ٹرمنالوجی اور روز مرہ زندگی

 

سیاسی ورکرز ، فلاسفرز اور دانشور ٹھیک کہتے ہیں کہ ہماراسارا سیاسی نظام ’’بورژوا ‘‘ہے ۔ سیاست وریاست کی ساری خرابیوں کی ساری تفصیل کو ایک لفظ میں سمو دیا گیا ہے ۔ وضاحت ہوجاتی ہے سارے معاملے کی۔
مگر یہ لفظ’’بورژوانظام‘‘ کہنے کے بہت سارے نقصانات بھی ہیں۔ اور سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ لوگ ساری باتوں کو ’’لائیٹ‘‘ لینے لگ جاتے ہیں۔اصطلاحات تفصیلات کا گلا بھی تو گھونٹ دیتی ہیں۔
مثلاً ہم کہتے ہیں ملک کا سارا سیاسی معاشی نظام کرپٹ ہوچکا ہے ۔ اب یہ کہنا بالکل درست ہے کہ بورژوا نظام ہوتا ہی کرپٹ ہے ۔ مگربات یہاں ختم نہیں ہوتی، معاملہ خلاص نہیں ہوتا۔ اصل بات یہ ہے کہ لفظ’’کرپٹ‘‘ کا مالک کون ہوا؟ ۔ کرپٹ نظام بس آٹو میٹک طور پر کرپٹ ہوتا ہے یا اُسے جان بوجھ کر کرپٹ کیا جاتا ہے ؟۔ ایک اگلا اور سیدھاسا سوال یہ ہے کہ کرپٹ نظام میں نقصان کس کا ہوتا ہے ؟۔ہمیں پتہ ہے کہ سو فیصدی آبادی کا نقصان تو نہیں ہوتا ۔ مثلاً شوگرملوں کے مالکان کا کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ مثلاً بڑے بڑے ملکوں سے تجارتی معاہدات کرنے والے افسروں کو نقصان نہیں ہوتا۔ مثلاً عدلیہ اور مقننہ کا نقصان نہیں ہوتا۔ مثلا سول اور ملٹری افسروں کا نہیں ہوتا۔ مثلاً بڑے بڑے جاگیرو ں کے مالکوں کا نہیں ہوتا۔ اور قبائلی سرداروں کا نہیں ہوتا۔ ۔۔نقصان تو بقیہ90فیصد آبادی یعنی عوام کا ہوتا ہے ۔ مگر عوام بار بار یہ لفظ ’’کرپٹ‘‘ سن کر سمجھنے لگتے ہیں کہ گویا یہ پورے معاشرے کا معاملہ ہے ، چنانچہ وہ اسے عام سی بات ، لائٹ بات لیتے ہیں۔
اسی طرح جب ہم کہتے ہیں کہ اِس ملک کے قوانین فرسودہ اور پرانے ہوچکے ہیں۔ اور یہ نئی دنیا کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ تو ہم یہ بات نظر انداز کر رہے ہوتے ہیں کہ قوانین کا اطلاق کس پر ہوتا ہے ۔ یہ عوام الناس ہیں جنہوں نے ہر روز کچہریوں تھانوں میں ان قوانین کو بھگتناہوتاہے ۔ بالائی حکمران طبقات نہ اِن قوانین کو مانتے ہیں اور نہ ہی انہیں خود پہ لاگو کرنے دیتے ہیں۔چنانچہ اِس فقرے کو لائٹ نہیں بنانے دینا چاہیے۔
اسی طرح جب ہم کہتے ہیں کہ سرکار ناکام ہوگئی تو ہم دراصل صرف اُن محکموں کی بات کر رہے ہوتے ہیں جو عوام کی بھلائی پہ متعین ہوا کرتے تھے۔ بھلا محکمہ داخلہ، جیل خانہ جات ،اورٹیکس لگانے والا محکمہ بھی کبھی غیر فعال ہوا؟ ۔کبھی پولیس ،فوج بھی غیر فعال ہوئی؟۔ کبھی پارلیمنٹ کے اجلاس غیر فعال ہوئے ؟، کبھی صوبائی اور مرکزی سیکریٹریٹ غیر فعال ہوئے ؟۔ ۔۔ اور کبھی اے جی آفس بھی غیر فعال رہا؟۔غیر فعال ہیں تو صحت، تعلیم، سماجی ، بہبود، کھیلیں، زراعت وجنگلات غیر فعال ہیں ۔ چنانچہ ٹیکس دینے کے باوجود عام آدمی صحت بازار( پرائیویٹ ہسپتال) سے خریدتا ہے ۔ وہ آئین میں درج ہونے کے باوجود تعلیم مارکیٹ سے ( ٹیوشنوں اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں) سے خریدتا ہے ۔ اور اب تو جان ومال کی حفاظت جیسے بنیادی انسانی حق مہیا کرنے کے لیے پابند حکومت کے ہوتے ہوئے بھی لوگوں نے محافظ بازار سے پرائیویٹ کمپنیوں سے خریدنے شروع کیے ہیں۔
