سنگت حسن عسکری

(سانگڑھ میں جولائی2021 کو منعقدہ تعزیتی جلسے میں پڑھا گیا)

دکھ اور غم میں بھیگے اِس تلخ اجلاس میں موجود میرے دوستو، خواتین و حضرات، آپ سلامت رہیں۔

ہماری اشرف المخلوقاتی صف میں سے ایک شخص اپنی طبعی عمر پوری کر کے واپس زمین کی آغوش میں چلا گیا۔ موت اور زندگی کی سمجھ میں نہ آنے والی آنکھ مچولی کا بھیانک کھیل ہزاروں سالوں سے جاری ہے۔ اور دلوں کی جڑوں کو اکھاڑنے والا یہ اندو ہناک کھیل شاید مزید چند ہزار سالوں تک جاری رہے گا۔ اس لیے کہ سائنس کی نعمتیں تو بلوچستان کی بارشوں کی طرح ہوتی ہیں۔ برسنے پہ آئیں تو حیات بخش رحمتیں موج در موج برسا جائیں۔ اور اگر منہ موڑ لیں تو دھرتی کو برسوں تک سکوت وجمود قحط و قہر کی عدت میں پٹخ دیں۔ بلاشبہ سائنس نے انسان کی زندگی کو سہولت وراحت کے بے شمار اوزاروں سے نواز دیا ہے۔ مگر اس کا بنیادی کام ابھی بہت ادھورا ہے۔ وہ انسانی زندگی کی طوالت میں محض بیس تیس سال کا ہی اضافہ کر پائی ہے۔

خواتین وحضرات۔ ہماری موجودہ نسل کی زندگیوں میں سائنس کو وہ فتح نصیب نہ ہوگی۔ مگر یہ یقینی بات ہے کہ وہ دن ضرور آئے گا جب سائنس زندگی کی حتمی جیت کا بریکنگ نیوز نشر کرے گی۔یقینی بات ہے کہ موت اپنی ابدی شکست کی دھاڑیں مارتی وقت کے بیکراں بلیک ہول میں جہنم رسید ہوجائے گی۔

زندگی حُسن ہے، ہستی ہے مستی ہے۔ زندگی گُل ہے گلاب ہے گلشن ہے۔ زندگی صبح صادق کا بجتا ستار ہے، یہ رقص ہے۔ سرود ہے، زندگی حرکت ہے برکت ہے  ارتقا ہے۔ زندگی آرام زندگی اضطراب۔ زندگی سرور زندگی غرور۔ زندگی رحمت ہے، دلیل ہے، منطق ہے، استدلال ہے۔زندگی نظارہ ہے منظر ہے۔یہ بے کراں کا ئنات کا بائبل ہے۔زندگی، کا سموس کا سوال بھی ہے جواب بھی، زندگی وصال زندگی جنون۔ یہ غزل الغزال ہے، اشرف الاشراف ہے۔

اور موت؟۔ موت تو نیستی ہے، عدم ہے، فنا ہے، Nothingnessہے۔ موت سوگ ہے روگ ہے  ہچکی ہے سِسکی ہے۔ موت آنسوؤں کا بحرالکاہل ہے۔ یہ سینہ کوبی ہے، ٹھنڈی گہری سانس ہے۔ موت بے پیر ہے، بے قرآن ہے، بے منطق ہے۔ بے بسی ہے۔

زندگی زندہ باد ہے

مرگ مردہ باد ہے۔

دوستو۔ زمین کے اوپر سے زمین کے نیچے تک جانے والا فاصلہ محض ڈیڑھ گز ہے۔ مگر اس سفر کے مسافر کی یہ مہاجرت حتمی، ابدی اور irreversibleہے۔ اس سفر کے کمانڈ کو اب تک undo کے بٹن کے حکم کی تعمیل کی سہولتیں میسر نہیں ہیں۔ یہ مسافر محض خود گم نہیں ہوتا، وہ تو پیچھے رہ جانے والوں کے وجود کا ایک حصہ بھی ساتھ لے جاتا ہے۔اُس کے ساتھ ہی آپ کی یادوں، اشکوں، قہقہوں کی ایک دنیا آپ سے الگ ہوجاتی ہے۔ آپ کی فتوحات اور شکستوں کے ایک گواہ کی موت اُن فتوحات اور پسپائیوں کی رنگ کی شوخی کو دھند لا دیتی ہے۔ صرف یہی نہیں خواتین وحضرات!، مرنے والا تو اپنانا مکمل ہوم ورک بھی آپ کے ذمے ڈال جاتا ہے۔ اُس کے نامکمل عزائم، ارمان اور اھداف آپ کی اپنی ذمہ داریوں کے بوجھ میں مزید اضافہ بن جاتے ہیں۔ یاروں، ہمکاروں، رفیقوں اور ہم سفروں کی موت منزل کی جانب آپ کے راستے کی طوالت اور کٹھنا ئیوں کو بڑھاتی ہے۔

