غزل

ٹوٹی لکڑی سْوکھی لکڑی چولھے میں کیا جلتی اور

سانس سمے کی آنچ میں جل کرکتنا رنگ بدلتی اور

تو نے دل میں قْفل  لگائے قْفل  بھی بھاری پتھر سے

تیری آنکھ کی راہداری میں کتنی دیر وہ  چلتی اور

اپنے آپ  کا  سارا  ملبہ پھینک  دیا  کیوں حاشیے پر

تم جو یار سنبھلتے اک دن وہ بھی یار سنبھلتی اور

جن ہاتھوں میں تْو نے اظہر پیت کے کنگن ڈالے تھے

اْن ہاتھوں سے کب تک سجنی دھان کا آٹا ملتی اور

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*