چور اور بہادر سپاہی

 

وہ چور تھا،ایک عقل مند چور۔وہ جب کم سن تھا تب اس نے نابینا گداگروں کے کشکولوں سے پیسے چرائے۔جب جوان ہوا تب اس نے دل چُرائے اور جب بڑھاپے کے قریب ہوا تو اسے پتہ چلا کہ کہیں نوفل کا محل بھی ہے،جہاں پندہ سوبرس پرانی ابوجہل کی بوتل کسی مے نوش کا انتظار کررہی ہے۔

کسی زمانے میں نوفل اور ابوجہل کا آپس میں یارانہ تھا۔انہوں نے ان محل میں ساتھ مل کر تین بوتلیں پیں اور ایک یہ سوچ کر کہیں چھپادی تھی کہ کبھی آئندہ نسلوں کا کوئی مے نوش یہاں آئے گا اور پرانی کا مزہ لے گا۔اسے وہ بوتل چرانی تھی جو نایاب تھی۔اسے کچھ پتہ نہیں تھا کہ نوفل کا محل کہاں واقع ہے؟۔کسی نے اسے بتایا تھا کہ،”نوفل کا محل ایسے جنگل میں ہے،جہاں گدھے نما انسان رہتے ہیں۔وہاں ایک کھنڈر ہے،جہاں ایک مسکراتی بلّی سات چوہوں کو دودھ پلاتی ہے۔“

اس کو ایسے کھنڈر کی تلاش تھی اور اسے وہ بوتل چرانی تھی۔اس نے ایک دن ایسا جنگل ڈھونڈ نکالا،جہاں گدھے نما انسانوں کی حکمرانی تھی اور انسان نما انسان کندھوں پر بوجھ اٹھا رہے تھے۔جنگل اتنا گھنا تھا کہ اوپر کھڑے سورج کی کرنیں نیچے نہیں پہنچ رہی تھیں۔وہاں جیسا دن تھا ویسی رات اور جیسی رات تھی،ویسا دن۔وہ چلتا ہوا سردار کے ہاں پہنچا اور اسے جھک کر سلام کیا۔

”اے ظلِ خراسانی!سردارِعالمِ پریشانی!!آپ بے ہوش مند حکمران ہیں،لیکن میں بھی وقت کا ولی ہوں۔آپ کی خدمتِ اقدس میں اس لیے حاضرہوا ہوں کہ مجھے نوفل کا محل دیکھنے کا بہت اشتیاق ہے۔وہ محل اس گھنے جنگل کے کسی حصہ میں موجود ہے۔آپ اگر عنایت کرتے ہوئے کوئی راہبر مہیاکردیں تو میں وہ محل دیکھ کر آپ کو ڈھیروں دعائیں دوں گا۔“

اس کی اس بات پر سرداربہت ہنسا،جس کی گردن گدھے کی اور ہنسی انسانی تھی۔

”کس نوفل کی بات کررہے ہو،جوہمارے دادا کا دوست تھا؟“

”ہاں،سردار!“چور نے کہا،”وہی جو عقل مند ابوجہل کا دوست تھا۔“

سردار اپنے بزرگ کی تعریف سن کر بہت مسرور ہوا۔اس نے ایک بہادر سپاہی کو بلایا،جو حال ہی میں اس لشکر کے ساتھ لوٹاتھا،جس نے بیویوں کا حکم ماننے والے کافروں کو ان کے گھروں میں گھس کر شکست دی تھی۔وہ گدھے کے سر والا دلیر سپاہی تنومند جسم کا مالک تھا۔وہ قدآور اور کسرتی بدن والا تھا۔اس کی کشادہ چھاتی پر گلے میں ڈالاہوا تعویذ جھول رہاتھا۔سردار نے اس سپاہی کو حکم دیا۔

”اس ولی کو نوفل کے تباہ شدہ کھنڈرات میں لے جاؤ۔لیکن یہ یاد رکھنا کہ یہ وہاں ایسی کوئی بھی حرکت نہ کرے کہ ہمارے بزرگوں کی ارواح کو کچھ رنج پہنچائے اور پریشانی پیداکرسکے۔“

