خود نوشت

 

نقلی بالوں کے گچھے سہمے ہوئے خرگوش کی طرح میرے ہاتھوں میں کانپ رہے تھے۔ میں ہیلن کے ساتھ اکیلی تھی، پولیس سے روپوش اور اُس شخص کی موت سے مغموم ۔۔۔جس کو میں چاہتی تھی۔ دو ہی دن پہلے مجھ کو عدالت کے کمرے میں ہونے والے بلوے اور اپنی دوست جوناتھن ؔ جیکسن کی ہلاکت کی خبر ملی تھی۔ اس ہنگامے میں دو قیدی اور مارے گئے تھے مگر اُس دن سے پہلے تک میں نے اُن کا نام بھی نہیں سنا تھا۔ البتہ اُس شام مجھے یوں محسوس ہوا گویا میں اُن کو برسوں سے جانتی تھی۔
میں غسل خانے میں گھس گئی اور بالوں کو جوپلاسٹک کے فیتے میں پروئے ہوئے تھے سر پر جمانے کی کوشش کرنے لگی۔ مگر میرے خیالات کہیں اور تھے اور میرے ہاتھ یوں کانپ رہے تھے جیسے کسی پرندے کے ٹوٹے ہوئے پنکھ ۔ میں نے آئینہ دیکھا تو میرے چہرے پر اتنا تناؤ اور اتنی بے یقینی ، اتنا تر دد تھا کہ میں اپنی شکل نہ پہچان سکی۔ میری آنکھیں سرخ اور سوجی ہوئی تھیں اور کالے نقلی بالوں کے حلقے میرے جھریوں پڑے ماتھے پر بکھرے ہوئے تھے ۔ لیکن بھیس بدلنا ضروری تھا اور وہ بھی اس ہوشیاری سے کہ کسی کوشبہ نہ ہونے پائے کہ یہ عورت لاس اینجلز کی عام عورت سے مختلف ہے ۔
میں نے ہیلنؔ سے کہا تھا کہ ہم کو اندھیرا ہوتے ہی روانہ ہونا چاہیے۔ لیکن دن تھا کہ رات کا دامن چھوڑنے کا نام ہی نہ لیتا تھا اور اُس کے پلوسے مسلسل چمٹا ہوا تھا ۔ ہم خاموشی سے اندھیرے کا انتظار کرتے رہے۔ اور پردوں کی آڑ میں چھپے ہوئے سڑک کے شور کو کان لگا کر سنتے رہے۔ کسی موٹر کی رفتار دھیمی ہوجاتی یا فٹ پاتھ پر کسی راہ گیر کے قدموں کی آواز تیز ہوجاتی تو میرا سانس رُک جاتا۔
ہیلنؔ چپ بیٹھی تھی۔ اُس نے موقع کی نزاکت پر خواہ مخواہ کی بکواس سے پردہ ڈالنے کی بالکل کوشش نہیں کی ۔ نہ جانے ہم دونوں کتنی دیر تک نیم تاریک کمرے میں یوں ہی بیٹھے رہے۔ آخر ہیلنؔ نے کہا اب اس سے زیادہ اندھیرا نہیں ہوگا۔ لہذا ہم کو روانہ ہوجانا چاہیے ۔ جب سے پولیس نے میرا پیچھا شروع کیا تھا میں پہلی بار گھر سے باہر نکل رہی تھی۔ اور میرے غم وغصے میں خوف بھی شامل تھا۔ بالکل ویسا ہی خوف جیسا میں بچپن میں اندھیرے کی تنہائی میں محسوس کیا کرتی تھی۔ وہ بھیانک بھوت جو مجھے چھوتا نہ تھا مگر جو ہر وقت میری پیٹھ کے پاس منڈلاتا رہتا تھا۔ میر ے ماں باپ جب پوچھتے کہ تمہیں کس چیز سے ڈرلگتا ہے تو میں کچھ نہ بتاپاتی ۔لیکن اُس وقت تو ہر قدم کے ساتھ کسی کی موجودگی کا احساس ہورہا تھااور میں اُس کا حلیہ آسانی سے بیان کرسکتی تھی۔
