کام کرو کام

      “ہٹے گٹے، ہاتھ پیر سلامت، پھر بھی کام سے جان جاتی ہے، شرم نہیں آتی بیغیرتوں کو ہاتھ پھیلاتے ہوئے”

میانے قد اور فربہ جسم کے الحاج ملک عبدالحکیم آج بھی بڑبڑاتے ہوئے گھر میں داخل ہوئے۔ تاہم گھر کے کسی فرد نے ان کی بات پر کچھ زیادہ دھیان نہیں دیا۔ کیونکہ جس طرح انھیں بڑبڑانے کی عادت ہو گئی تھی جو کہ ان کی خود کلامی کی ایک شکل تھی، اسی طرح گھر والے ان کی بڑبڑاہٹ کو ان سنی کرنے کی خو اپنا چکے تھے۔ گھر والوں میں ان کی دو بیویاں، دو بیٹے، ایک بہو، اور تین عدد پوتے پوتیوں کے علاوہ آبائی گاوں سے لائی گئی دو ملازمائیں بھی شامل تھیں۔ وہ کام والیاں دراصل ان کی دور کی غریب رشتہ دار تھیں۔

یہ تو ہمیں معلوم نہیں کہ عبدالحکیم، ملک صاحب کب بنے۔ لیکن یہ حقیقت واضح ہے کہ دوسرے حج کے بعد ان کا نام الحاج جیسے سابقے سے سرفراز ہوا تھا۔ بعد میں انھوں نے اور بھی کئی حج اور عمرے ادا کیے البتہ الحاج کا سابقہ مزید ترقی پانے سے معذور رہا۔ الحاج صاحب نے زندگی میں بہت نام کمایا۔ نام بھی اور نیکیاں بھی۔ ان کی نیکیوں میں حج اور کئی عمروں کے  علاوہ یتیموں، بیواوں کی مدد بھی شامل تھی۔ ان کی نامداری میں نیکیوں کے علاوہ بڑے سرکاری عہدے داروں اور مختلف ادوار میں مختلف سیاسی پارٹیوں کی بارسوخ شخصیات سے گوڑھے تعلقات کا بھی ہاتھ تھا۔ ہم انھیں کامیاب، خوشحال اور قسمت کا دھنی انسان کہہ سکتے ہیں۔ خود الحاج صاحب کا پختہ یقین تھا کہ ان کی خوش بختیوں کا سلسلہ ان بیش قیمت ریشمی چادروں سے جڑا ہوا تھا جو وہ اولیائے کرام کی قبروں اور مزاروں پر بلا ناغہ چڑھایا کرتے تھے۔ ان کا ایمان تھا کہ ان برتر ہستیوں کی سفارش ہی دنیا کی سب سے بڑی سفارش تھی۔ یہ اور بات کہ خود ان کو بھی اور ان کی اطراف کو بھی اچھی طرح سے معلوم تھا کہ کسٹم کے محمکے کے چھوٹے سے عہدے سے ترقی کرکے بڑے عہدے تک پہنچتے پہنچتے دھن دولت کن کن راستوں سے ان کی تجوریوں تک پہنچا تھا۔ الحاج صاحب البتہ اپنے آپ کو دو طرح کا اطمینان دلا کر پر سکون نیند سو لیا کرتے تھے۔ پہلا اطمینان یہ کہ انھوں نے بہرحال انتھک کام کرکے دولت کمائی تھی اور دوسرا یہ کہ وہ اپنی دولت کا کچھ حصہ دینی فرائض کی ادائیگی میں خرچ کیا کرتے تھے۔

“انتھک کام” کی اہمیت کو الحاج صاحب دل سے مانتے تھے اور اسی کا نتیجہ تھا کہ انھیں نکموں، کام چوروں سے خدا واسطے کا بیر تھا۔ مذہبی جلسوں میں جب بھی انھیں تقریر کرنے کا موقع ملتا تو وہ دینی فراِئض کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ کام کی اہمیت پر اتنی فصیح گفتگو کرتے کہ سننے والے بے روزگار نوجوانوں کی رگوں میں خون کی جگہ کام کرنے کا جذبہ ٹھاٹیں مارنے لگتا۔ وہ کام کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے۔ کسی کو ریڑھی مل جاتی، کسی کو چوکیداری، کسی کو بلدیہ کا جھاڑو اور کسی کو صرف دارو۔ یہ دارو بھی عجیب کام تھا۔ ایک آدھ کی تجوری بھرتا تھا تو سینکڑوں کو گور کنارے پہنچاتا تھا۔ “پڑیا” میں موت بند کرکے فروخت کرنے کا دھندہ ان دنوں شروع ہوا تھا جب بپھرے ہوئے دین داروں کی ٹولیاں شریفوں کے دروازوں کی کنڈیاں کھڑکا اور گھنٹیاں بجا بجا کر انھیں نماز پڑھنے کا حکم دیا کرتی تھیں۔

