لوچستان کا دیہی زرعی نظام درہم برہم

پچھلے بیس پچیس برسوں میں بلوچستان میں آبادی کی دیہات سے شہروں کو منتقلی بہت تیز اور بے رحم رہی ہے۔
ہر علاقے کے انسان کی خاصیت رہی ہے کہ وہ اپنے علاقے کو آسانی کے ساتھ  ترک نہیں کرتا ۔ بالکل اسی طرح بلوچستان پہ بھی صدیوں سے چھوٹی بڑی بلائیں نازل ہوتی رہی ہیں۔ مگر بلوچوں نے اپنے گاﺅں ہی کو اپناوطن وکفن بنائے رکھا۔ مگر حیرت ہے کہ اِن حالیہ برسوں میں ہنستے بستے گھر بھوت بستیاں بنتے جارہے ہیں۔
آبادی کی اس منتقلی کی سب سے بڑی منزل تو کوئٹہ رہا ۔ مگر گوادر ، ڈیرہ غازی خان ، سبی ، خضدار ،الغرض ہر وہ قصبہ اور شہر اِس اربنائزیشن کا نشانہ بنا جہاں روٹی روزگار کا کوئی آسرا تھا ،یا جہاں امن کے پرندے کی نوا سنائی دیتی،اور یا،جہاں سوِک سہولتوں کا قطرہ بھی موجود تھا۔
چنانچہ آج آپ جس دیہات یا گاﺅں جائیں تو عملی طور پر اس کا نصف حصہ کھنڈرات کی صورت نظر آئے گا ۔ درودیوار فالج زدہ ملیں گے ، حشرات الارض اور  بربادی کی علامت دیگر جانور دندناتے ملیں گے۔ ہر گاﺅں کی آبادی عملی طور پر آدھی رہ گئی ۔

شہروں کی جانب یہ مائیگریشن محض غریب اور نادار طبقے کی نہیں ہورہی ۔ صرف وہ گھر بے مکین نہ ہوا جسے بھوک بے روزگاری نے ایسا کرنے پہ مجبور کیا۔ بلکہ اب تو یہ ہورہا ہے کہ مڈل کلاس بھی اچھی خاصی تعداد میں شہروں کو شفٹ ہوتی جارہی ہے ۔ اسے تو ہمہ وقت بہتر کی تلاش ہوتی ہے ۔

اسی طرح دیہات اور گاﺅں سے بالائی طبقہ بھی بڑے تناسب سے شہر بسنے لگا ہے۔

ایسا کیوں ہوا؟
ایک بہت بڑی وجہ تو یہ ہے کہ اجدا دکا پیشہ ،زراعت اب مفید اور منافع بخش پیشہ نہیں رہی ۔اس شعبے میں اخراجات بہت بڑھ گئے ہیں۔ٹریکٹر، کھاد، بیچ ،اور کرم کش ادویات کی قیمتیں آئے دن بڑھتی جاتی ہیں۔ اور اب تو ،یہ عام کاشتکار کی پہنچ سے باہر ہیں۔ دوسر ا غضب یہ ہوا کہ جس کھیت کو اِن اشیا کی معمولی مقدار چاہیے ہوتی تھی، وہاں اب ایک کھاد کے بجائے دو دو تین تین اقسام استعمال ہونے لگی ہیں۔ ایک کرم کُش دوا کے بجائے کئی کیڑوں کو مارنے کے لیے کئی دوائیاں سپرے کرنی پڑتی ہیں۔اور بار بار سپرے کرنا پڑتی ہیں۔
پورے ملک میں ہی بجلی کم ہے مگر ترجیحات کے ٹیل اینڈ پہ پڑے بلوچستان میں تو یہ بالکل ناپید ہے ۔ کس نے پوچھا ہے؟۔ کس نے پوچھنا ہے؟ ۔ چنانچہ لوگ بجلی کے بجائے ڈیزل انجنوں پہ چلے گئے تھے ۔ مگر وہاں پھر ڈیزل کی قیمتیں آسمان چھونے کا جھولا جھولنے لگیں۔چنانچہ کپٹلزم کی قیمتوں کے کھیل نے کاشتکار کی کمر توڑ کے رکھ دی۔ کھیتی باڑی اب عام آدمی کے بس سے باہر ہوگئی۔
اسی اثناءمیں چین کے سوشلزم نما کپٹلزم ، یا کپٹلزم نما سوشلزم نے سولر سسٹم عام اور قابلِ رسائی کردی ۔ کاشتکار نے دھڑا دھڑ سولر سسٹم لگانے شروع کرد یے۔ ایسی ایسی دشوار گزار اور غیر آباد جگہوں پہ بھی شمسی کاشتکاری ہونے لگی جہاں  گدھوں تک سے رسائی ممکن تھی۔ چنانچ نہ سڑک کی ضرورت تھی، نہ بجلی اور نہ بڑی مشینری کی حاجت تھی۔ایک زبردست ابھار آیا سولر سسٹم ایگریکلچر میں۔ دیکھتے ہی دیکھتے زیر زمین پانی کے سوتے سوکھنے لگے ۔ اور کھودو، اور کھودو۔ یوں زراعت تھکا کر مار دینے کا عمل بن گئی۔
