پولٹ بیورو مرگیا

 

گجرانوالہ کے حافظ تقی الدین نے لکھا تھا: ۔
’’دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔ تو اندر کیا تھا فقیر انہ دربار تھا۔ ایک نوجوان اور تین بزرگ قسم کے لوگ بیٹھے ہمارے منتظر تھے۔کمرے کے اندر ٹی وی چل رہا تھا۔ہیڑبھی اپنی پوری گرمی سے کمرے کو گرم رکھے ہوئے تھا۔ ایک چار پائی تھی۔ زمین پر دری بچھی ہوئی تھی۔ ایک الماری کتابوں سے بھری ہوئی تھی۔
’’۔۔۔۔۔۔پھر ڈاکٹر مری صاحب نے ڈاکٹر خدائیداد سے کہا :’’ڈاکٹر صاحب چلو شلوار پہنو‘ کہیں کھانا کھانے چلتے ہیں‘‘۔ میں حیران ہوا کہ ڈاکٹر خدائیداد صاحب ننگاتونہیں ہے اس نے تو ‘شلوار پہنی ہوئی ہے۔ پھر ڈاکٹر صاحب کون سی شلوار کا کہہ رہے ہیں۔ تھوڑی دیر میں ڈاکٹر خدائیداد نے قمیص کے ہم رنگ شلوار پہن لی۔ اب وہ بہت ہی سمارٹ نظر آرہے تھے۔ جب ڈاکٹر خدائیداد کے کمر ے پر آخری نگاہ ڈالی تو مجھے یہ کمی محسوس ہوئی کہ کمرے میں ایک تختی آویزاں ہونی چاہئے تھی۔ جس پر لکھا ہوتا۔
’’قلندری میری کچھ کم سکندری سے نہیں‘‘۔
ڈاکٹر اپنے اس قلندرانہ گھر کو ’’ پریم مندر‘‘ کہتا تھا۔انگریزی بولنے پہ آتا تو یہ Temple of loveتھا۔ اس کے علاوہ بھی اس نے اُس کے بہت سارے نام رکھے ہوئے تھے۔مکان کیا تھا۔ کچی چار دیواری ، کوئی نلکہ وغیرہ نہیں کوئی واش روم نہیں۔ آٹھ دس گز گہرائی کا کنواں ہے ۔وہ پینے ، پکانے، نہانے، دھونے کے لیے یہی پانی استعمال کرتا تھا۔ وہ ڈول اور رسی سے پانی نکالتا تھا ۔ اندربہت چھوٹے ڈھائی کمرے تھے۔ ایک تو وہ کمرہ جس کا جغرافیہ حافظ صاحب نے بیان کیا ۔
یہ محض بیڈ روم ہی نہیں تھا‘ یہ تو ڈرائنگ روم بھی تھا۔ ٹی وی لاؤنج بھی یہی تھا‘سٹڈی بھی یہیں ‘ ڈائننگ ہال بھی یہی تھااور آرٹ گیلری بھی ۔ میٹنگیں ‘ کلاسیں‘مباحثے بھی یہیں چلتے ۔ چار پانچ آدمی چار پائی پر بیٹھ سکتے تھے بقیہ آٹھ دس افراد زمین پر ٹھس سکتے تھے۔ اسی کمرے میں بہت سی سیاسی پارٹیاں بنیں ،کئی قبائلی تصفیے ہوئے اور کئی تحریکوں کے نوک پلک سنورے۔ یہاں کئی لوگوں نے خطاطی ،مصوری سیکھی،کئی لوگ فلسفہ و معیشت سے آگاہ ہوئے۔ کئی مسافروں کی شب بسری ہوئی اور بہت سے لوگوں نے کمیون کا مزہ چکھا۔