سارے بورژوا میڈیا والے اور بورژوا ماہرین جب کہتے ہیں کہ ملک کی معیشت تباہ ہے اور زر مبادلہ کے ذخائر بہت کم رہ گئے ہیں تو دراصل وہ پھر سوئی گیس ، بجلی اورڈیزل مہنگا کرنا چاہ رہے ہوتے ہیں۔ زرمبادلہ کی کمی پورا کرنے کے لیے وہ کبھی بھی شوگرملوں اور کاٹن ملوں کے مالکان کو تکلیف دینا نہیں چاہیں گے ۔ نہ ہی وہ سرکاری غیر پیداواری اخراجات میں کمی کرنا چاہیں گے۔
اسی طرح ہم ’’وارآن ٹیرر‘‘ یا، ضربِ عضب کی بات کرتے ہوئے رکتے نہیں بلکہ آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ہم غور ہی نہیں کرتے کہ ہم چالیس سال سے اس جنگ کو بھگت رہے ہیں۔ اب یہ محض جنگ نہیں رہی ایک نیا سیاسی معاشی نظام بن چکا ہے۔ اس جنگ میں منشیات کی پوری ایگرو بیسڈ انڈسٹری قائم ہوچکی ہے جس کے آڑھتیوں اور فروخت کرنے والوں کو ملا کر پوری ڈرگ ایمپائر وجود میں آچکی ہے ۔ اسی ایمپائر سے وابستہ اسلحہ کا کاروبار ہے ۔اور اس طرح پیدا شدہ کا لا دھن نہ وار آن ٹیرر کی گرفت میں ہے نہ ضربِ عضب کے ۔ اور چونکہ یہ کالا دھن بنیاد پرستی سے پیدا ہوا ، اس لیے وہ بنیاد پرستی ہی کے فروغ پر خرچ ہورہا ہے ۔ چنانچہ انتہا پرستی اور بنیاد پرستی کی ایک نظر یاتی دنیا تشکیل دے چکی ہے ، ایک نئی مضبوط پولٹیکو اکنامک کلاس وجود میں آچکی ہے۔
ہم عموماً یہ بھی کہتے ہیں کہ معیشت آئی ایم ایف کی شرائط پر چل رہی ہے۔ اس لیے بار بار ٹیکس لگتے رہتے ہیں ۔ مگر اگلی بات بھی سوچنی چاہیے کہ یہ ٹیکس لگ کس پہ رہے ہیں؟ ۔اوپری طبقے پر تو بالکل نہیں لگ رہے۔ یہ ٹیکس غریب اور درمیانے طبقے کے بے چارگان پر ہی لگ رہے ہیں۔ اور ہم اتنے سادہ ہیں کہ اتنے بڑے طبقاتی مسئلے کو ایک عمومی سالفظ سمجھ کر آگے گزرتے ہیں۔
ٍ ایک اور بڑی بات ہم آپ صبح شام کرتے ہیں: جمہوریت کو خطرہ ہے ۔ یہ بھی سب کے لیے نہیں ہوتا۔ بھلا جمہوریت جاگیردار کے لیے ہوتی ہے؟ ، صنعت کار کو جمہوریت کی ضرورت ہے؟ عرب پتی جیو، دنیا، سما اور ڈان چینلوں کو جمہوریت کی ضرورت ہے ؟ ۔ جس فوجی حکمران کا مارشل لا آتا رہا ہے یہ سب جاگیردار اور سرمایہ دار لپک کر اُس کی کابینہ میں گھستے رہے ہیں۔بھئی جمہوریت تو عام گلی کے آدمی کو چاہیے۔ جمہوریت ہمارے آپ کے لیے کار آمد طرزِ حکومت ہوتی ہے ۔جمہوریت بد ترین شکل میں بھی قانون قائدے کا نام ہے، محدود ہی سہی مگر ہے چیک اینڈ بیلنس کا نظام۔جمہوریت جمہوری ادارے اور جمہوری حقوق نہ ہوں تو سردار، پیر، تھانے دار،اور ڈاکو کی اندھا دھند زور زیادتی بلا رکاوٹ ہمیں روندتی چلی جائے۔جمہوریت اِس یا اُس حکمران کے اقتدار میں آنے کا نام نہیں۔ جمہوریت تو وہ نظام ہے جس میں انتظامیہ رائے عامہ کے سامنے جھکنے پر مجبور ہو۔ اور جہاں عوام کے احساسات کو بنیادی حیثیت حاصل ہو۔جہاں لکھے ہوئے قوانین ہوں اور اُن قوانین ہی پر معاشرہ چلے۔
اس طرح کی بے شمار مثالیں ہیں جہاں ٹرمنالوجی صورت حال کی سختی سنگینی کواُس کی گہرائی میں محسوس ہونے نہیں دیتی ۔ زندگی کی سخت مصروفیات اجازت دیں تو دوسرے انسانوں کو تفصیل سے اصطلاحات کے مطلب سمجھاتے جائیے۔

ماہنامہ سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*