دوستو۔ حسن عسکری کوئی میر کوئی پیر نہ تھا۔ وہ بالکل بھی وڈا، وڈیرہ نہ تھا۔ اُس کے پاس کوئی غلیل، بارود نہ تھے۔ اُسے ”امر اور نہی“ کے کوئی اختیارات حاصل نہ تھے۔ وہ ہمارا رشتہ دار نہ تھا، ہم زبان ہم قبیلہ نہ تھا۔ وہ تو ایک کمزور جسم، معذور بدن اور خالی جیب آدمی تھا۔ نہ شاعر، نہ محقق، نہ ادیب، نہ پی ایچ ڈی۔ وہ تو یہ سب کچھ نہ تھا۔ مگر پھر بھی ہم مختلف سمتوں، شہروں اور صوبوں سے اُس کی تعریف کرنے یہاں جمع ہوئے ہیں۔ کیا تھا وہ؟۔ سنگت حسن کیا تھا؟۔وہ زمردو جوہر و گوہر شخص محکوموں مجبوروں ضعیفوں اور کمزوروں کے ارتقا کی راہ میں اُگی جھاڑیوں کا نٹوں کو صاف کرنے والا رضا کار تھا۔جی ہاں کسی قطب سے آئے اِس کیچی کو بھنبھور والوں کے دل و دماغ کے  میل کچیل کے خلاف دھوبی بننے کا فریضہ عطا ہوا تھا۔ وہ اُن کے ذہنوں پہ جمے ہوئے میل شیمپو صابن کرتے کرتے بالآخر واپس اپنے کیچ مکران کی آغوش میں چلا گیا۔

حسن اس لیے افضل تھا کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی نیکی کرتا تھا: عوامی سیاست۔عوامی سیاست سے بڑی نیکی اور کیا ہوگی؟۔ اِس سے افضل کوئی پیشہ نہیں۔ اِس سے بڑی ریاضت وعبادت نہیں۔ عوامی سیاست سے بڑی کوئی کرامت نہیں ہوتی۔ عوامی سیاست نفس کشی کا اعلیٰ ترین درجہ ہوتی ہے۔ اس سے بڑی قربانی اور ایثار نہیں ہوتا۔ اور سنگت حَسن عوامی سیاست کرتا تھا۔ اسی لیے وہ محترم ہے، اسی لیے ہم سب یہاں جمع ہوئے ہیں۔ اسی سبب سے وہ پیر سے بڑا پیر، میر سے بڑا میر، اور امیر سے بڑا امیر تھا۔

دوستو۔ ہمارا یہ  رفیق زندگی بھر اِس عہد کے سب سے بڑے شیطان یعنی سامراج کو کنکر مارتا رہا۔ حَسن سیٹو سنٹو، آئی ایم ایف، سی پیک اور گوادر بُردی کے پیچھے چھپے چہرے کو دیکھنے کی بصیرت رکھتا تھا۔ ملک کے اندر اُس نے زندگانی کے نظام میں سب سے بڑی رکاوٹ کی تشخیص کردی تھی۔ اور اُس کا نام طبقاتی نظام رکھا تھا۔ وہ اس طبقاتی نظام کے بڑے دشمنوں میں سے ایک تھا۔ حَسن پاکستان میں قومی جبر کو شدت سے محسوس کرتا تھا۔ قوموں کی برابری، آزادی اور لامحدود خود مختاری کا پاک ڈھول بجاتا تھا۔ وہ قوموں کے وسائل کو ہتھیا لینے کا سنگین و سنجیدہ مخالف تھا۔ وہ قومی بانوں اور کلچروں کی ترقی پہ ایمان رکھتا تھا۔

وہ فیوڈلزم سے آلودہ ہمارے ملک میں قائم عورتوں کے جیل خانے کی اینٹ سے اینٹ بجانا چاہتا تھا۔ حسن صاحب عوام کے اندر سے فردسودگی، تعصبات، اور بے شعوری دور کرنے والا کار کن تھا۔

محترم حسن عسکری اس لیے بھی بلند مرتبت تھا کہ وہ زندگی بھر پاکستان میں آئین کی سربلندی کا علم بلند کیے رہا۔ وہ مارشل لاؤں، آمریتوں اور چور دروازوں سے آئی حکمرانی کا مستقل مخالف تھا۔

وہ اس لیے بھی محترم تھا کہ وہ انسانی اجتماع پہ ایمان رکھتا تھا۔ حسن اسمبلی، اور پارلیمنٹ کی بالادستی کی سیاست کرتا تھا۔ وہ فیوڈلزم سے نتھی پیروں اور پنڈتوں سے عوام کو نجات دلانے کی سیاست کرتا تھا۔

اور وہ اس لیے بھی محترم، معزز اور معتبر تھا کہ وہ اپنے فریضے کی ادائیگی میں بہت محنتی، مستقل مزاج اور باشعور تھا۔ وہ ظالم کے سامنے ”نہ“ کہہ سکنے کی بہادری رکھتا تھا۔اور ہم نے یکھاکہ باطل سے للکار بھرا انکار ایک عام، کمزور اور معذور شخص کو حَسن عسکری بنا ڈالتاہے۔ ظلم کے ہاتھ کو جھٹک دینے والا ناتواں شخص، پہلوان حسن بن جاتا ہے۔ بلاشبہ  پسے ہوئے لوگوں کو غاصب کے خلاف منظم کرنے والا بے بندوق سیاسی کارکن ہی حسن عسکری کہلائے گا خواہ اُس کا نام کبھی گل خان نصیر رہا ہو، کاکا جی صنوبر حسین رہا ہو، یا اُسے سوبھو گیان چندانی پکارا گیا ہو۔

تمنا ہے کہ جب ہماری میت کی مٹی حسن کی نائٹروجن شدہ بدن سے ملے تو ہمارا نامہِ اعمال بھی ہمارے دائیں ہاتھ میں ہو۔ کاش انسانی آزادی، آبادی اور سرخروئی کی راہ میں ہم سب کی کار گزاری کا رجسٹر بہت ضخیم، بہت موٹا ہو۔ خواہش ہے کہ جب ہم یہ دنیا چھوڑیں تو ضعیفوں کی تحریک کو زیادہ منظم، زیادہ وسیع اور زیادہ باشعور کر کے جائیں۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*