بہادر سپاہی ہاتھ میں تلوار سونتے،چھاتی پھلائے،اس کے آگے یوں چلنے لگا جیسے کسی کا سر قلم کرنے نکلا ہو۔چور اس کے پیچھے چلتا جب کھنڈر کے باہر پہنچا،تب اسے دروازے پر ایک سیاہ بلی بیٹھی نظر آئی،جو سات چوہوں کو دودھ پلا رہی تھی۔سپاہی نے آگے بڑھ کر بلی کو سلام کیا اور اس اندر جانے کی اجازت مانگی۔بلی نے اپنی آنکھ یوں جھپکی جیسے کہہ رہی ہو،”گزر جاؤ،مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔”وہ پھر مسکرانے لگی۔

کھنڈر سینکڑوں برس پرانا تھا،لیکن اس کی دیواریں ابھی تک سلامت تھیں۔دیواروں کے پرانے پتھروں پر کئی تراشیدہ شبیہیں موجود تھیں۔ایک اونچے برج پر ایک شیر کی مورت کندہ تھی،جس کے منہ سے بارش ہوجانے کے بعد پانی پرنالوں کی صورت بہہ کر نیچے جمتا تھا۔وہاں سیاہ و سفید پتھر کا صحن تھا اور اندر ایک کمرہ تھا،جس کی دیوار ابھی تک سلامت تھی۔مشرقی دروازے سے دھوپ فرش پر یوں پڑرہی تھی جیسے زندگی تنہا بسر کرکے مرچکے کسی کوڑھی مریض کی لاش ہو۔چور نے کمرے میں اِدھر اُدھر نظر دوڑائی۔کمرہ خالی تھا۔وہاں کچھ بھی نہیں تھا۔ہر طرف سینکڑوں برس پرانی دھول پھیلی ہوئی تھی۔وہ مایوس ہوگیا۔اسے وہاں ابوجہل کی چھپائی کوئی بوتل نظر نہیں آئی۔اس نے چھت کی طرف دیکھا،وہاں اس قسم کی دراڑیں تھیں،جیسے وقت نے اس پر چاقو سے وار کیے ہوں۔اس کی نگاہیں چھت سے ہوتی نیچے دیواروں تک آئیں۔اس نے دیکھا کہ ایک دیوار میں بلندی پر پنائے گئے خانے میں پرانی بوتل موجود تھی،جس پر گرد کی تہیں جم چکی تھیں۔وہ بوتل کسی فراموش کردہ محبوب کی یادآنے والی گردن کی مانند تھی۔اسے دیکھ کر چور سمجھ گیا کہ یہ وہی بوتل ہے،جس کی اسے تلاش تھی۔لیکن وہ بلندی پر رکھی ہوئی تھی اور اس کی پہنچ سے دورتھی۔

بہادر سپاہی سینہ پھلائے،اس کی ہر حرکت کا جائزہ لے رہا تھا۔چور کو پتہ تھا کہ اگر اس نے کوئی بھی ایسی حرکت کی تو یہ گدھے کے سر والا بہادر سپاہی ہاتھ میں پکڑی تلوار کے ایک ہی وار سے اسے دولخت کرنے میں دیر نہیں کرے گا۔چور نے محسوس کیا کہ یہ ناممکن ہے کہ میں سپاہی سے آنکھ بچاکر،اچھل کر یہ بوتل نکالوں اور اسے چھپالوں۔وہ بڑی بلندی پر تھی۔اسے ایک بڑے پتھر کی ضرورت تھی کہ جسے نیچے رکھ اور اس پر چڑھ کر،اس بوتل کو حاصل کرسکے۔اس نے باہر آنگن میں نظریں دوڑائیں۔وہاں کچھ اس طرح کے پتھر موجود تھے جو اس کے کام کے نہیں تھے۔اسے کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیاکرے اور اس بوتل تک کیوں کر پہنچے؟۔اس کے دل نے چاہا کہ وہ بہادر سپاہی کے کندھوں پر سوار ہوکر،اس بوتل کو اٹھالے،لیکن یہ ناممکن تھا۔ وہ اِدھر اُدھر دیکھتا اور سوچتا رہا کہ آخر کیاکرنا چاہیے!؟۔اس کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ بہادر سپاہی کو کسی طور قائل کرے کہ وہ اسے کندھوں پر اٹھاکر اس خانے تک پہنچائے۔لیکن بہادر سپاہی بڑا اٹل اور چوکس نظر آ رہا تھا۔ اس نے سوچا کہ سپاہی کبھی نہیں چاہے گا کہ کوئی شخص نوفل کے محل کی کوئی چیز اس کی آنکھوں کے سامنے اٹھاکر لے جائے۔وہ گدھے کے سر والا بہادر سپاہی اس کے پیچھے یوں تن کر کھڑاتھا کہ جیسے اسے بازو سے اٹھاکر محل سے باہر پھینکنے والا ہو۔تیزتلوار اس کے ہاتھ میں چمک رہی تھی اور وہ اس کی ہر حرکت کا جائزہ لے رہا تھا۔