اس کچے ، چھوٹے کمرے میں اور بھی زبردست چیزیں موجود تھیں انگھیٹی پہ ڈانسنگ شیوا کا چھوٹا خوبصورت مجسمہ تھا، یک نفری پلنگ تھا۔ اس پلنگ کے ساتھ ہی سرھانے کی طرف پرانے زمانے کا خوبصورت بنایا ہوا ٹیپ ریکارڈر تھا۔ جس کا صبح چار پانچ بجے نیم سوئے نیم جاگے مالک گھر ایک ادا سے بٹن دباتا اور آدھے گھنٹے پون گھنٹے تک بھجن سنتا۔
پاؤں کی طرف ایک چھوٹی میز پہ ٹی وی رکھا ہوا تھا ۔ جس کی آواز بند رکھی گئی اور چلتا ہی رہتا ۔ پاکستانی سرکاری چینل کسی بھی کام کا نہ تھا ۔ البتہ کبھی کبھی رات گئے اس کی پسندیدہ کلاسیکی موسیقی وہ ضرور سنتا۔
ٹی وی کے ساتھ ہی ایک الماری تھی جو کتابوں رسالوں سے بھری پڑی تھی۔ پرانی کتابیں جنہیں وہ اب پڑھتا نہ تھا۔
ڈاکٹر صاحب کے اس اوقافی مکان کے ڈھائی کمروں میں سے بقیہ آدھے کمرے میں ’’ ڈاکٹر خدائیداد ہومیو کلینک‘‘ کا بورڈ لگا ہوتا تھا۔ جہاں ڈاکٹر صاحب پرانے وضع دار حکیموں کے برعکس رویوں کے ساتھ، جرمنی کی مشہور ہومیو پیتھک ادویات کی کمپنی سے بنی دوائیوں سے تبخیر معدہ سے لے کر دوسرے اعضا کی تبخیر کا علاج کرتاتھا۔رقبے کے لحاظ سے کلینک کا کمرہ دوسرے کمروں کا نصف تھا ۔ اُس کمرے کابھی آدھا حصہ ہومیو پیتھک ادویات سے بھرا ہوتا تھا جبکہ دوسرے نصف میں اپنی میز کرسی اور مریض اور دو ایک اٹنڈنٹس کے لیے کرسیاں اور سٹول رکھے تھے۔
اس کے ساتھ دوسرا کمرہ اُس کا سٹور بھی ہے ، کچن بھی ہے ، پانی کا مٹکا بھی وہیں ہے ۔ زمین پہ آلو، یا انگور بچھے ہوتے تھے ، وہ انہیں پکاتا اور کھاتا بھی تھا، مگر اُن سے عجب نخرے اور ناز کے ساتھ بقول عطا شاد ’’تلخاب‘‘ بناتا تھا۔ وہ’ ’ اچھی چیزیں‘‘ کشید کرنے کا ماہر جوتھا۔ آلو سے‘ انگور سے اور پتہ نہیں کس فروٹ‘ کس سبزی سے

اوپر کچا نیچے کچا،دیواریں کچی چھت کچی۔
لیکن بعد میںیہ مکان وہ نہ رہا تھا جو حافظ صاحب نے دیکھا تھا۔ خدائیداد ایک دن گزرہا تھا کہ مسلم کمرشل بینک کے منیجر نے اسے بلایا ۔ بٹھایا اور بتایا کہ پچاس سال قبل سکھر میں جو آپ نے کچھ پیسے جمع کرائے تھے وہ اب 25 ہزار روپے ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب نے پہلا کام یہ کیا کہ ٹی وی پر شرعی غیر شرعی،ہر چینل دیکھنے کے لیے ایک نہیں دو ڈش خرید لیے۔ وہ اس پر مہارشی ویدک چینل بھی دیکھتا تھا۔ جس پر رات گئے کلاسیکل میوزک دکھایا جاتا ہے۔خدائیدا کلاسیکل میوزک کا تو عاشق تھا۔
