*

حانی اِک ویران کدہ میں آ نکلا ہوں
ذرّہ ذرّہ میں ویرانی رقصں کناں ہے
چَپّہ چَپّہ میں تنہائی بول رہی ہے
دُھول میں لپٹے مست بگولے کوسوں کوسوں دِکھتے ہیں
سیوی جذبوں کا مرقد ہے
ڈھاڈر مست بگولوں کا
گَنداوہ درس ِ عبرت ہے کُتّوں کی بھونکاروں میں
ایک بگولا آہستہ چُھو جاتا ہے
اور خیالوں کی رو یکدم کَٹ جاتی ہے
حانی صدیوں کی بھٹّی میں اِک جُھلسا پل زندہ ہے
پنکھ پسارے اِک ٹہنی پر زخمی کویل زندہ ہے
چاروں اور اُداسی ہے اور چاروں اور بگولے ہیں
اِس ویران کدہ میں تنہا بَس اِک پاگل زندہ ہے
تیرا پاگل زِندہ ہے

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*