ایک اور مسئلہ بھی آگیا۔ سولر پینل کا شیشہ ایک بڑی رکاوٹ بن کے سامنے آیا۔ تیز ہوا اور سیلابی بارشیں سولر پینل یعنی شیشہ کی نزاکت کو دیکھ کر شیر ہوجاتی ہیں۔ پینل کو الٹ پلٹ دیتی ہیں، شیشہ ٹوٹ جاتا ہے۔ اور کاشتکار کے لیے پانی کا ذریعہ یک دم رک جاتا ہے ۔ جب تک وہ چار پیسوں کا بندوبست کرے ، اور دور شہر جاکر نیا پینل خرید لائے اس وقت تک نازک کو نپلیں فوت ہوجاتی ہیں۔
رہی بارانی کاشتکاری ؟ ۔ تو وہ تو عرصہ ہوا کنبے کو دو وقت کے دو نوالے دینے کے قابل نہ رہی ۔ موسمی تبدیلیاں انتہا پسند ہوچکی ہیں۔ چنانچہ زرعی بارانی زمین قحط و سیلاب کی دو انتہاﺅں میں سسک رہی ہے۔ دو، دو چار ،چارسال تک بارش نہیں ہوتی اور پھرجب ہوتی ہے تو چنگیز خان کے خدامارے گھڑ سواروں کی تیزی سے ہوتی ہے ۔ خس و خاشاک اور کھیت منڈ یر سب تہس نہس ۔ ساری بارانی کاشتکاری پر تقریباً تقریباً تنسیخ کا کاٹا پھر جاتاہے ۔
دیہی زندگی ترک کرنے کی ایک اور وجہ زرعی اجناس کی قیمتوں کی ارزانی بھی ہے ۔ سولر انرجی کی کاشتکاری میں بلوچستان بھر میں کپاس کی کاشت شروع ہوئی تھی ۔ زبردست پیداوار ہونے لگی ۔ نئی نئی فصل تھی اس لیے دشمن کیڑے وغیرہ ناپید ۔ ہوا اور نمی کا تناسب اس قدر موزوں کہ موٹے موٹے پھول اور لمبے لمبے ریشے ۔ تازہ انڈے جیسی سفید کپاس ۔ اچھا خاصا پیسہ ہاتھ آنے لگا۔ کچھ کچھ خوشحالی آنے لگی ۔ مگر ، پھر مارکیٹ کو مرشد کی لعنت لگ گئی۔ کپاس کی قیمتیں بڑھتی ہی نہ تھیں۔ زرعی اجناس کی قیمتیں دس سال سے وہیں کی وہیں ہیں جبکہ صنعتی پیداوار کی تمام اشیا کی قیمتیں چار پانچ گنا زیادہ ہوچکی ہیں۔
آمدن و خرچ کا تناسب معکوس ہوتا چلا گیا۔ اور یوں بہت زیادہ محنت طلب کرنے والی زراعت کم آمدن دینے والا پیشہ بن گیا۔ ترک کرنا پڑا۔۔۔۔ اور یہ کتنی اذیت ناک بات ہے ۔ سات پُشتوں کی زراعت روٹی نہ دے سکے ۔ چنانچہ روزگار کے دوسرے ذرائع ڈھونڈنے پڑے ۔ یوں کچھ کے لیے شہر پناہ گاہ بنا۔
زراعت کی تباہی کے علاوہ بھی شہروں کو کوچ کرجانے کے کئی اسباب ہیں۔ ان میں ایک بہت بڑی وجہ امن و امان کا مسئلہ ہے ۔ دہائیوں سے حکومت کے ساتھ جاری چپقلش نے لوگوں کو displaceکر کے رکھ دیا۔ صوبے کے اندر بھی اور صوبے سے باہر بھی ۔ حتی کہ ملک سے باہر بھی ۔

سرکار کے علاوہ باہمی قبائلی جنگوں نے بھی آباد ہزاروں گھونسلے اجاڑ دیے ۔ اِن قبائلی باہمی جنگوں کو ٹھنڈا کرنے کے پیر فقیر ، سفید ریش خیر خواہ کب کا ختم ہوچکے ۔ ریاست موجود نہیں ۔ لہذاجنگیں جاری و ساری۔
