گل پھینکے ہیں

 

یکا یک چاروں طرف سے فائرنگ کی آوازیں آنے لگیں۔ راہ گیر چلتے چلتے منجمد ہوگیا۔ سب لوگ پناہ لینے کو ادھر اُدھر بھاگنے لگے۔ سڑک پل بھر میں سُنسان ہوگئی۔ ہم وطن ایک دوسرے پر گولیاں برسارہے تھے۔ ایک گروپ اُن لوگوں کا تھا جو پاکستان میں رہائش رکھنے، پاکستان میں پیدا ہونے، اُس سے زندگی حاصل کرنے کے باوجود خود کو پاکستانی کہلوانا پسند نہیں کرتے۔ دوسرا گروپ اُن لوگوں کا تھا جو چاہتے تھے کہ وہ اپنی اس سوچ کو بدل ڈالیں، تعصب کے بجائے محبت کا رویہ اختیار کریں۔ اپنی شناخت کے حوالے کو عزت بخشیں۔

گولی کب جانتی ہے کہ کون کیا چاہتا ہے؟۔کس کا موقف کیا ہے: صحیح ہے یا غلط ہے؟۔ اسے تو بس کھوپڑی میں چھید ڈالنے اور سینہ چیر دینے کا ہنر آتا ہے۔ کتنے ہی برس گزرے عروس البلاد کی مانگ میں خون کا سندورخشک ہو کر جم چکا ہے اور کوئی اُسے اُس کا سہاگ واپس دلانے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ اور جولوگ یہ خونی کھیل کھیلتے چلے جارہے ہیں اُنہیں کون بتائے کہ خون بہانے یا بہنے کی چیز نہیں ہے۔ اسے بہانے لگو تو زمین سے زخموں اور کانٹوں کی فصل پھوٹ نکلتی ہے۔ اِسے پینے لگو تو تن من میں آگ لگ جاتی ہے، روح کی پیاس جاری و ساری رہنے والی ایک ابدی پیاس میں تبدیل ہوجاتی ہے۔

گولیوں کی بوچھاڑ سے خوفزدہ راہگیر ایک آڑ میں ہوگیا مگر یہ دیکھ کر اُس کا خون خشک ہوگیا کہ نیلے رنگ کی سُوتی یونیفار م پہنے، کالے بالوں میں سرخ ربن کی چوٹیاں گوندھے، گُلاب کا ایک تروتازہ پھول، گلے میں بستہ لٹکائے، سڑک پار کر رہا تھا۔ اسے کیا خبر کہ اُس کا ہر اُٹھنے والا قدم اسے کس خار زار کی طرف دھکیل رہا ہے۔

شہر کے پھولوں اور سبزہ کو پانی دینے والے میونسپل کارپوریشن کے ٹرک ڈرائیور نے چاروں طرف تڑ تڑ برستی گولیاں دیکھ کر ایک زور دار بریک لگائی اور بجلی کی سی تیزی کے ساتھ اپنی جان بچانے کو کسی کونے کی تلاش میں بھاگ کھڑا ہوا۔ اُس نے بریک لگاتے ہوئے سڑک کی طرف دھیان نہیں دیا تھا۔ سڑک کے بیچوں بیچ اچانک اُگ آنے والے پھول کے لیے رُکنے کی اُسے ہر گز فرصت نہیں تھی۔ وہ اس وقت اپنی جان بچاتا یا سڑک کی جانب دیکھتا۔

راہ گیر کی آنکھیں شدتِ غم سے چِر گئیں مگر اُن میں پانی نہ آنے کی قسم کھالی۔ اے کاش! کاش اس بچے کو جا کر دیکھ سکوں، شاید اُس میں سانس کا کوئی سُر باقی ہوا بھی۔ اُس نے ٹرک کے پہیوں کے بیچ کچھ مسلی ہوئی پتیوں کی طرف دیکھ کر کرب سے سوچا۔ یا اللہ رحم کر۔ ایک ننھا سا بازو پہیوں کے درمیان سے باہر کو جھانک رہا تھا۔ ”اوہ خدایا تیرا شکر ہے!“۔راہگیر نے ایک ٹریفک سپاہی کو تیزی سے اس مسلے ہوئے پھول کی جانب جاتے دیکھ کر سُکھ کا سانس لیا۔

”چلو شکر ہے۔ کسی میں تو انسانیت کی رمق باقی ہے۔ شاید رحمت کا یہ فرشتہ اس بچے کو بچاسکے“۔سوچ کے آزار میں مبتلا راہ گیر دُعائیں مانگنے لگا۔

سپاہی نے ٹرک کے نیچے گھس کر جھانکا۔ پھول بے جان لگتا تھا۔ اُس نے باہر جھانکتے ہوئے بازو کو تھاما۔ ننھا سا بے جان بازو لڑھک گیا۔ سپاہی نے بازو کو جلدی جلدی ٹٹولا اور اس پر بندھی ننھی سی پیاری سی گھڑی اُتار کر اپنی جیب میں ڈال لی۔

راہ گیر کے سینے سے نکلی ہوئی بے آواز چیخ کے شور سے آسمان میں چھید ہوگیا۔

ماہنامہ سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*