صبح سویرے وہ آدمی محمد رفیع اور لتا منگیشکر کی آوازوں میں بھجن سن سُن کر ناشتہ کرتا، شلوار بدلتا ، میک اپ کرتااور باہر جانے کی تیاری کرتا۔خدائیداد کلاسیکل کے سارے اساتذہ کو جانتا تھا، میوزیکل انسٹرومنٹس کو جانتا تھا اور یہ بھی کہ کیا راگ صبح کو سنا جائے اورکونسی رات کو ۔ خدائیداد موسیقی شناسی میں ثانی نہیں رکھتا تھا۔
اب توگیز رتھا اس گھر میں۔ یہ گھراب بارشوں میں خوفناک انداز میں ٹپکتا بھی نہیں تھا‘ پانی کی ٹینکی تھی،یورپی طرز کا غریبی غسل خانہ تھا‘ کھڑا ہوکر کھانا پکانے والا چولہا تھا۔ دیواروں پر ڈانسنگ شیواتھا ۔ عجیب وغریب طور پر عریاں کردہ آرٹ کے فن پارے شیشے کے پرانے فریموں کے اندر بند تھے۔اس کی پسندیدہ اورخوبصورتی کے نمونے مدھو بالا اور کامنی کوشل کی تصویریں آویزاں تھیں۔ کچھ پہلوان عورتیں تھیں‘کچھ پہلوان مرد وں کی فریم شدہ تصاویر دیواروں پہ لٹکی تھیں۔
یہ گھر دراصل اُس کا اپنا نہ تھا،محکمہ اوقاف والوں کا تھا۔ مرزا غالب کی طرح یہاں ڈاکٹر خدائیداد بھی ’’ہمسایہ خدا‘‘ تھا۔ اُس کے گھر اور مسجد کو بس ایک دیوار الگ کرتی تھی۔ اور وہ غالب سے ہزار گنا زیادہ طریقوں سے اس ہمسائیگی کو بیان کرتا تھا۔’’ اسٹیج موسک‘‘ تو اس کاپسندیدہ بیانیہ لفظ ہوتا تھا۔ کمال دیکھیے کہ ملّا کندھار کا نہیں‘دالبندین کا تھا بلوچ تھا۔ کمال بات ہے کہ بڑے شہروں میں آپ کو بلوچ ملّا نہیں ملتا۔ وہ بے چارہ وہ لوازمات ہی پورا نہیں کر پاتا جو بڑے شہروں کی کمپی ٹیشن کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ مگر یہ خود ایک غیر معمولی بات تھی کہ ملّا بلوچ تھا۔ اس پر طرہ یہ کہ جمع کو تقریر اردو میں بھی کیا کرتا تھا۔ ہاں اردو کی جو درگت بناتا ہوگا اُس کا تو ہمیں اندازہ ہوگا۔ آپ یقین کریں کہ اردو کے لواحقین اگلے جمع تک پورے آٹھ دن اُس کے علاج معالجے اور عیادت میں لگا دیتے تھے ۔کوئی اس کے مذکر مونث کی دوبارہ مرمت کر رہاہوتا ، کوئی اسے اگلے جمعے کو پھر زخمی زخمی ہوجانے کی ہمت دلارہا ہوتا ۔
یہ صرف مسجد نہ تھی بلکہ Mosque cum madrasaتھا۔ یہاں طالب بھی بہت تھے۔’’قندھارکلچر‘‘ چونکہ قریب ہے اس لیے پشتو،فارسی ،اُردو ‘بلوچی کی جتنی ضرب الامثال ،استعارے،محاورے ہیں ڈاکٹر صاحب اس ہمسائیگی میں فٹ کرلیتاتھا۔ بانگ،وعظ،لاؤڈ سپیکر کو آن کرکے پہلے پہل اس میں تین چار بڑے زور دار پھونک مارنے کی ملاّ کی ادا۔۔۔الغرض اس پوری داستان کے ہر موڑ کے لیے ڈاکٹر صاحب کا ایک موزوں تبصرہ ہوا کرتا تھا۔ وہ بلا کا تراکیب ساز تھا، دیہی عریانیت والی زبان استعمال کرتے ہوئے وہ نئے نئے امثال ، محاوروں اور جدید ماڈل کے فقروں کا موجدِ اعلیٰ تھا۔
