کاکاجی صنوبر حسین مومن

 

(1963ء -1897ء )

کاکاجی سے میری ملاقات جس ڈرامائی انداز سے ہوئی اس واقعہ سے آپ اندازہ لگا سکیں گے کہ اگر یہ عشق نہیں ہے تو کیا ہے. میں نے ان کے کارنامے سنے تھے ان کے انقلابی نظریات سے آگاہ تھا لیکن نہ انہیں دیکھنے کا موقع ملا نہ ملاقات ہوئی. میں غائبانہ ان کا فدائی تھا اور ایک عرصے سے انہیں دیکھنے کی شدید تمنا تھی، جب ان کی آمد کا پتہ چلا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ چوک ناصر خان پشاور میں انہوں نے ماہنامہ اسلم کے دفتر کے لئے ایک بالا خانہ کرائے پر لیا ہے، تو میں بڑی بے چینی سے بھاگم بھاگ وہاں پہنچا لیکن دفتر بند تھا، دوسرے روز بھی ایسا ہی ہوا، میں دو دفعہ دفتر گیا اور انہیں نہ پاکر مایوس لوٹا، تیسرے دن پھر بھی وہ دفتر میں نہ ملے تو میں نے ان کے گاؤں جانے کا فیصلہ کرکے واپس آیا اور جب بھانہ ماڑی میں اپنی دکان پر پہنچا تو کاکاجی کو وہاں اپنا منتظر پایا. ہم دونوں بغیر کسی تعارف کے یو تپاک سے ملے جیسے دو بچھڑی ہوئی روحیں آملی ہوں، جیسے جنم جنم سے ہمارا ساتھ رہا ہو، حالانکہ ہم زندگی میں پہلی بار ملے تھے اور اس سے پہلے ایک دوسرے کو دیکھا تک نہ تھا، جب میں نے ان سے کہا کہ تین دن سے ان کے دفتر کا طواف کر رہا ہوں تو انہوں نے بتایا کہ وہ بھی تین دن سے میری دوکان کے چکر لگا رہے ہیں اور ہوتا رہا کہ میں ادھر جاتا اور وہ ادھر میری طرف آتے رہے. اور اس چکر میں تین دن ملاقات نہ ہوسکی. کاکاجی کے جانے کے بعد میں سوچتا رہا کہ ٫٫ آخر وہ ایسی کیا کشش تھی کہ ہم دونوں ایک دوسرے کو ملنے سے اجنبیت کے باوجود اس قدر بیقرار تھے، میں تو خیر ان کے شخصیت ان کے کردار، ان کی قربانیوں کی وجہ سے ان کا دلدادہ تھا، لیکن میری تو ان کے سامنے کوئی حثیت نہ تھی نہ ادبی نہ سیاسی نہ علمی. نہ میری کوئی نمایاں قربانی تھی نہ کوئی نام و مقام تھا، میں تو سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ غائبانہ طور پر مجھ سے واقف ہوں گے، پھر انہیں کیا پڑی تھی کہ مجھے ملنے کے اتنے مشتاق تھے، مجھے پہلے دفعہ احساس ہوا کہ ذہنی اور نظریاتی رشتوں کی جڑیں اتنی گہری ہوتی ہیں کہ خون کے رشتے بھی ان کے آگے کوئی معنی نہیں رکھتے،،.

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*