وقت کے ساتھ ساتھ کام کرنے کی تلقین الحاج صاحب کی پختہ عادت بلکہ جنون بن گئی۔ اتنی کہ کسی بھکاری کے پھیلے ہوئے ہاتھ پر چند سکے رکھنے کی بجائے وہ یہی تلقین اس کے ہاتھ پر رکھتے اور آگے بڑھ جاتے۔ ادھر شہر میں ہونے والی تبدیلیوں اور ترقیوں میں بھانت بھانت کے بھکاریوں کا روز افزوں اضافہ بھی شامل تھا۔۔ بچوں، نادار بوڑھوں، اپاہج زندگیوں اور شیر خوار بچے اٹھائے جوان عورتوں کے ساتھ ساتھ اب وہ بھی ایک بڑی تعداد میں سرخی پوڈر تھوپے، بھڑکیلے کپڑے پہنے بارونق بازاروں میں ہاتھ پھیلائے پھرنے لگے۔۔۔۔۔ وہ جن کے لیے سماج نے گانے بجانے کے علاوہ صرف تالی پیٹنے کا کام مختص کیا تھا۔ الحاج صاحب جب اپنی اولادِ نرینہ کی ماں، یعنی اپنی دوسری بیگم کے ساتھ اندرون شہر کی مشہور فروٹ چارٹ اور کشمیری چائے کا مزا لینے نکلتے تو بازار پہنچ کر ان کے لیے گاڑی کا شیشہ کھولنا مشکل ہو جاتا۔ چائے والوں کا چھوٹا ان تک بعد میں پہنچتا اور یہ بھکاری پہلے۔ رنگ رنگ کی دعاوں کی گردان کے جواب میں الحاج صاحب “کام کرو کام” کا مشورہ عنایت فرما کر جلدی سے گاڑی کا شیشہ اوپر چڑھا لیتے۔ کیونکہ وہ بھی جانتے تھے کہ اب کچھ بھکاری ان کے مشورے کا جواب گستاخ لفظوں میں دینے لگے تھے۔

ایک دن حاجی صاحب کی خالی خولی تلقین کو پا کر ایک بنے سنورے خواجہ سرا نے چلا کر کہا:

“ہم تو اپنا کام کر رہے ہیں حضور۔ آپ کے پاس کوئی اچھا کام ہے تو بتاو۔”

الحاج صاحب نے یہ سنا تو لاجواب ہو گئے کیونکہ ان کے پاس خواجہ سرا کو دینے کے لیے کوئی کام تو کیا ہوتا، کسی مناسب کام کا تصور بھی نہیں تھا۔ سچ یہ ہے کہ اپنی پرآسائش زندگی میں ان کا دھیان کبھی بھی بڑھتی ہوئی بے روزگاری کی طرف نہیں گیا تھا۔ آبائی پیشے وہی گنتی کے تھے، نئی نوکریوں کی آسامیاں خال خال سامنے آتی تھیں۔ جبکہ آبادی میں بے تحاشا اضافہ ہوا تھا۔ پڑھے لکھے نوجوان نوکریوں کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے تھے۔ ملک میں کئی دہائیوں سے جاری مذہبی انتہا پسندی، فرقہ وارانہ دہشت گردی اور خودکش دھماکوں نے امن و امان کی صورتحال اتنی خراب کی  تھی کہ ملک کے بڑے صنعت کار اپنا کاروبار ملک سے باہر لے گئے تھے۔ ادھر مزدور اور کسان کی محنت سرمایہ دار اور زمین دار کو امیر تر اور محنت کش کو غریب تر بنا رہی تھی۔ مڈل مین اور ذخیرہ اندوزی میں ملوث گدھ اس سے سوا تھے۔ غربت کا یہ عالم تھا کہ لوگ اپنے بچے فروخت کرنے لگے تھے اور بھوکی مائیں بچوں سمیت خودکشیاں کرنے لگی تھیں۔۔۔۔۔۔ لیکن۔۔۔۔۔۔ بیچارے الحاج صاحب صورتحال کی سنگینی سے بے خبر تھے۔ اب وہ کسی کو نوکری تو دینے سے رہے۔ ایک بس کام کرنے کا مشورہ تھا جسے وہ فیاضی سے بانٹ رہے تھے۔۔۔۔

