غزل

کون کہتا ہے فقیروں کو خزانے دیجے

دُور ہٹ جائیے، بس دھوپ کو آنے دیجے

وقت کی شاخ سے ٹوٹے ہوئے گل برگ ہیں ہم

دُور تک دوشِ ہوا پر ہمیں جانے دیجے

سنگ بستہ تو نہیں منزلِ ماضی پہ یہ دل

اور غم دیجے اسے اور زمانے دیجے

دائمی خواب ہے اور نیند نہیں ہے اَبدی

اس مسافر کو کوئی اور ٹھکانے دیجے

ختم ہو جاتا ہے اک روز، کوئی رشتہ ہو

دل کا کیا حال ہے؟ اِس بات کو جانے دیجے

عکسِ مہتاب سے یہ خواب چمک اٹھے گا

آبِ خاموش سے کائی تو ہٹانے دیجے

روز و شب اور نئے، آج کے آئینے میں

لیکن اِس دل کو وہی عکس پُرانے دیجے

یہ بدن خاک میں رکھ دیجئے آرام کے ساتھ

ایسے شعلے کو الاؤ میں سُلانے دیجے

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*