اس کے سوا اس کے پاس اور کوئی طریقہ ہی نہیں تھا کہ وہ بہادر سپاہی کو اپنے ساتھ ملالے اور اسے یوں زیرِاثر کرے کہ وہ مدد کے لیے تیار ہوجائے۔اسے اس کے علاوہ اور کوئی راستہ سُجھائی نہ دیا۔اس نے کیا کیا کہ نیچے قدیم فرش کی پرانی اینٹوں پرآنکھیں بند کرکے،آلتی پالتی مارکربیٹھ گیا۔

”میں بہت تھکا ہوا ہوں،“ اس نے سپاہی سے کہا،”اگر تم اجازت دو تو یہاں کچھ دیر بیٹھ کر سستالوں۔“

سپاہی خاموش رہا اور وہ آنکھیں بندکرکے بیٹھا رہا۔سپاہی کچھ دیر یک اسے تکتا رہا اور پھر وہ بھی تلوار نزدیک ڈال کر بیٹھ گیا۔

”میں اس دورکا ولی ہوں،“ چور نے آنکھیں کھول کر کہا،”میں نے آدھی دنیا کا سفر کیا ہے اور بہت سارے لوگ میرے پیروکار ہیں۔ میں تمہیں ایک قصہ سنانا چاہتا ہوں،جس کے سننے سے تمہارے دل کا بوجھ ہلکا ہوجائے گا اورتمام پریشانیاں ختم ہوجائیں گی۔“

بہادر سپاہی نے اس کے نورانی چہرے کو گھورکر دیکھا اور متاثر ہوکر اسے قصہ سنانے کا کہا۔

چور دل میں بہت خوش ہوا کہ اس کا پہلا تیرکامیابی سے نشانے پر بیٹھا ہے۔پھر چور نے اسے،’اصل بڑا قصہ دائمی خوشی حاصل کرنے کا‘ سنایا۔

”ایک برگد تھا۔اس کا تنا بہت موٹاتھا۔اس برگد کے نیچے ایک ہڈیالے جسم والا نوجوان آنکھیں بند کرکیے بیٹھاہوا تھا۔ہوا کی آمد پر برگد کے پتے کھڑکھڑاتے لیکن اس کی ڈاڑھی کے بال ہوا میں ہلنے سے معذور تھے،کیوں کہ وہ اس کی امیدوں کی مانند اولادِآدم کی طرح جمی ہوئی مٹی میں مل کر ایک ہوچکے تھے۔اس نے کئی برس اس برگد کے نیچے بیٹھ کر گزارے۔روزانہ رات کے وقت حوریں اس کے سامنے آکر اپنی پستان ہلاتیں،لیکن اس پر کوئی اثر نہ ہوتا۔اس کے اس تیاگ کا سبب دھرتی پر وہاں کے درد اور تکالیف تھے۔محدود زندگی تھی جوپل بھر میں پلک جھپکتے ہی گزر جاتی اور موت کے خوف سے پیداہونے والی کیفیت تھی۔وہ جب شہزادہ تھا اور وہ پہلی بار محل سے باہر نکلا تو اس کی نظر ایک جنازے پر پڑی۔اس نے کسی سے پوچھا،