صرف جنگوں کی اپنی وجہ سے ہی مائیگریشن نہیں ہوتی ہے ، بلکہ جنگوں کے نتیجے میں جو معاشی جمود آجاتا ہے اس سے بھی آبادیاں کلمے پڑھتی ہوئی دور جاتی ہیں۔ اور صرف متحارب فریق ہی نہیں بلکہ آس پاس اڑوس پڑوس کے بے جنگ لوگ بھی موت کی آماجگاہ سے مائیگریٹ کر جاتے ہیں۔
دیہات۔۔۔ اور وہ بھی بلوچستان کا دیہات۔۔ ۔ یہ دیہات اب دقیانوسی ،فرسودہ اور جامد و ساکت ڈھانچہ بن چکا ہے ۔ اِس میں نہ حرکت رہ گئی نہ برکت ۔ اس کے اندر بسنے والی آبادی اب نہ اِس میں مطمئن ہے ،نہ اس میں سما سکتی ہے اور نہ یہ فارم اس قابل ہے کہ اِس کا نٹنٹ کو اپنے اندر جوں کا توں رکھ سکے۔
دیہات اب وہ روایتی دیہات نہ رہے ۔دوچار الیکشنوں نے اس کی بے کرامتی کو بے نقاب کر دیا ہے۔سردار اور اس کا ادارہ کب کا کھو کھلا ہوچکا ۔ حتی کہ سرکاری پشت پناہی میں بھی وہ اب اپنے قبائل کو کنٹرول نہیں کرسکتا ۔ وہ تو لیویز کی باڈی گارڈی میں اِس افسر سے اُس افسر کے دفتر کے چکر کا ٹتا رہتا ہے اور یوں اِس گردشِ دفاتر میں اپنے کچن چلانے کے لیے دانہ پانی کرتا ہے ۔
دیہات میں سرکار موجود ہی نہیں ہے ۔ سرکار تو ہسپتال سکول عدالت ،سڑک اوربجلی کو کہتے ہیں۔ اور یہ سارے شعبے اور محکمے دیہات میں موجود ہی نہیں ہیں۔ریاست کے یہ دست و بازو بلوچستان کے گاﺅں دیہات میں وجود نہیں رکھتے ۔
سرکار ویسے بھی سماجی بہبود کے شعبوں سے عرصہ ہوا ہٹ چکی ہے ۔ وہ خیر کے لیے مخصوص سارے کام پرائیویٹ ہاتھوں میں دے چکی ہے ۔ تعلیم پرائیویٹ سکولوں سے خرید لو، صحت پرائیویٹ ہسپتالوں سے لے لو۔ اب تو اپنی جان و مال کی حفاظت بھی خود کرو۔ اس لیے کہ سرکار کی پولیس اور لیویز اپنے نظام کے ایجنٹوں کی سلامتی پہ جتی ہوئی ہے ۔

لہذا بہت سے لوگوں کے لیے دیہات اب رہنے کے قابل نہیں رہا۔ دیہات کا انسان ( نیچرل ارتقا کے طفیل )شعوری طور پر اب بلند ہوگیا ہے ۔ مگر اُس شعور کو سپیس مہیا کرنے والا سامان موجود نہیں۔اکیسویں صدی کی زندگی کے تقاضے اب پسماندہ بلوچستان کا پسماندہ گاﺅں پورا نہیں کرپا رہا ۔ ایک معمولی بیماری کے لیے بیل ، بکریاں بیچ بیچ کر دور شہر جانا پڑتا ہے ۔ بچے کی بے سکولی دیکھی نہیں جاتی ۔نہ پینے کے صاف پانی کی سکیمیں ہیں، نہ سیوریج کا نظام ہے ۔نہ بجلی ہے نہ گیس۔ نہ فون کنکشن ہے اور  نہ انٹرنیٹ۔
لہذا جس کے پیروں میں ذرا دم ہے وہ اس زندگی پہ تھوکتا ہوا، خون تھوکنے شہر چلا جاتا ہے ۔
چنانچہ بے شمار سٹڈیز بتاتے ہیں کہ بلوچستان اس وقت پاکستان کا تیز ترین مائیگریٹنگ اور اربنائزنگ صوبہ ہے۔ یہ تو معلوم بات ہی ہے کہ مائیگریشن اور اربنائزیشن نہ صرف جڑواں پراسیس ہیں بلکہ یہ جڑواں مسائل بھی ہیں۔
لہذا دیہات ، اس کا پوہڑپن اور اس کی نام نہاد خود کفالت گئی جہنم میں ۔متحرک اور بھوکے لوگوں نے اس پوری زندگی پہ لات ماردی ۔ اور ملازمتوں ، سہولتوں اور روزگار کی تلاش میں شہر بہ در ہوگئے۔
