سنگت شونگال

 

ناپاک جنگ، ناپاک انجام

اینگلز نے تقریباً دو سو سال قبل یعنی (1850) میں اپنی کتاب ”جرمنی میں کسانوں کی جنگ“ میں لکھا خط ”بدترین چیز جو ایک ۔۔۔پارٹی کے لیڈر پہ نازل ہوسکتی ہے ۔ وہ یہ ہے کہ اُسے ایک ایسے زمانے میں ایک حکومت سنبھالنے پر مجبور ہونا پڑے جب تحریک اب تک اُس طبقے کی حکمرانی کے لیے پختہ نہ ہو جس کی وہ لیڈر نمائندگی کرتا ہے ۔۔۔ لہذا وہ لازماً خود کو ایک ناقابل ِ حل معمہ میں پاتا ہے ۔ جو کچھ وہ کرسکتا ہے وہ اُس کے سارے سابقہ اقدامات ، اُس کی پارٹی کے اصولوں اور فوری مفادات کے الٹ ہوتے ہیں۔ اور جو کچھ اُسے کرنا چاہیے وہ کیے نہیں جاسکتے۔ جس کسی کو بھی اِس بد سلیقہ صورت حال میں ڈالا جائے وہ حتماً برباد ہوجائے گا “
افغانستان گذشتہ پچاس سال سے اِسی حالت میں ہے ۔ لیڈر برباد۔عوام برباد اور وطن برباد۔
صرف 1978میں افغانستان میں ایک ایسا جمہوری انقلاب آیا تھا جو ایک منظم انقلابی پارٹی کے ہاتھ میں تھا۔ اس پارٹی کا اثر مسلح افواج ، یونیورسٹیوں کا لجوں اور دیہی کسانوں میں تھا۔ اور اُس پارٹی نے بہت ہی پاپولر فیصلے کیے ۔ اُس نے پہلی بار فیوڈلزم کا خاتمہ کردیا اور ایک ماڈرن ڈیموکریٹک سٹیٹ کی تعمیر شروع کردی ۔عورتوں کو حقوق دیے ، قومیتوں کو زبردست ترقی دی۔ تعلیم ، صحت ،اور رہائشی سہولتیں دیں۔ زرعی اصلاحات کیں اور آباد ہونے پہ رضا مند خانہ بدوشوں کی مدد کی۔ یوں اُس کی جڑیں وسیع اور مضبوط ہوتی گئیں۔
مگر کولڈوار کی بدبختی چھائی ہوئی تھی ۔ محض سوویت یونین اور کمزور سے 22سوشلسٹ ممالک ایک طرف تھے اور بقیہ پوری جہاں  ایک طرف تھا ۔اور یہ سارا جہاں  کپٹلزم کا جہاں تھا۔ ضیا اِس کپٹلزم کا ایک کارندہ تھا۔ سعودی بھی اور چین بھی ۔ لہذا ایک بہت بڑی تباہی اور ایک طویل بدقسمتی افغانستان کے حصے میں آئی ۔پندرہ سال تک پوری دنیا ایک طرف تھی اور عوامی انقلابی افغانستان دوسری طرف۔ ۔۔ اور بالآخر اُس مضبوط اور پاپولر حکومت کا گلا گھونٹ دیا گیا ۔ یعنی افغانستان کے امید بھرے مستقبل کو امریکی سامراج نے قتل کردیا۔
اُس کے بعد اُس آباد اور آزاد افغانستان کو مزید برباد کرنے میں کپٹلزم نے تیس برس لگائے ۔ یہ تیس برس صرف قدامت پسند افغان حکمرانی کے ہی نہ تھے بلکہ اُن قدامت پسند حکمرانوں کے مقابل ایک اور رجعتی تحریک پہ بھی پیسہ لگایا گیا۔ اور دنیا بھر نے پیسہ یہاں پھینکا۔ کیا چین، کیا سعودی ، کیا بھارت و پاکستان اور کیا روس و مغربی دنیا۔ یوں افغان عوام تھیو کریٹک ، ڈکٹیٹر انہ طالبان کے جوتوں تلے کچل دیے گئے ۔ ہزاروں بچے یتیم ہوگئے ، پورا سماج غاروں کے عہد والے ٹرائبلزم کی طرف اباﺅٹ ٹرن ہوگیا۔ سکول بند، عورتیں گھروں میں قید، سیاست صحافت ٹھپ ۔ دشمنی ،انتقام اور وحشت کا پرچم سر بلند رہا۔
