احمد خان کھرل

 

مراد کے اس گوریلا حملے اور اُس کے نتیجے میں استعمار کے بدصورت نشان برکلے کی موت کے متعلق وہاں بہت خوبصورت لوک گیت موجود ہیں۔ ایسی مزیدار فوک شاعری جو شہر کے مڈل کلاس، بورژوا دانشور، اور یونیورسٹیوں کے دانشوروں کی بد ذائقگی کے سبب انہیں نصیب نہیں۔ حتی کہ صنعتی مزدور بھی اُن اشعار کو نہیں گنگناتے۔ بس کبھی کبھی کوئی ریسر چراِن لوک گیتوں کو اکٹھا کرتا ہے۔ وہ بھی بڑی مشکل سے۔

میرا دل کرتا ہے کہ لاہور کے سارے فلم سٹوڈیو جلائے جائیں، ریڈیوٹی وی کے عوام دشمن سارے اہلکاروں کو جیل ڈال دیا جائے اور سارے فوک سنگروں کو کالا پانی بھیج دیا جائے۔ ارے نیک بختو!۔تمہارے کلچر میں احمد خان کھرل اور اس کے ساتھیوں کو شامل نہ کرنے سے ہی تو ضیاء الحق اور مشرف کی بدروحیت مسلط ہے۔۔ نہ صرف تم پر بلکہ تمہارے اِن جرائم کی وجہ سے ہم سب پر۔

مراد فتیانہ اور سو جا بھدرو کے ہاتھوں برکلے کی موت 22ستمبر کو ہوئی۔ مگربدقسمتی کہ سامراجی فوج مراد اور اس کے ساتھیوں کوگرفتار کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔ اُن کو ”کالا پانی“ کی سزا دی جاتی ہے۔کالا پانی ہوجانے والے بارہ آزادی پسندوں کی اِس مقدس جھرمٹ کے دمکتے ستاروں کے نام یہ ہیں: ولی داد، موکھا، ماچھی بشیرا، لال گاجی، رحمت گاجی، رحمت خان، محمد یار، قادر، نادر شاہ، بہاول، مراد، اور رجب۔

برکلے اپنے لالچ،حرص، لومڑی گیری،ابلیسیت اور سامراجیت کی بھینٹ چڑھ گیا۔جبکہ احمد خان وطن کی مٹی کو آنکھوں کا سرمہ بنا کر نذر ِ وطن ہوچکا تھا۔ افضل و متبرک و معتبر ومنور مرگ کس کی ہوئی؟۔ احمد خان جھامرہ گاؤں میں بے نام و نشان ہے اور دشمن برکلے کی یاد گار جو آج بھی موجود ہے۔عبرت کے یہ دونشان ایک دوسرے سے صرف بارہ کلومیٹر دو ر موجود ہیں۔بلوچستان میں استبداد کا بادشاہ سر شمس شاہ کوئٹہ کے ریلوے سوسائٹی کے قبرستان میں پڑا ہوا ہے جب کہ اس کے خلاف جدوجہد کرنے والا یوسف مگسی کاسی قبرستان میں، دونوں محض چار کلو میٹر کے فاصلے پر ہیں۔ حق اور باطل بارہ کلومیٹر ہی کے فاصلے پر موجود ہوتے ہیں۔ظلم و انصاف محض چار کلومیٹر کے فاصلے پر ہوتے ہیں۔ اب یہ نصیب کی بات ہے کہ کوئی یہاں آجائے اور کوئی وہاں جانکلے۔

بھلا اچھائی کی کوئی بات ہو اور بلوچ وہاں نہ ہو؟ ناممکن!۔ آزادی کی اس جنگ میں میرے اجداد کی اولاد بھی شامل تھی: ولی داد نام تھا اُس پاک بھائی کا۔ کاش میں اُس شہیدِ وطن کے بارے میں مزید معلومات دے سکتا۔ ایسا بلوچ جو وطن کی مٹی کے طلب کرنے پر سر اور ایمان سر بلند رکھے دشمن کے جدید ہتھیار کے سامنے گردن پیش کررہا تھا۔(8)۔

احمد خان کے آزادی پسندساتھیوں میں ایک محترم نام سارنگ ہے۔

حتمی نتیجہ یہ نکلا کہ انگریز سامراج کو فتح ہوگئی اور آزادی پسند ہار گئے۔ مگر شکست کے باوجود 1857کی بغاوت 19ویں صدی کی تاریخ کا ایک اہم واقعہ بن گئی۔ اول تو اس نے برطانوی اقتدار پر ایک حقیقی ضرب لگائی، اُس کی طاقت کے غرور کو ایک بڑی ٹھوکر لگی۔ اور اینگلز نے اِسے”انگریزوں کو دوبارہ ہندوستان فتح کرنا پڑا“ بتایا۔(9) لینن نے کہا کہ 1857کی بغاوت نے انگریزوں کو ہندوستان میں ”بہت زیادہ محتاط بنادیا“ (10)۔