یہ الگ بات ہے کہ شہر خود ایک اندھا کنواں ہے۔ یہ تو اکھڑی جڑوں والوں کا بچا کھچا رس چوسنے کے لیے گھات لگائے ہوتا ہے ۔             ہمارے ہاں شہر ہی ایک دو ہیں۔ اور وہ پہلے ہی افغان مائیگرنٹس کے آنے سے ادارتی تباہی کے عروج پہ ہیں۔ وہاں انفرا سٹرکچر ڈھیر ہوچکا ہے۔
اس لیے شہروں میں بھی پکی پکائی روٹی موجود نہیں ہے۔ معمولی سے معمولی سرکاری نوکری کے لیے گردن توڑ مقابلہ بپا ہوتا ہے ۔ محنت اور اہلیت کا مقابلہ نہیں، رشوت اور سفارش کا مقابلہ۔20، 25لاکھ روپے رشوت کے ریٹ مقرر ہیں۔ چنانچہ نوواردوں کے لیے یہ دروازہ تو بند ہے ۔
باقی بہت سخت مگر کم آمدنی دینے والی روزگار کے ذرائع پہ بھی سخت مقابلہ جاری ہے ۔ پرائیویٹ چوکیداری کرلو، چینکی چائے کے ”باہر والے “ کا کام کر لو، یا کسی گیراج میں چھوٹو بننے والا محنت طلب کام لے لو۔
شہر کے رسم، رواج، بود، باش سب کچھ دیہات کا الٹ ہوتی ہے ۔ وہاں قبائلی بندھنیں تڑاخ سے ٹوٹ جاتی ہیں۔ رسم و رواج کی آہنی سختی ریاستی لاقانونیت والے اور غیر موجود قوانین کے سامنے سرنڈر ہوجاتی ہے ۔ دیہی ”کمیونٹی “والی نفسیات شہر کی ”نفسا نفسی “والی نفسیات کی ٹھوکر سے پاش پاش ہے۔
چنانچہ قبائلی دیہی زندگی والا خود اعتماد اور معتبر شخص شہر آکر لمپن بن جاتاہے۔ اس کی قبائلی شناخت اب اس کی کوئی سماجی معاشی مدد نہیں کرتی۔ وہ پسماندہ ترین دیہی معاشرے سے نکل شہر کے پسماندہ ترین کونے کا ہوجاتا ہے ۔ زندگی رفتار میں تیز، اور کوالٹی میں گاﺅں سے ہزار گنا اچھی ۔مگر عدم استحکام کی کالی سرنگ میں پٹخ جاتی ہے ۔ یہ نیا آدمی شہر کی آدھی سے زیادہ آبادی پہ مشتمل کچی آبادی میں آن شامل ہوجاتا ہے ۔ جہاں نہ پانی سپلائی ہے ، نہ سیوریج اور نکاسی کا نظام ہے ، نہ بجلی اور  گیس اور سڑکیں ہیں۔ شہر ٹریفک اور ہاﺅسنگ پرابلمز کا جنکشن ہے ۔
شہروں کی کچی آبادیوں کو تو نسلی اختلاط کا کارخانہ ہونا چاہیے تھا۔ عقیدے ، فرقے، زبان اورعلاقہ ثانوی بن جانے چاہیے تھے۔ دیہات سے عادات لائی گئی اطوار ،رسم رواج اور روایات پتلی ہوتی جانی چاہیے تھیں۔مگر یہاں ایسا کچھ  نہیں ہورہا۔ نسلی ٹکراﺅ ہے، بے آہنگی ہے ، اور تشدد ہے ۔
دیہی زندگی کا توازن بگڑنے سے میرو معتبر اور وڈیرہ وغیرہ کے پاﺅں بھی اقتدار سے اکھڑتے چلے جارہے ہیں۔ سیاسی پارٹیوں کو میروں ، معتبروں اور سرداروں کی اِس نئی زوال پذیر حیثیت کا ادراک ہوتا جارہا ہے۔ اس لیے وہ بھی اُن پہ سابقہ والا انحصارنہیں کرتیں۔
ایک پیپلز پارٹی رہ گئی جس نے سندھ میں وڈیرہ گیری اورپیری فقیری کو ابھی تک کامیابی کے ساتھ برقرار رکھا ہے۔ جس کے ذریعے وہ مفلس بزگروں،ہاریوں اور مزدوروں کے ووٹ ہتھیا کر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچتی ہے۔ اس نے بلوچستان کے اِن پیر اُکھڑی قوتوں کو اپنے اندر داخل کرنا شروع کر رکھا ہے ۔ ۔۔۔۔سراسر خسارہ کو کس خسارے کا ڈر !۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*