صرف افغان سماج ہی کو ٹرائبلائز نہیں کیا گیا بلکہ اُس کے ساتھ ساتھ پڑوس میں ہم تک بھی اس کی برآمد ہوتی رہی ۔ٹرائبلائزیشن کے اس درآمد برآمد کی کلیرنگ اینڈ فارور ڈنگ ایجنسی افغانستان میں تھی ہی نہیں، یہیں کہیں ہمارے خطے میں واقع تھی۔
نائن الیون ہوا، تو خود مغربی دنیا اپنی پیدا کردہ ضیائی مارشل لا اور طالبانی ٹرائبلائزیشن کے منحوس اتحاد کے پنجوں اور جبڑوں کا شکار ہوگئی۔امریکہ فوجیں افغانستان لایا۔ پاکستان ، سعودی اور چین اب بھی امریکہ کے ساتھ تھے ۔ مگر ساتھ میں طالبان کی قیادت میں مزاحمت کو بھی زندہ رکھا گیا۔ مگر اب بربادی کا مرکز محض افغانستان نہ رہا، یہ شعلے اب پاکستان کو بھسم کرنے لگے ۔ دھماکے ، لاشیں اور بربادی کے مسلسل بیس برس۔ وہاں تخت پہ کرزئی اور اشرف جیسے لوگ مسلط کیے گئے اور یہاں بے نظیر، نواز ، آصف اور عمران بٹھا دیے گئے ۔ اصلی حکمران تو اِن چہروں کے پیچھے دوسرے لوگ اور ادارے تھے ۔ چنانچہ نہ افغانستان میں سکون ہوا ، اور نہ پاکستان میں امن آیا۔ دونوں سماج بد صورت ترین تقسیم کا شکار ہوئے ۔ میڈیا ، دانشور اور ملّاہلا شیری کرتے رہے ۔ نادیدہ قوتیں ،پیسہ ، اسلحہ اور تربیت مہیا کرتے رہے۔
سماجی تبدیلیاں پوسٹ آفس کے ذریعے نہیں آتیں کہ آپ نے اِدھر تبدیلی لیٹربکس میں ڈال دی اور دوسری جگہ پہ تبدیلی آگئی۔ نہ ہی فیس بک انقلاب لاسکتا ہے ۔ اس کے لیے تو زمین اور زمینی حقائق کا ناپ تول کرتے رہنا، اور پھر اس کی مطابقت میں اقدام کرنا لازم ہوتے ہیں۔ امریکی سعودی چینی اور ہماری قوت آزمائی سے جب بات نہ بنی اور لوگوں کو ہوش آنا شروع ہوا تو اگلا ”چہرہ بدلی “ کا کرتب دکھایا گیا۔ دوحہ مذاکرات ہی میں سب کچھ کا فیصلہ ہوچکا تھا۔ باقی تو بس عملدرآمد کے طریقِ کار تھے ۔ چنانچہ 15اگست 2021 کو اعلانیہ معاہدے کے تحت امریکہ نکلا اور غیر اعلانیہ معاہدے کے تحت اشرف اِدھر اُدھر کیا گیا اور غیر اعلانیہ معاہدے ہی کے تحت طالبان حکمران بنے ۔ ہمہ داغ داغ افغانستان مگر کسی بھی پارٹی، اتحادوغیرہ سے کنٹرول نہ کیا جاسکا ۔امریکہ اشرف غنی کے ساتھ تشریف لے جاچکا ہے۔ اور 21ویں صدی کا کابل ”تبدیل شدہ طالبان “ کی فرسودہ قبائلی اور بنیاد پرست ذہنیت کے حوالے ہوچکا۔
امریکہ بڑا استاد ہے ۔ اس نے بہت فن کاری کے ساتھ بہت کم وقت اور جانی نقصان میں افغانستان میں انتقال اِقتدار کرالیا۔ اپنی بیساکھیوں پہ کھڑی حکومت سے بیساکھیاں ہٹالیں اور یہی بیساکھیاں اپنے دوسرے اتحادی طالبان کو سونپ دیں۔”ہینڈڈ اوور، ٹیکن اوور!“ ۔ کیا خوبصورت ارینج منٹ ہے !۔