”یہ کیا ہے؟“

”یہ جنازہ ہے۔“کسی نے اسے جواب دیا۔

”جنازہ کیا ہوتا ہے؟“اس نے سوال کیا۔

”جب آدمی مر جاتا ہے تو اس کا جنازہ نکلتا ہے۔“

اسے اس شخص کے جواب پر حیرت ہوئی اور سوچنے لگا،”کیا انسان مرتا بھی ہے؟۔اگر انسان مرتا ہے تو پھر اس مختصر زندگی کا کیا حاصل؟“ وہ بہت دکھی ہوا اور اسے ہر چیز میں دکھ کے سوا کچھ بھی نظر نہیں آیا۔اس نے تاخ وتخت چھوڑدیا اور جنگل کی طرف نکل گیا۔وہ برگدکے درخت کے نیچے آکر بیٹھ گیا اور زندگی کے متعلق سوچنے لگا۔اس نے دنیا اور اس کے تمام رنج و غم کے بابت سوچا۔وہ چاہتا تھا کہ کاش وہ دھرتی پر موجود دکھ کچھ کم کرسکے!۔کاش! اس کے عمل کے نتیجے میں انسان ایسی خوشی حاصل کرسکے جو عارضی نہیں بلکہ دائمی ہو۔انسان اپنے آپ کو ہرحال میں مطمئن اور مکمل سمجھے،وہ اپنے اندر میں نامکمل نہ ہو۔“

چور نے بولتے بولتے سپاہی کے چہرے کو دیکھا۔وہ مکمل طور پر اس کی گرفت میں آچکا تھا۔اس کے گدھے ایسے چہرے کی پیشانی پرفکر انگیز لکیریں ظاہر ہوئیں۔وہ بڑے ادب کے ساتھ سر ہلاہلاکر اس کی نصیحت کا اقرار کئے جارہا تھا۔جوں جوں چور بات بڑھاتاجارہا تھا،توں توں سپاہی کا دل نرم پڑتاجارہا تھا۔بالآخر ایسا وقت بھی آیا کہ سپاہی نے جذبات میں آکرہاتھ میں پکڑی تلوار دور پھینک دی اور وہ ویران محل کے خاموش فرش کی ٹوٹی پھوٹی اینٹوں کی نیند خراب کرتی لڑھکتی چلی گئی۔

”عدم تشدد۔“چور نے کہا،جس کی مگرمچھ ایسی آنکھوں میں پانی بھر آیاتھا۔

”یہ عدم تشدد ہی ہے،جس سے دنیا کی تقدیر بدلی جاسکتی ہے۔تشدد اور ظلم دونوں بے چینی کا سبب ہیں۔“

اور پھر اس نے سپاہی کے اس جذبے کی تعریف کی،جس کے تحت اس نے اپنی تلوار کو ایک طرف پھینک دیاتھا۔

”تمہیں لاکھوں مبارک باد! اے بہادر سپاہی!“ اس نے کہا،”فتح حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔فتح صرف اس صورت میں حاصل کی جاسکتی ہے جب اندر سرکشی کو مات کیا جائے گا،اندر کو شکست دی جائے گی۔حقیقی جنگ تو تمہارے اندر موجود ہے۔تمہارے دشمن تمہارے مَن میں موجود ہیں۔اگر تم انہیں مات دوگے تو جینے کا مزہ حاصل کرپاؤگے۔لیکن اگر وہ تم پر حاوی ہوگئے توتمہیں رنج و غم کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔تم انہیں تلوار سے لڑکر حاصل نہیں کرسکتے،کیوں کہ تمہارے دشمن باہر نہیں بلکہ اندر ہیں۔باہر اندھیرا ہے،اپنے اندر کو صاف کروگے تو کبھی کمزور نہیں ہوگے۔اصل بہادری اپنے آپ سے مقابلہ کرنا ہے۔تمہیں فتح حاصل کرنے کے لیے عدم تشدد کے ہتھیا ر کی ضرورت پڑے گی۔ایک ایسی تلوار کی ضرورت پڑے کی جو تمہارے اندر موجود ہے۔جب تم نے اسے تلاش کرلیا تب امر ہوجاؤگے۔ موت تمہارے لیے بے کار ہوجائے گی۔تم جب مروگے تو محسوس کروگے کہ کوئی اور مر گیا ہے۔“ چور کی باتوں کا بہادر سپاہی پر اتنا اثر ہوا کہ اس کا تھوبڑا لٹک گیا اور وہ منہ بسوررہا تھا۔۔اس نے جذبات میں آکر اپنے کوٹ کے بٹن کھولے،اسے دور پھینک دیا اور سر جھکا کر سنتا رہا۔چور جس کی باتوں کا جادو اس پر چل چکا تھا،وہ دل ہی دل میں مسکرانے لگا۔اس کی مراد بر آنے والی تھی اور وہ وقت دور نہیں تھا جب سپاہی اس کی مٹھی میں ہوگا اور وہ جیسے چاہے گا،اسے استعمال کرسکے گا۔چور بولتا چلاگیا اور بہادر سپاہی اسے سنتا رہا۔