پھر دوسری بات یہ ہے کہ 1857کی بغاوت سے نہ صرف انگریزی راج پر ضرب لگ گئی بلکہ اس نے ان جاگیرداروں کو بھی ننگا کردیاجن کا اُس وقت یہاں راج تھا۔ (11)۔

اگر پنجاب میں کوئی ایماندار عوامی دانشور ہوتا تو اس وقت تک وہاں کے پیر اور سجادہ نشین عوام کے سامنے بے نقاب ہوچکے ہوتے۔ اوراگر کسان تحریک موجود ہوتی تو خطے کا ہیرو محمود غزنوی اور ضیاء الحق نہ ہوتے۔

ٍ اس بغاوت نے انگریزوں کو محصول اراضی کم کرنے پر مجبور کیا جو حقیقت میں قرونِ وسطیٰ کی جاگیردارانہ خصوصیات کا حامل تھا۔ نو آبادیاتی حکمران اس بات پر بھی مجبور ہوئے کہ ان علاقوں میں کسانوں پر جاگیرداروں کے مظالم کو بھی ایک حد تک کم کردیں جو بغاوت کی لپیٹ میں آگئے تھے۔ چنانچہ 1859میں پٹے داری کے قانون کی ابتدا کی گئی۔ نو آبادیاتی جاگیردارانہ استحصال پر اس طرح کی پابندی نے در حقیقت کسانوں کے سر سے محصول وصول کرنے والے افسروں، زمینداروں اور سود خوروں کا بوجھ کسی طرح نہیں اتارا۔ پھر بھی ان جزوی پابندیوں نے جو زیادہ تر 1857کی بغاوت کا نتیجہ تھیں، ہندوستانی دیہاتوں میں قرونِ وسطی کے تعلقات کو توڑ دیا اور ان کو ختم کرنے کا باعث بنیں۔

اس کا مطلب تھا کہ ”عوام کا خوابِ گراں“ کچھ کچھ ڈسٹرب ہوگیا۔ ان کی صدیوں پر انی ذلت وخواری کو ایک زبردست جھٹکا لگ گیا۔ عوام میں قرونِ وسطی کے خیالات کا راج ناگزیر طور پر لڑ کھڑاگیا۔ اسی لیے ان کے ”بے زور“ احتجاج نے جیسا کہ اینگلز نے لکھا، بغاوت کی ناکامی کے بعد طاقت پکڑنا شروع کیا۔(12)۔

کئی دہائیوں بعد جب دوسری نسل جوان ہوئی تو احمد خان کا ملک آزاد ہوکر ”بٹ“بھی چکا تھا۔ پوتے کو دادے احمد خان کی قبر پکی کروانے کی سوجھی۔ قبر کے ارد گرد بنیادیں کھودی جا رہی تھیں کہ ایک کدال گھڑے کو لگی۔ مزدوروں نے گھڑا توڑ ا تو اندر سر تھا۔ ایک سو دس سال پرانی وجاہت میں ذرا فرق نہیں پڑا تھا۔ داڑھی کے بال ویسے ہی باریک تھے اور آنکھیں ویسی ہی سالم تھیں۔ رائے احمد خان کے پوتے نواب احمد علی خان نے جنازہ پڑھایا۔ سر تو جسم کے ساتھ دفن ہو گیا مگر کہانی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے عوامی لب و لہجے میں محفوظ ہو گئی۔ کارل مارکس بھی ”ساہیوال کے ان شہیدوں“ کا تذکرہ کرنے سے نہیں چوکتا۔

میں سچائیوں، سچائی کے گرد عوامی عقائد کے بنے ہوئے نورانی (مگر تصوراتی) ہالوں، روایتوں،قصوں میں سرشار تھا۔ تین سو برس پیچھے گشکوریاں کے جنگل میں جنگِ آزادی کا منظر نامہ میرے ذہن کو کھلبلیاں مچانے مکمل کنٹرول کرچکا تھا۔سچ کے گرد عوام کی طرف سے مافوق الفطرت خواہشات و تمناؤں کی جولاہا گیری مجھے بہت اپیل کرتی ہے۔ میں سچ کے ساتھ مائتھالوجی کے ضم ہونے کے پراسیس پر غور کر رہا تھا کہ اچانک حنا جمشید کی ٹیچرانہ کھنکتی آواز نے جیسے جگادیا ہو:۔ ”ڈاکٹر صاحب سامنے دیکھیں، ہم ہڑپہ کے آثارِ قدیمہ پہنچ چکے ہیں“۔

ماہنامہ سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*