یہ جو ہمارے رجعتی اور نعرے باز میڈیا میں ”امریکی شکست ، پسائی اور بے عزتی “کی باتیں چل رہی ہیں یہ فیوڈل ماٹنڈ سیٹ کی باتیں ہیں۔ کپٹلزم میں ایسے چونچلے نہیں ہوتے ۔ امریکہ نے اپنی فوجیں ہٹالیں اور بے شمار جانیں اور ڈالر بچالیے ۔ داخلی طور پر بہت زیادہ منقسم امریکہ اچھا خاصا ایک ہوجائے گا۔ اپنی فوج نکال کر اور اخراجات بچا کر امریکہ کمزور نہیں مضبوط ہوگیاہے ۔
طالبان کو کرسی دلانے والوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ انہیں اندازہ ہی نہیں کہ افغانستان میں تین چوتھائی آبادی نوجوانوں پہ مشتمل ہے ۔ یہ تین چوتھائی آبادی تباہیوں تباہ کاریوں کے باعث اور اِن کے باوجود ،کچھ کچھ "مشرف بہ انٹرنیٹ” ہوئی۔ امریکہ برطانیہ اور دیگر نیٹو ممالک کی افواج اور سویلین لاکھوں افراد افغانستان میں بیس برس تک موجود ہیں ۔ غیر ملکیوں کی اتنی بڑی تعداد کے لیے افغان نوجوانوں میں سے بے شمار مترجم پیدا ہوئے،  ٹھیکیدار ابھر آئے ، ٹریول ایجنسیاں کھلیں، پراپرٹی کے کاروبار کوفروغ ہوا ۔ بے شمار ٹی وی چینل اور کئی اخبارات وجود میں آئے ۔ تعلیم کے بے شمار پرائیویٹ ادارے کھلے ۔ یوں لاکھوں کی تعداد میں مڈل کلاس ابھر آئی ۔ مغربی دنیا سے بیس برس کی قربت میں اس مڈل کلاس کا طرز ِ زندگی بدلا ،اور خواہشات و ارمان بدلے ۔ ان لاکھوں نوجوانوں نے اِس نئی دنیا میں داخل ہو کر اس سے بہت کچھ سیکھ لیا۔ انٹرنیٹ کی گود میں پلا بڑھا نوجوان قرونِ وسطی کی لاٹھی گولی پالیسی سے کہاں بہل پائے گا۔
مگر ہم پاکستان میں اپنے قدامت پرست حکمرانوں کے زیر ِ اثر ابھی تک ضیاءالحق کے دور میں جی رہے ہیں۔ اسی لیے یہاں طالبان کی فتح کو جشن کے بطور منایا گیا۔ عمران اور اس کا وزیر خارجہ اور لال مسجد کے ملّا کی بانچھیں بالکل یکساں طور پر کھلی ہوئی تھیں ،اور موقف بالکل ایک ہی تھا۔ اپنا ہوش ہی نہیں کہ آئی ایم ایف کا قرضہ کتنا ہے ، پٹرول کی قیمت کیا ہے ، قومیتیں جیل خانہ کی تاریک ترین سطح پر ہیں اور عالمی پابندیاں کتنی بڑی اور گہری ہیں۔
پنجاب بھر میں یہ جو طالبان آمد پر بدمست ہو کر جشن بھرا رقص جاری ہے ، اسے انجام کا اندازہ ہی نہیں۔ بڑھکوں بھرے نعرہ ہائے تحسین مار نے سے طالبان کو تو کچھ فائدہ نہ ملے گا، مگر اپنے مستقبل کا گلہ ضرور بیٹھ جائے گا۔ طالبان پاکستان کے حکمران علاقے سے اتنی ہی نفرت کرتے ہیں جتنی کہ وہ پہلے کرتے تھے۔
شاہ محمود کو یہ بھی معلوم نہیں کہ افغانستان کے عوام کی جدوجہد اب ٹرائبلائزیشن کے خلاف ہوگی اور وہ اب کسی اور کے ”بھائی بھائی“ کے گیت گائیں گے۔