لاس اینجلز کے جس نیگر وعلاقے سے ہم گزر رہے تھے وہ میرا جانا پہچانا تھا۔ میں وہاں کئی بار جاچکی تھی۔ مگر اُس رات مجھے ہر چیز اجنبی اور نامانوس دکھائی دیتی تھی اور ہر سمت خوف کے ڈروانے سائے چھپے نظر آتے تھے ۔ لیکن میں نے عہد کر لیا تھا کہ مجھے ان تمام خطرات کا جو کچھ تو خیالی تھے اور کچھ حقیقی نہایت جرات اور خود اعتمادی سے مقابلہ کرنا ہوگا۔
وہ حالات جن کے باعث میں ایک مفرور کی زندگی گزارنے پر مجبور کی گئی تھی پیچیدہ تو تھے لیکن دوسروں سے مختلف نہ تھے ۔ دو سال پہلے چندہ جمع کرنے کی خاطر لاس اینجلز میں ایک کاک ٹیل پارٹی ہوئی تھی۔ پارٹی کے بعد پولیس نے ہمارے ایک دوست فرینکلن الیگز انڈر اور اُن کی بیوی کنیڈرا کے گھر پر چھاپا مارا تھا۔ او وہاں جو لوگ بیٹھے ہوئے تھے ان کی تلاشی میں جورقمیں اور ریوالور ملے سب ضبط کر لیے تھے اور سب کو مسلح ڈکیتی کے الزام میں گرفتار کر لیا تھا۔ جب پولیس کو پتہ چلا کہ ایک ریوالور میرے نام پر رجسٹر ہے تو انہوں نے مجھے بھی پوچھ گچھ کے لیے طلب کیا تھا۔ مگر عدالت میں جرم ثابت نہیں ہوا اور سب لوگ چندراتیں جیل میں گزار کر رہا ہوگئے اور ہمارے ریوالور بھی واپس مل گئے۔ لیکن میرا یہی ریوالور عدالت کے کمرے میں جو بلوہ ہوا تھا اُس میں استعمال کیا گیا تھا اور پولیس کے قبضے میں تھا۔ اس بلوے میں عدالت کا جج مارا گیا تھااور وکیل سرکار زخمی ہوا تھا۔ لہذا مجھے معلوم تھا کہ ریوالور پر قبضہ کرنے کے بعد پولیس ضرور مجھے گرفتار کرے گی۔ یوں بھی پولیس میری برابر نگرانی کر رہی تھی اس لیے کہ سولیڈاڈ جیل میں محبوس چند نیگر وقیدیوں پر قتل کا جو جھوٹا مقدمہ چل رہا تھا اور اُن کو آزاد کرانے کی جو عوامی تحریک اُٹھی تھی میں اپنا سارا وقت اس میں صرف کر رہی تھی۔ چنانچہ اسی جرم کی پاداش میں کیلیفورنیا کے گورنر رونالڈریگن نے مجھے کیلیفورنیا یونیورسٹی کے فلسفہ کے شعبہ سے برطرف کر دیا تھا۔
ہمارا ایک رفیق ڈیوڈ شکا گو میں رہتا تھا۔ میں بہت دن سے اُس سے نہیں ملی تھی ۔ لیکن مجھے یقین تھا کہ وہ میری مدد کرنے میں کوئی دقیقہ اُٹھا نہیں رکھے گا۔ لہذا میں ہیلن کے ہمراہ پہلے تو لاس اینجلز کی نیگروبستی میں تحریک کے ایک ہمدرد جان کے گھر گئی اور دو ، تین روز وہاں پناہ لینے کے بعد موٹر کے ذریعے شکا گو روانہ ہوگئی۔ میں تنہا ہونا چاہتی تھی لیکن جانؔ نے اصرار کیا اور اپنی بیوی ہیٹی کو میرے ساتھ کردیا۔ ہم نے تقریباً ایک ہزار میل کا یہ سفر بڑی احتیاط سے لیکن بلاکسی حادثے کے طے کر لیا ۔ گاڑی چلاتے چلاتے میں جب بھی خبروں کے لیے ریڈیو کھولتی تو یہ اعلان ضرور سنائی دیتا کہ’اینجیلا ڈیوس نامی ایک خطرناک مجرم مفرور ہے اور پولیس اُس کی تلاش میں ہے، رات کے وقت جب ہم کسی چھوٹے سے ہوٹل میں ٹھہرتے اورٹی ۔وی ۔چلاتے تو وہاں بھی اسی قسم کی خبریں سننے میں آتیں۔