رہی بات شلوار کی تو ڈاکٹر صاحب بس اُسی پراکتفا کرتا تھا گھر میں۔ سردی ہوتی یا گرمی ڈاکٹر صاحب گھر میں کوئی قمیص پوشی نہ کرتا۔ ایک دانہ بنیان اور ایک دانہ شلوار ۔اور پھر شلوار کے لیے یہ بھی ضروری نہیں ہوتا تھا کہ اس کے دامن میں چھید نہ ہوں۔بیٹری سگریٹ اور کوئلہ کے سٹو و کی چنگاریوں کے کشتوں کے پشتوں کی نشانیاں تھیں یہ چھید اور یہ سوراخ۔ یہی بات بنیان پر صادر آتی تھی۔ گھر میں بس یہی اُس کا یونیفارم ہوا کرتا تھا۔ مہمان خواہ کتناپھنے خان ہوتا خدائیداد گھر میں اپنا وضع قطع نہ بدلتا۔
البتہ اگر کہیں جانا ہوتا تو وہ جنٹلمین بن جاتا۔ وہ ’’میک اپ ‘‘ (وہ شیو کرنے اور منہ دھونے کو میک اپ کہتا تھا) کرتا،شلوار بدلتا ، بالوں میں کنگھی پھیرتا ۔ مگر وہ اصل جنٹلمینی اور شرافت کی نشانی واسکٹ کو سمجھتا تھا۔ کسی نے میرے یار کے دماغ میں یہ بات ڈال دی تھی کہ واسکٹ ڈالے بنا کتنے ہی اچھے کپڑے پہن لو‘وجاہت نہیں آتی۔ لہٰذا وہ باہر جاتے وقت اپنی واسکٹ ضرور پہنتاتھا۔واسکٹ اُس کے دوسرے سارے دوستوں کے لباس کا بھی لازمی حصہ ہوتا تھا۔ہاں واسکٹ کی وحدانیت لازمی شرط تھی ۔ ایک ہی واسکٹ ہوا کرتی تھی اُس کے پاس ۔ واسکٹ کو سوکن دینا بے وفائی بھی تھی مگر اصل وجہ آمدنی کا زیادہ نہ ہونا تھا ۔ پیسے اور دولت والی اُس کی چادر بہت چھوٹی تھی۔
ذرا سے پیسے ہوتے تو وہ گوشت خور آدمی بڑا گوشت ضرور پکاتا تھا۔ اور کیا خوبصورت کھانا بناتا تھا وہ ۔ خدائیداد عموماً دو ٹائم کا اکٹھاسالن پکاتا تھا۔ روٹی ساتھ والے تنور سے پکڑ لاتا تھا۔ مہمانوں کے لیے چائے بھی وہیں سے منگواتا تھا۔ہاں ، اسے کافی پینے کا بہت شوق تھا۔ وہ اپنے لیے یا زیادہ سے زیادہ ایک آدھ مہمان کے لیے دو گلاس کافی بناتا تھا۔ تیار پسی ہوئی Nescafe کا آدھا چمچہ لیتا ، اُس کاآدھا اپنے گلاس میں ڈالتا اورآدھا مہمان کے گلاس میں ۔ پتہ نہیں کہاں سے آسٹریلیا کا ڈبوں میں بند گاڑھا مائع دودھ کافی میں ڈالتا تھا۔ مزے دار کافی۔
خدائیداد کے پاس خدا کے فضل و کرم سے نہ زر تھا،نہ زمین تھی۔ اور نہ زن ۔ مگر وہ میرے محترم استاد جناب پروفیسر ذوالفقار علی زیدی کی طرح یہ نہیں کہہ سکتاتھا کہ’’ا س کے پاس نہ ٹی وی ہے نہ بی وی ہے‘‘۔ اس لیے کہ خدائیداد کے پاس ٹی وی تھا اور بہت ہی مزیدار ٹی وی تھا۔وہ اس پہ قرینے سے کپڑے کے پوش رکھتا تھا کہ کچے مکان کی گرد سے محفوظ رہے۔