طالبان کی دوبارہ ”آمد “، یا ،” آورد “ دنیا کی نظر میں بہت بڑی تبدیلی تھی ۔ مگر اہلِ نظر کو معلوم ہے کہ یہ کوئی بنیادی تبدیلی نہیں ہے۔ طبقاتی نظام کے خدمت گزار اشرف غنی کی حکومت ہٹالی گئی اور طبقاتی نظام ہی کے خادم طالبان کی حکومت قائم کی گئی ۔ فرق صرف یہ ہے کہ طالبان پارلیمنٹ ، کلچر، فری پریس اور دیگر بورژوا آزادیاں تک دینے کو بھی تیار نہیں۔
طالبان کی حکومت انتہائی قدامت پسند حکومت ہوگی۔عمران خان کی طرح انہیں بھی مغربی لباس سے نفرت ہے ۔وہ  ننگے سر ہونے کو زن طلاق جتنا جرم سمجھتے ہیں۔ عورتوں کے حقوق کو وہ بدترین فحاشی قرار دیتے ہیں۔ ”مضبوط “ مرکز کو اپنی پالیسی قرار دیتے ہیں۔ دنیاوی تعلیم وترقی کو اپنی عاقبت کی بربادی سمجھتے ہیں۔
یوں ایشیا میں موجود بے شمار بنیاد پرست حکومتوں میں ایک اور کا اضافہ ہوگیا۔ ایشیا تو بہت بڑا ہے، ہمارے اپنے خطے میں بھارت ، پاکستان اور ایران کے بعد اب افغانستان بھی اِس صف میں آن شامل ہوا۔ بنیاد پرستی میں مگر افغانستان پاکستان کے سامنے کچھ بھی نہیں ہے ۔ہمارا حکمران اشرافیہ خود کو نظریاتی طور پر طالبان کا استاد سمجھتا ہے۔
دنیا بھر کی طرح ایشیا کے اندر بنیاد پرستی کی ہر سڑک عورت دشمنی کو جاتی ہے ۔ عورت کو جائیداد میں حصہ نہ دینا ، اُس کی خرید و فروخت کا ماحول بنا کر اُس کو قتل کردینا اور اُسے ہر طرح کی رائے دینے نہ دینا یہاں کی بنیاد پرستی کی بنیادی اینٹ ہے ۔
یوں ایک نیم مارشل لائی ظلمت زدہ پاکستان کے شمال میں اِس کی فوٹو کاپی کی حکمرانی کی شروعات ہو چکی ہے ۔ ہمارے ملک کی مشرقی سرحد پہلے ہی ہندوستان کی بنیاد پرست حکومت کے گھیرے میں ہے ۔ ہماری شمال مغربی سرحدایرانی ملّا کے نیچے ہے ۔اور اب یہ  ذہنیت مغربی سرحد پہ بھی موجود ہے۔ یوں ہماری بنیاد پرستی کی توسیع کے سامنے اشرف غنی کی نام نہاد روشن خیالی والی رکاوٹ دور ہوگئی اور یہ بنیاد پرستی اب پورے خطے کی بنیاد پرستی بن چکی ہے ۔ شہری آزادیاں اس پورے منطقے میں دفن ہوچکی ہیں۔ سائنس اور سائنسی فکر کا گلا گھونٹنے کی کاروائیاں جاری ہیں اور رجعت و قدامت پرستی کی کرنسی چل پڑی ہے ۔ اس خطے کا انسان مشکلات میں گھرا ہوا ہے۔ بالخصوص یہاں کے جینوئن سیاسی کارکن کا کام مزید سخت پابندیوں کی زد میں ہے ۔
مگر یہ وہاں کا داخلی معروض ہے ۔افغانستان سے باہر خارجی دنیا کے تقاضوں کو کوئی نہیں دیکھ رہا۔ امریکہ کی ضرورتیں خطے میں کون پوری کرے گا؟ ۔کچھ گُڈ، اور کچھ بیڈ طالبان کے ساتھ ساتھ داعش بھی ہمارے اعمال نامے میں موجود ہے ۔دنیا طالبانی افغانستانی حکمران طبقے اور اُس کی پشت پناہی کرنے کے الزام میں پاکستان کو AfPakہی کی نظروں سے دیکھتی ہے ۔ دنیا اِس سارے ہیر پھیر سے حاصل شدہ ڈالروں کا کہیں نہ کہیں حساب رکھ رہی ہے ۔ نتیجے میں ہمارے ہاں مضبوط ہوتی ہوئی آمریت بھی ریڈاروں کی زد میں ہے ۔