ہیٹی کی وجہ سے مجھے بڑا سہا را تھا کیونکہ وہ بڑی ہنس مکھ او رزندہ دل عورت ہے ۔ مگر جب ہم رخصتی کے وقت گلے مل رہے تھے تومیں اُس کا شکریہ ادا نہ کرسکی ۔ کیونکہ ایک ایسے شخص کا شکریہ ادا کرنا جس نے اپنی زندگی خطرے میں ڈال کر میری جان بچانے کی کوشش کی تھی کوئی معنی نہیں رکھتا تھا۔
کچھ ایسے واقعات پیش آئے کہ شکاگو میں زیادہ دن تک پناہ لینا نامکمل ہوگیا اور ایک رات جب کہ بارش موسلادھار برس رہی تھی ڈیوڈ مجھے ساتھ لے کر فلور یڈاروانہ ہوگیا۔ ہوائی جہاز کا سفر بے حد خطرناک تھا اس لیے کہ ہرائیر پورٹ پر پولیس کے آدمی چوبیس گھنٹے نگرانی کر رہے تھے ۔ ہمارا منصوبہ تھا کہ شکا گو سے نیویارک تک موٹر میں جائیں گے اور وہاں سے میامی تک ٹرین میں۔ راستے میں ایک جگہ ہم نے ایک ہوٹل میں ٹی وی کھولا تو اعلان ہورہا تھا کہ ’’اینجیلا ڈیوس جس پر قتل ، اغوا اور سازش کا الزام ہے آج برمنگھم میں اپنے والدین کے گھر سے نکلتی ہوئی دیکھی گئی۔ ہماری اطلاع کے مطابق’’بلیک پینتھر پارٹی کے ایک جلسے میں شریک ہونے گئی تھی ۔ برمنگھم کی پولیس نے اس کا بہت پیچھا کیا لیکن وہ جُل دے گئی۔ وہ نیلے رنگ کی ایک کار چلا رہی تھی‘‘ ۔ یہ خبر سن کر میں سوچ میں پڑ گئی ۔کیا پولیس نے میری بہن کا پیچھا کیا تھا ۔ مگر وہ تو کیوبا گئی ہوئی تھی رہی میری کارسو وہ تو ہفتوں سے فرنیکلین کے فلیٹ کے سامنے لاس اینجلز میں کھڑی ہے۔ مجھے اپنے والدین کا خیال آیا کہ پولیس اُن بیچاروں کو خواہ مخواہ تنگ کر رہی ہوگی۔ میں انہیں ٹیلیفون بھی نہیں کرسکتی تھی اس لیے کہ میں جانتی تھی کہ ٹیلیفون لائن ٹیپ ہورہی ہے۔
راستے میں ایک جگہ میں نے عینک خریدی اور ایک دو جوڑے کپڑے بھی کیونکہ لاس اینجلز سے چلتے وقت میرے پاس کوئی سامان نہ تھا۔ اور میں پچھلے تقریباً ایک ہفتے سے ایک ہی پوشاک پہنے ہوئے تھی۔نیویارک ہم خیریت سے پہنچ گئے اور دو ، تین دن کے بعد ٹرین سے میامی کے لیے روانہ ہوگئے۔ مگر روپوشی کی یہ زندگی مجھ پر اب گراں گذرنے لگی تھی۔ ساری دنیا سے کٹ کر اپنی ذات کے خول میں پناہ لینا ناقابلِ برداشت ہوتا جارہا تھا اور مجھے بار بار یہی خیال آرہا تھا کہ جیل میں ہوتی تو کم از کم اپنے ساتھیوں کے حالات توپتہ چلتے رہتے ۔ اور باہر کی تحریک سے رابطہ رہتا ۔ ایک بار یہ بھی سوچا کہ ملک سے باہر چلی جاؤں لیکن ضمیر نے اس کی اجازت نہ دی۔ البتہ یہ فیصلہ ضرور کیا کہ کسی طرح پولیس کو یقین ہوجائے کہ میں اب امریکہ میں نہیں ہوں۔ چنانچہ میامی میں میں نے پریس کے لیے ایک بیان تیار کیا جس میں اُ ن بے انصافیوں اور سختیوں کا ذکر تھا جو جواں مرگ جوناؔ تھن کو جیل میں برداشت کرنی پڑی تھی۔ میں نے یہ بھی لکھا تھا کہ عدالتی کمرے کے بلوے سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ میں نہ وہاں موجود تھی اور نہ مجھے پہلے سے اس کا کوئی علم تھا۔آخر میں نے اشاروں اشاروں میں یہ جتا دیا تھا کہ اب میں ملک کے باہر ہوں اور یہ وعدہ کیا تھا کہ کیلیفورنیا کی سیاسی فضا جب بہتر ہو جائے گی تو میں واپس آکر عدالت کے ذریعے اپنی بے گناہی ثابت کروں گی۔
اکتوبر1970میں ہم نیوریارک واپس آگئے۔ میری روپوشی کو اب تقریباً دو مہینے ہوچکے تھے ۔ ہماری پونجی ختم ہوتی جارہی تھی۔ اور ہمارا ہر جاننے والا پولیس کی نگرانی میں تھا۔ آخر ایک دن ہوٹل کی گھٹن سے تنگ آکر ہم دونوں نیویارک کی پر ہجوم سڑکوں پر گھومنے نکل پڑے۔ سہ پہر کا وقت ہم نے ایک سنیما گھر میں گزارا لیکن مجھے بالکل یاد نہیں کہ ہم نے کون سی فلم دیکھی۔ میرے ذہن میں تو بس ایک ہی خیال تھا اور وہ تھا پولیس سے بچنے کا۔ اور میں برابر یہی سوچتی رہی کہ یہ تنہائی میں کب تک برداشت کرسکوں گی۔
فلم تقریباً چھ بجے ختم ہوئی اور ڈیوڈ اور میں ہوٹل کی طر ف روانہ ہوگئے۔ نہ جانے مجھے یہ کیوں محسوس ہوا کہ پولیس کے آدمی ہمارا تعاقب کر رہے ہیں لیکن جب کوئی حادثہ پیش نہ آیا تو میں مطمئن ہوگئی۔ مگر ہوٹل کے دروازے پر میں پھر اسی وہم میں مبتلا ہوگئی اور گوری کھال کا ہر مرد مجھے پولیس کا آدمی نظر آنے لگا ۔ ایک بار تو میں نے سوچا کہ بھاگ کرراہ گیروں کی بھیڑ میں گم ہوجاؤں لیکن پھر مجھے یاد آگیا کہ ہمارے ساتھی بوبی بٹن کو پولیس والوں نے پیٹھ پر گولی مار کر بلاک کیا تھا۔ میں یوں آسانی سے مرنے کے لیے تیار نہ تھی۔
مگر ہوٹل کے اندر داخل ہوتے ہی مجھے یقین آگیا کہ میرا اندیشہ درست تھا۔ ہال میں درجنوں گورے امریکی ادھر اُدھر ٹہل رہے تھے۔ اب میں گرفتاری کے لیے ذہنی طور پر بالکل تیار تھی۔ لیکن کچھ بھی نہ ہوا۔ مگر ہم لفٹ میں سوار ہونے لگے تو ایک گورا امریکی ہمارے ساتھ لفٹ میں داخل ہوگیا ۔ میرے ذہن میں پھر گرفتاری کے اندیشے اُبھرنے لگے اور ساتویں منزل تک میں اسی ادھیڑ بن میں رہی۔ لفٹ سے اُتر کر ڈیوڈ تو کمرہ کھولنے کے لیے آگے بڑھ گیااور میں عادتاً پیچھے رہ گئی۔اتنے میں ہمارے کمرے کے سامنے والا دروازہ کھلا اور چھوٹے قد کا ایک آدمی باہر جھانکنے لگا۔ لفٹ والا امریکی بھی اب میرے قریب قریب پہنچ چکا تھا۔ اور جونہی میں اپنے کمرے میں داخل ہونے کے لیے مڑی چھوٹے قد والے امریکی نے میرا بازو پکڑ لیا۔ اور پھر درجنوں پولیس والے ادھر اُدھر کے کمروں سے نکل آئے اور اُنہوں نے مجھے گھیر لیا۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*