کی عوامی سیاسی جدوجہد، ظلم کے خلاف ان کی بہادری اور دوسرا یہ کہ جس شخصیت سے شاہ محمد مری جیسے انسان اتنے متاثر ہیں جو خودوسیع بصیرت کے حامل ہیں تو مجھ جیسے پڑھنے والے کواندازہ ہوجاتا ہے کہ حسن عسکری ایک بہترین انسان گزرے ہیں۔

زیب زیبدار نے ”پوسٹ ماڈرنزم“پہ قلم اٹھایا ہے۔مضمون کا نام انگلش میں تھا۔ مجھے کافی تجسس ہوا پڑھنے کا۔ مضمون بلوچی میں تھا اور میری بلوچی ذرا کمزور ہے۔ یہ کافی حوصلہ افزاہے کہ سنگت قومی زبانوں کے فروغ میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔

اگلا مضمون بلوچی شاعرجام درک پہ شاہ محمد مری کا ہے۔ انہوں نے شاعری کا ترجمہ بھی لکھ کے ہم جیسے نابلد قارئین کا کام آسان کیا۔

میگزین کا طویل ترین مضمون جاوید اختر کا ہے، عنوان ہے ظہیر کاشمیری۔مجھ جیسی نئی قاری جو ابھی مارکسزم سے متعارف ہورہی ہے کے لیے ادب کا مارکسزم سے تعلق ایک بہت ہی دلچسپ موضوع ہے۔مذکورہ مضمون میں جاوید اختر نے ظہیر کاشمیری کے کام، کلام اور افکارکا باریک بینی سے جائزہ لیا ہے۔

شان گل اگلے صفحات پر ہمیں روس کے ایک سفاک کردارراسپوٹین کے بارے میں بتاتے ہیں، ان کی زندگی کے تاریک پہلوؤں سے روشناس کراتے ہیں کہ کیسے ایک منفی شخص بادشاہ کے دربار تک رسائی حاصل کرگیا اور لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔

میر ساگر کا بلوچی کلاسیکل شعر و بتل پہ بلوچی میں مختصر مضمون ہے۔

’انگریز دور کے بلوچستان میں کیپٹلزم‘میں شاہ محمد مری نے سامراج برطانیہ اور اس کا بلوچ سرزمین کے ساتھ سلوک سے پردہ اٹھا یا ہے۔

شاہ میر کی ’فزکس اور اس کے قوانین‘ کے عنوان سے لکھی گئی تحریر معلوماتی ہے جس سے میرا میٹر اور مٹیریلزم کا کونسپٹ واضح ہوگیا۔ورنہ میں مٹیریلسٹ کو کسی اور معنوں میں جانتی تھی۔

’بلوچوں میں مظاہر پرستی‘ غلام نبی ساجد بزدار کا مضمون ہے۔ واقعی یہ بات درست ہے کہ آج بھی بلوچ مظاہر پرست ہے بلکہ شدت سے ہے۔بلوچوں کے زرتشت کے پپیروکار ہونے کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ بلوچ حق و ناحق کا فیصلہ کرنے کے لیے ملزم کو آگ کے اوپر سے گزارتے ہیں کہ آگ انصاف کرے گا۔

اگلے صفحات پر سنگت ریویو جولائی 2021ہے۔ میگزین کا باریک بینی سے عابد میر نے جائزہ لیا ہے۔ اس نے تعریف و تنقید کے نشتر دلائل کے ساتھ چلائے۔

میگزین کا اگلا حصہ قصہ کے نام ہے جہاں تین خوبصورت کہانیاں ہیں۔ شموئل احمد نے ’آنگن کا پیڑ‘ میں ہمارے سماج کے رویوں کو زیرِ تحریر لایا ہے۔ جس کا جتنا خیال رکھا جائے وہی آخر کار دھوکہ دے جاتا ہے۔ ’حقیقت یا افسانہ‘ ڈاکٹر غلام نبی ساجد بزدار کا افسانہ ہے۔ پڑھ کر یہی سمجھ سکی کہ برائی کا سلسلہ چلتا رہتا ہے، کبھی ختم نہ ہونے والا۔ جس میں نہ چاہ کر بھی معصوم انسان دلدل کی طرح پھنستے اور پھنساتے چلے جاتے ہیں۔

آخری افسانہ ’خرید لو‘ معروف افسانہ نگار عصمت چغتائی کا ہے۔ ان کے افسانے پڑھ کر یہی لگتا ہے کہ کافی حد تک یہ چیزیں اب بھی پائی جاتی ہیں۔ ٹی وی اشتہارات اور انسٹا اور مختلف ایپس نے بچیوں کو ہائی جیک کیا ہوا ہے۔ اتنی بہترین مارکیٹنگ کہ اگلا بندہ ایک غیر ضروری چیز پر بھی اپنی ساری کمائی خرچ کرنے کو تیار ہوتا ہے۔ پھر نت نئے فیشن اپنا کر بھی مطمئن نہیں رہتیں کیونکہ ابھی ایک چیز کا فیشن شروع نہیں ہوتا اگلا اِن ہوجاتا ہے۔بالآخر ان کمپنیوں کی پروڈکٹس خریدنے والے متاثرین کم عمر بچے بچیاں تباہ و برباد ہوجاتی ہیں۔اس کہانی کا اختتام افسوس ناک ہے۔ مختلف شکلوں میں ہمارے معاشرے میں یہ سب چل رہا ہے۔

سنگت کے اندرونی صفحات پر عشرت آفرین، طوبی سہیل، نیلم احمد بشیر،صفدر صدیق رضی، ڈاکٹر فوقیہ مشتاق، میر ساگر،کشور ناہید، علی زیوف اور رابندر ناتھ ٹیگور کی غزلوں اور نظموں نے میگزین کو چار چاند لگا دیے ہیں۔ رابندر ناتھ ٹیگور کی نظم انتہائی سادہ لفظوں میں نصیحت آموز ہے، دل پر اتنا اثر کر گئی کہ واٹس ایپ اسٹیٹس پہ دے دی۔ لوگوں کی قدر ان کی زندگی میں ہی کی جائے کیونکہ کہ مرنے کے بعد تو وہ کچھ بھی نہیں دیکھ پاتے کہ کون ان کے لیے کتنا رویا یا کتنی دیگیں چڑھائیں۔

امداد حسینی کی نظم ’دریا بہتا جائے‘پر سنگت میگزین کا خوبصورت اختتام کیا گیا ہے۔

 

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*