گھر کے رکھ رکھاؤ کے بارے میں بھی سن لیں۔خدائیداد چونکہ مجرد زندگی گزارتا تھا اس لیے معروضی بات ہے کہ وہ گھر کی صفائی ستھرائی خود کرتاتھا ۔ لہٰذا وہ بہت درشت تھا اپنی چیزوں کی اصل مقام پر موجودگی کے بارے میں۔ وہ انہیں اپنی جگہ سے ہلانے اور بے مقام بنانے قطعاً نہیں دیتاتھا۔ وہ اس اصول کی خلاف ورزی کرنے والے سے بے عزتی کی حد تک بدسلوکی کرتا تھا۔ و ہ کسی اور کو نہ کپ دھونے دیتا تھا، نہ برتن رکھنے دیتا تھا‘ نہ تربوز کا ٹنے ، نہ چھلکے پھینکنے اور نہ ہی ایش ٹرے خالی کرنے دیتا تھا۔ وہ یہ سارا کام خود کرتا تھا۔اپنے عادی طریقہ اور نستعلیقی سٹائل کے ساتھ۔
خدائیداد ’’ری سائیکل ‘‘ پراسیس کا بہت حامی انسان تھا۔ اکٹھا باہر نہیں پھینکتا تھا۔ وہ کھاد کے کام آنے والے سارے کُوڑے کو بڑی نازک اندامی میں اپنے چمن اور پھولوں میں گاڑ دیتا تھا۔ وہ کچے گھر سے چیونٹیوں کیڑے مکوڑوں سے دور بھگانے کے لیے بھی اِس کوڑا کرکٹ کو بہت اہم سٹریٹجک مقامات پہ ڈال آتا تھا۔ خدائیدا کا پر قدم ، ہر حرکت بامقصد ہوا کرتی تھی۔
ڈاکٹر صاحب کا حلقہ احباب بھی بہت دلچسپ تھا۔ اس حلقہ میں کمی تو کوئی نہیں ہوتی تھی البتہ بیشی ایک مستقل حالت تھی۔ ڈاکٹر خدائیداد اس قدر عوامی آدمی تھا، اس قدر زود دوست اور اس قدرڈائریکٹ شخص تھا کہ وہ کسی بھی ریڑھی والے‘ مزدور‘ دکاندار‘قصاب اور چائے والے سے دو منٹ کے اندر اندر گھل مل جاتا۔اسی طرح بلوچ،ہزارہ ،پنجابی،ہندی،افغان مہاجر،عراقی ایرانی مہاجر،پشتون،سندھی ،الغرض ہر نسل ہر قوم سے بہت کم وقت میں گرویدگی حاصل کرجاتا تھا ۔
وہ بلوچستان کی ساری زبانیں جانتا تھا۔ ہندی‘سنسکرت حتیٰ کہ چینی زبان میں اُسے ایک چینی وفد کی خاتون ممبر سے ’’ نی ہاں۔ نی ہاں‘‘ کرتے دیکھا گیا۔ہر زبان کے ادب اورشاعری سے واقفیت رکھتا تھا۔ ضرب الامثال جانتا تھا۔خصوصاً، وہ ان زبانوں کے Slangs جانتا تھا ۔ جانتابھی خوب تھا اور استعمال بھی بلاتوقف اور بلاتکلف کے کرتا تھا۔اور وہ دلچسپ ترین شخص عام سی گفتگو اُس زبان کا ضرب المثل ، استعارہ یا محاورہ اسی زبان میں یوں پیوند کرتا کہ لطف کئی گنا بڑھ جاتا۔

ماہنامہ سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*