اک بدصورت نظم

 

لال سوہا جوڑا اسکے تن پہ تھا

ماتھے کو سستے پیتل سے داغا گیا تو دھواں اٹھا

آنسو بہہ رہے تھے حیرانی بھری انکھوں سے

کومل گلے سے نکلتے تھے خوف میں لتھڑے ہوئے سُر

نہ وہ کوی مہ وش تھی نہ اک حسین اپسرا

ابھی تو وہ عورت بھی نہ بن پائی تھی

اک گڈی۔۔گڈ یاں پٹولے کھیلتی ہوئی

زندگی کے کیڑے کاڑے کو ٹاپتی تو وہ سانپ بن کر اس سے لپٹ جاتا

اس نے کبھی سکول دیکھا تھا نہ کتابیں۔

منڈی میں لگ چکی تھی اس کی بکارت کی بولی

سیاسی ایوانوں میں

زور شور سیاسے اس کی تقدیر کے فیصلے کیے جارہے تھے

سانڈ بکری کی سواری کی قیمت ادا کر کے مطمئن تھا

کچے گوشت کا لوتھڑا چبانے کو دانت تیز ہوئے تو منہ میں پانی بھر آیا

خودغرضی کا غلیظ پانی کسی دھڑ کے گٹر میں ابل اور اچھل رہا تھا

عجب رسم چلتی ہے شادی کی۔بربادی کی

جس میں نہ ہوتی ہے گلوں کی سیج نہ مخملی بچھونے۔نہ محبتوں کی مہک

صرف ہوتے ہیں بیوپار۔۔

عجب دور ہے کہ اس میں ھم جیسوں کو

اجلی نکھری نظمیں لکھنے کا ہنر بھول گیا

نہ رہی ہے قلم میں سکت اور تخیل میں حسن پرواز

یہ بدصورتی کی اک نظم ہے

ماہنامہ سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*