روس کو شکست دینے کی بڑھکیں توہضم ہوگئی تھیں ، مگر نیٹو کو شکست دینے کی بانگ بے حساب نہیں جائے گی۔ اِن سب ممالک کی پراکسیاں یہیں کہیں ریزرو میں موجود ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کی تجربہ گاہوں میں جتنے بھی خرمستی کے تجربے کیے گئے اُن سب کا خمیازہ مزدوروں کسانوں اور عوام الناس کو اٹھانا پڑے گا۔ حکمران تو پاپا جونز منانے کب کے نکل چکے ہوں گے ۔
ایک ناپاک جنگ کا کوئی پاک اختتام نہیں ہوتا۔امریکہ کی یہ پچاس سالہ جنگ روزِ اول سے ایک ناپاک جنگ تھی۔ ایک اچھی بھلی جمہوری ، روشن فکر اور وطن دوست انقلابی حکومت کو گندی راہوں سے ہٹا کر طالبان لانے کی گندی جنگ تک کا سارا عمل ناپاک تھا۔ پھر طالبان ہٹا کر ایک دوسری کٹھ پتلی حکومت بٹھانے کی گندی حرکت بیس برس تک انسانی خون پہ زندہ امریکہ اب شاید سب سے بڑی گند میں ڈوب رہا ہے ۔ ۔۔۔ اور وہ بھی افغان عام محنت کش انسانوں کی زندگی ، آبادی اور آزادی کی قیمت پر۔
افغانستان کشت و خون کی ندیوں میں سے گزر کر پچھل پیری میں واپس قرونِ وسطی پہنچ گیا۔ امریکہ کا زخمی ہو کر ڈگمگا جانا کم خطرناک نہیں ہے۔ افغانستان کی موجودہ معاشی اور سماجی سطح کنوئیں کا پیندہ ہے ۔ چنانچہ وہ ابھرے گا تو ۔مگر انچ کے دسویں حصے سالانہ کی رفتار سے ؟، یا پھر کسی چھلانگ پھلانگ کی توقع ہے ؟ ۔ اور اگر حسبِ سابق انارکی چند سال یا چند دھائیاں مزید رہنے کا فیصلہ کرے تو ؟۔ تاریخ میں افغانستان ایک دردناک ترین داستان درداستان کی موٹی کتاب ہے ۔برباد ہونے والے کو اپنی بربادی کا اندازہ ہی نہیں ہورہا۔ نہ رفتار کا ، نہ جدلیات کا اور نہ اسباب کا ۔
دنیا نے اسے ملک ہی نہیں سمجھا۔ بس اُسے اپنی اپنی شکار گاہ بنائے رکھا۔ اب بھی مغرب اپنی ڈرامہ بازی سے باز نہیں آرہا ۔ وہ فاشزم کے در آنے سے وہاں کے مزدور کسان اور چرواہوں کی عظیم اکثریت کی بربادی کا ذکر ہی نہیں کرتا ۔ مغربی بورژوازی اور اس کے دانشوروں کے ہاں بس یہی اہم ہے کہ موسیقی کو خطرہ نہ ہو اور عورتوں کی آزادی کو کوئی خطرہ نہ ہو۔
اب ہمارا خطہ ایک بار پھر بحران کا ہیڈ کوارٹر بن گیا ہے۔ اندر باہر ہر طرف سے غراہٹیں ہیں۔ سماج سماج نہ رہا، ہوا میں معلق انبوہ بن گیا۔ فرد فرد نہ رہا، انسانیت کی لکیر کے نیچے لڑھکا دیا گیا۔ ایک طویل سیاہ بختی کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔
ہم ایک پوری صدی کی طرح ایک بار پھر ”شروع سے شروع کرنے “پہ مجبور کر دیے گئے ہیں۔ “ شروع سے شروع کرنے “ یہ کا زمانہ کتنی دیر تک چلے گا ، ہم دیکھیں گے۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*