” کوئی بھی کام، محنت مزدوری، کچھ بھی۔ کام کرنے والوں کو کام مل ہی جاتا ہے۔”۔۔۔۔  وہ زیرِ لب بڑبرائے۔ جس خواجہ سرا نے ابھی ابھی یہ سوال ان سے پوچھا تھا وہ اب کسی اور کار والے کے سامنے ہاتھ پھیلائے کھڑا تھا۔

—–

اس رات امجد کریم نے اپنا میک اپ رگڑ رگڑ کر دھونے اور بھڑکیلے کپڑے تبدیل کرنے کے بعد سکون کا لمبا سانس لیا۔ کل اس کا ارادہ کام سے چھٹی کا تھا۔ کل وہ دیر تک سوئے گا، پھر اپنی اصل جون میں شہر کی سیر کرے گا اور اس خوف کے بغیر کرے گا کہ اس کا کوئی جاننے والا اسے خواجہ سرا کے حلیے میں پہچان نہ لے۔ بستر پر لیٹے لیٹے اسے وہ بڑی عمر کا فربہ آدمی یاد آیا جس نے آج اسے دوسری بار بھیک کی بجائے کام کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ اس نے دوسری بار اسے موٹی سی گالی دے کر کمرے کے فرش پر تھوکا۔ “سالا یہ بھی تو بتائے کہ کون سی نوکری اور ملے گی کہاں “۔۔۔۔ امجد کریم کچھ ہی عرصہ پہلے اپنے دو اور دوستوں کے ساتھ چھوٹے شہر سے بڑے شہر نوکری کی تلاش میں آیا تھا۔ لیکن نوکری کہیں نہیں تھی۔ اس نے سپاہی اور جونئیر کلرک کی اسامیوں کے لیے بھی ایم اے پاس نوجوانوں کو قطاروں میں کھڑے دیکھا تھا۔ لیکن سلیکشن اسی کی ہوتی تھی جو کئی لاکھ روپوں کی رشوت کا انتظام کر سکتا تھا۔ ایسے میں امجد کریم اور اس کے دوستوں کو کون پوچھتا جو صرف بی اے پاس تھے اور غریب تھے اور کام کا ایک ہی تصور ان کے ذہنوں میں تھا، یعنی نوکری۔۔۔۔۔۔ لیکن زندہ رہنے کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا تو ضروری تھا۔ سو انھوں نے اپنے ایک دوست کے مشورے سے نئی طرح کا کام شروع کیا جس سے فوری کمائی ممکن تھی۔ وہ منہ اندھیرے کرائے کے کمرہ نما مکان سے نکل جاتے اور رات گئے واپس لوٹتے۔ امجد کریم اور اس کے ساتھی جن لوگوں کا بھیس بدل کر یہ “پیشہ” کرتے تھے ان کے کام میں تو ان کی میراث کے ہنر بھی شامل تھے۔ جہاں کہیں نیا انسان دنیا میں آتا وہ دعائیں دینے اور نومولود کی بدھائی کے پیسے وصولنے پہنچ جاتے تھے۔ گاتے، رقص کرتے اور دعائیں دیتے تھے۔ دوسری طرف امجد کریم کے ساتھیوں کا لباس اور رنگ ڈھنگ تو وہی تھا لیکن ان کے پاوں تھرکنے کی بجائے ان کے پھیلے ہوئے ہاتھ ‘پیشہ’ کرتے تھے۔

اس کام میں شروع شروع میں اچھی کمائی ہوئی۔ لیکن پھر یہاں بھی مقابلہ آ گیا۔ عام لوگ حیران ہوئے کہ اتنی بڑی تعداد میں “یہ لوگ” کہاں سے آ گئے؟ کیا ماؤں نے؟۔۔۔۔۔۔۔ البتہ ایک دانشور کا کہنا تھا کہ مائیں نہیں ریاست ‘زنخے’  پیدا کر رہی ہے۔ لوگوں نے جب یہ سنا تو ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو گئے، “لو جی اب ریاست زنخے بھی پیدا کرنے لگی”۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عوام میں ایسی دانش بھری باتوں سے ہنسی کشید کرنے کی صلاحیت کی کبھی کمی نہیں رہی۔  خیر ہوا یہ کہ دو چار باخبر صحافیوں نے امجد کریم جیسوں کی حقیقت جان کر اخباروں میں خبریں لگا دیں۔ ان خبروں کا فائدہ اگر ہوا تو پولیس کو ہوا۔  اب ان لوگوں کو کام کرنے کے لیے اڈے بنانے پڑے اور پولیس کو اپنی دیہاڑیوں میں شریک کرنا پڑا۔ یوں ایک طرح کے کام نے ایک سے زیادہ کمائیوں کی راہ ہموار کر دی۔

