غلطی

 

وہ کرلاتی کافی تھی۔ جس میں دیوانہ وار عشق کرنے کی بھرپور صلاحیت تھی۔ وہ صِلے کی خواہش نہ رکھتی تھی۔ تپتی رو ہی پہ دیوانہ وار رقص کرنے اور آدابِ رقص کی پابندی کرنے والی وہ کونج اپنی ڈار سے بچھڑ چکی تھی۔ اس لیئے ہر شام کونجوں کی کرلاہٹ وہ اپنے دل میں محسوس کرتی تھی۔ خواجہ سائیں کے دربار پر جھاڑو مارے ہوئے وہ اچانک ایک اور دربار کے سجادہ نشیں کو بھا گئی۔

اس سر مستیئ شوق کی دیوی نے مَن مندر میں سجادہ نشیں کو بسایا۔ اور آرتی اتارناشروع کر دی۔ اس کی آرتی کی تھالی اچانک دیوالی کے دیوں کا تھال بن گئی۔ اور وہ سرور میں آکر بے تحاشہ جھومنے اور ناچنے لگی۔ روشنی روشنی، زندگی زندگی مدھ بھری نازک پری۔

سائیں کے دربار سے سجادہ نشیں کی سیج تک وہ مہکتی، چہکتی اور اتراتی ہوئی گئی۔ وہ مَن سائیں کو بھا گئی تھی۔ وصال نے اسے بہت اجال دیا تھا۔ انگ انگ سے زندگی پھوٹنے لگی۔ وہ لجاتی مسکاتی پازیب چھنکاتی سفید فرش پر ننگے پاؤں جھوم گئی تھی۔سائیں اس کے وجود سے پھوٹتی روشنی میں نہا گئے۔ اور وہ سرشار مدھ مستیاں لٹاتی رہی بڑی صاحبہ کو جب اس روشنی کی لاٹوں کا پتہ چلا تو خوب تماشا اْٹھا۔ سائیں کو دھمکیاں بھی دی گئیں۔مگر وہ جلال میں آگئے۔بڑی صاحبہ کو وہ وہ سنوائیں کہ وہ حیران و پریشان ہوگئیں۔

اب محلاتی سازشیں شروع ہوئیں طعنے اور کوسنے دیئے گئے۔آزمائش کی کٹھالی میں ڈالا گیا مگر وہ سائیں کے رنگ میں رنگی جا چکی تھی۔ سختی کے لہو کو اس نے ہاتھ پاؤں کی مہندی بنا لیا۔ جس کا رنگ چھوٹتا ہی نہ تھا۔ وہ دمڑی کا سک لگا کر تعویزوں والے سائیں کا دل موہ چکی تھی۔

اس کو اب کوسنے اور ڈراوے بھی پریشان نہ کرتے تھے۔ وہ مستیاں لٹاتی اپنی آن میں مسکاتی آگے اور آگے بڑھتی جا رہی تھی۔

وہ گدی نشین کے دل کی گدی پر قابض ہو چکی تھی اور اَب وہ ہر سابقہ منظور ِ نظر کو کھٹکنے لگی تھی۔

مگر وہ سائیں کے ڈھنگ سے دنیا کو دیکھتی اور من مراد پاتی رہی۔ ہر سازش ناکام ہر وار اْلٹا پڑتا رہا۔

ایک دن اچانک بالکل اچانک اس کا کریکٹر سرٹیفیکیٹ ضبط ہو گیا۔ اس نے واویلہ کیا نہ دْہائی دی اور نہ ہی کوئی شکوہ شکایت۔

اس سے وضاحت مانگی گئی۔ مگر وہ چپ چاپ چلی گئی۔ سائیں کا جمال جلال میں ڈھل چکا تھا۔ کئی دن تک وہ کف اْڑاتے رہے اور وہ منظر سے پسِ منظر میں چلی گئی۔نہ کوئی شکوہ نہ کوئی شکایت بس چپ چاپ چلی گئی۔

دو ماہ بعد سائیں نے دل کو چھونا چاہا تو وہ محض خالی جگہ تھی۔ دل اور دھڑکن وہ اپنے ساتھ لے گئی تھی۔ اب سائیں کی دل اور دل والی جا چکی تھی۔

سائیں نے چاروں اَور ہر کارے دوڑا دیئے۔

مگروہ نہ ملی۔ اب سائیں کی اس خالی جگہ پہ دل فٹ کرنے کی بہت کوشش کی گئی۔ مگر نا کامی ہوئی۔

آخر کار وہ مل ہی گئی۔ دل کو غلاف میں لپٹے وہ تلاوت میں مصروف تھی۔خلیفہ کی جھگی اس کی روشنی سے منور تھی۔ خلیفہ تاب نہ لا کر باہر بیٹھا تھا۔ لاٹیں باہر آرہی تھیں۔ سائیں دیوانہ وار آگے بڑھا مگر اس نے ہاتھ اور آنکھ سے پْر جلال کیفیت میں روک دیا۔ سائیں ہاتھ باندھ کر گڑ گڑایا۔ مگر اس نے کہا کہ اب درمیان میں شریعت حائل ہے۔

سائیں بھاگتا ہوا گیا اور فتویٰ لگوا لایا اور حلالہ کی پیشکش کی۔ اس نے غیر یقینی انداز میں دیکھا اور ایک آنسو اس کی آنکھ کی پتلیوں میں جم گیا۔

سائیں نے کہا کہ فقط ایک رات کی بات ہے۔ پھر ہم ہمیشہ ساتھ رہیں گے۔ پھر ہم ہمیشہ ساتھ رہیں گے۔ مولوی صاحب صبح طلاق دے دیں گے۔

تب وہ پہلی بار بولی۔سائیں غلطی آپ کی تو حلالہ بھی آپ کروائیں۔

ماہنامہ سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*