لفظ رخصت ہوئے

(الزائمر سے لڑتے مریضوں کے نام)

 

خامشی ۔۔۔۔ خامشی۔۔۔۔
اب کسی لفظ کی نوک چبھتی نہیں
اور کوئی بات ریشم سی لگتی نہیں
توابھی تم نے جو بھی کہا ہے
وہ مجھ تک پہنچتے پہنچتے ہواؤں میں گم ہو گیا ہے
یہ حرفوں کی پیچیدہ قوسیں
یہ تیس اور نوے کے درجے پہ مڑتے ہوئے زاویے
اور یہ گولائیاں
چت پڑی اور سیدھی لکیریں یہ نقطے
یہ گرہیں جنہیں حرف پر باندھ کر
لفظ بُنتے ہو
میرے لیے ایک اُدھڑی ہوئی اُون کا ڈھیر ہیں
کس قدر اجنبی ہے
مرے گرد پھیلی ہوئی زندگی
سانس کی دھونکنی تیز چلتی ہے
شعلے بھڑکتے ہیں
یادوں کی چنگاریاں سرسراتی ہیں
لیکن وہ پہچان کا سانولا پل
مرے ہاتھ سے گر گیا ہے
سکڑتے ہوئے ذہن کا تھال بجتا ہے
بجتا ہی رہتا ہے
پھر رینگتے رینگتے سارے چہرے
مناظر، دکانیں، محلے،
کھلے راستے، پیڑ، بارش، ہوائیں
مکانوں کی لمبی قطاریں
قطاروں میں میرا مکاں
سب اندھیری گپھاؤں میں گرتا ہے
اور پھر پلٹتا نہیں
تم سے کہنا تھا کچھ
میں۔۔۔۔
مگر کیا کروں
ذہن گٹھڑی بنا سو رہا ہے
کھلے آسماں پر چمکتے ہیں لفظوں کے تارے
مگر دوسرے پل پگھل کر لکیریں بناتے ہوئے سامنے سے گزرتے ہیں
اور سچ تو یہ ہے مری برف دنیا میں اب
چیختا ، بلبلاتا ، بلکتا ہوا اک سکوں ہے
کوئی بات ہلچل مچاتی نہیں
میری پیشانی پر اپنی پیشانی رکھ کر سنو
حرف کی کرچیاں تھرتھراتی تو ہیں
بول پاتی نہیں

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*