امجد کریم اور اس کے ساتھیوں کو یہ پیشہ کرتے ہوئے ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا تھا جب ان کے اندر نفرت اور ردِ عمل کا مواد پکنے لگا۔ پورا دن گھٹیا میک اپ میں رہنے سے چہرے کی جلد بری طرح خراب ہوئی۔ گرمی میں بھڑکیلے کپڑے کاٹنے لگے۔ لیکن یہ سب پھر بھی قابلِ برداشت تھا۔ اصل مسئلہ مردوں کی للچائی ہوئی غلیظ شہوت بھری نگاہوں کا تھا۔ کئی آوارہ آتے جاتے ان کے کولھوں اور چھاتیوں پر ہاتھ مار جاتے یا گندے اشاروں سے ساتھ چلنے کی دعوت دیتے۔ ان کا ایک ساتھی جو ذرا نازک اندام تھا وہ ایک بار اغوا ہوتے ہوتے بچا۔ شب و روز کا سلسلہ کچھ ایسا تھا کہ وہ تذلیل برداشت کرتے کرتے حد درجہ فحش گالیاں بکنا سیکھ گئے۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ جنھیں یہ گالیاں دی جاتیں وہ کبھی بے مزہ نہ ہوئے۔ ان نوجوانوں کے اندر ذلت، دکھ اور نفرت کے احساس نے رفتہ رفتہ انتقام کی بھٹی دہکا دی۔ ایسی بھٹی جس میں سونا پک کر کندن نہیں بنتا، لکڑی جل کو کوئلہ ہوتی ہے۔

اس دوران شہر بتدریج غیر محفوظ ہوتا گیا۔ آئے روز کہیں نہ کہیں چوری چکاری کی وارداتیں ہونے لگیں۔ امیر طبقے کو اپنی حفاظت کے لیے ذاتی محافظ  رکھنے کی ضرورت پیش آئی۔  الحاج ملک عبدالحکیم نے بھی اپنے مال و اسباب کی حفاظت اور اطمینانِ قلب کے لیے ایک عدد سیکیورٹی گارڈ رکھ لیا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ رات کو تین بار آیت الکرسی پڑھ کر کوٹھی کے چاروں کونوں پر پھونک مارتے اور بے فکر ہو کر نیند کا مزا لیتے۔

——

کام کرو کام

آج الحاج ملک عبدالحکیم نے یہ جملہ پہلی بار کسی اور کے منہ سے سنا تھا۔ یہ جملہ اپنے مفہوم سے غداری کرتے ہوئے طنز، حقارت اور نفرت کے زہر میں بجھا تیز دھار خنجر تھا جو کہنے والے نے الحاج صاحب کے سینے میں گھونپنے کی کوشش کی تھی۔ آدھی رات کا وقت تھا اور رات گھپ اندھیری تھی۔ آسمان پر تاروں کی چادر کو بادلوں نے چھپا دیا تھا اور ہوا خلافِ معمول طور پر ساکت اور خاموش تھی جیسے گوش بر آواز ہو۔ اس رات الحاج صاحب کی کوٹھی میں چوری کی ایک کامیاب واردات ہوئی۔ ایسا لگتا تھا چور ان کے مال و دولت کے ساتھ ساتھ گھر کے اندرونی حالات کا خوب علم رکھتے تھے۔ اس رات کوٹھی کا محافظ اپنے کیبن میں دیر تک بے ہوش رہا۔ اس کی بندوق دوسرے دن کوٹھی کے لان میں  لگے درختوں کے جھنڈ کے پیچھے سے برامد ہوئی۔  گھر کی بجلی کاٹ دی گئی تھی اور گھر کے بالغان رسیوں سے بندھے تحقیر آمیز لاتیں اور مکے کھانے کے بعد اب صرف اپنی جان کی امان مانگ رہے تھے۔ چوری کرنے والوں کو توقع سے کہیں زیادہ نقدی اور زیورات ہاتھ لگے۔ جاتے وقت انہی  نقاب پوش چوروں میں سے ایک نے الحاج صاحب کا محبوب جملہ انھیں لوٹاتے ہوئے یہ بھی کہا:

“حضور ہم نے کام شروع کر دیا ہے۔”

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*