”انسان کے سب سے بڑے دشمن اس کے اندر ہیں،“چور نے کہا،”جس نے غصہ کیا،اس نے اپنے ساتھ ظلم کیا۔تم غصہ کرکے کسی اور کو دھمکا تو سکتے ہو لیکن اس کے ساتھ اپنے اندر کو بھی تباہ اور برباد کرتے ہو۔غصہ تمہاری شخصیت کو نقصان پہنچاتا ہے۔وہ جذبات کے ابھار کے ساتھ ساتھ بیماریوں کو جنم دیتا ہے۔تمہاری روح بے چین ہوجاتی ہے اور سکون رخصت ہوجاتا ہے۔تم جب غصہ کرتے ہو تب دنیا کو ناراض کرتے ہو۔ہر ایک تمہارے ساتھ اپنے آپ کو ناخوش اور بے زار محسوس کرتا ہے۔جب تمہارے دل میں خوف کی کیفیت بیدار ہوتی ہے،تب تم اپنے آپ کو تنہا اور بیگانہ محسوس کرتے ہو۔اگر غصہ نہیں کروگے تو لوگ تمہیں اچھا سمجھ کر تمہارے قریب آئیں گے۔تم اپنے آپ سے مطمئن اورپرسکون رہوگے۔ہر ایک تمہاردوست ہوگا۔“

اس کی باتیں سن کر بہادر سپاہی کے چہرے پر ایسی مسکان آگئی جو دوسری تاریخ کے چاند ایسی تھی۔

”بے شک،اے ولی!بے شک۔“بہادر سپاہی نے کہا،”تمہاری باتیں سن کر میرے دل کو بڑا سکون پہنچ رہا ہے،دل کا بوجھ ہلکا ہورہا ہے اور جسم میں سرور کی لہریں پیدا ہورہی ہیں۔“

چور نے اپنے دل میں قہقہہ لگایا جس کے سبب اس کی ناک سرخ ہوگئی۔

”میں چاہوں گا کہ تمہاری تمام الجھنیں ختم کرکے،تمہیں دائمی خوشی کا پلِ صراط پارکرواکر،ایک ایسی دنیا میں پہنچاؤں،جہاں کوئی خوف نہ ہو،کوئی مایوسی نہ ہو۔جہاں پریشانیاں ختم ہوچکی ہوں اور موت بے موت مارا جاچکا ہو۔میں تمہیں ایسی دنیا کی سیر کرانا چاہتا ہوں جو تم نے اس سے قبل نہیں دیکھی ہے۔اگر تم ایسی دنیا دیکھنا چاہتے ہو تو اپنے آپ کو فناکردو۔ہر برائی کی جڑ انا ہے۔اناپرستی انسان کو ایسے گرچکے درخت کی مانند بنادیتی ہے جس کی شاخیں طوفان میں ٹوٹ ٹوٹ پڑتی ہیں۔تم ایک لچک دار پودا بن جاؤ،جب طوفان آئیں گے،تب تم نیچے جھک جاؤ گے اور وہ تمہارا کچھ بگاڑ نہ سکیں گے۔جھکنا سیکھو اور عاجزی اختیار کرو۔“

چور نے دیکھا کہ سپاہی کے کندھے کچھ اوپر ہوگئے ہیں۔اس کا سر جھک گیااور کُب نکل آیا ہے۔وہ عقیدت اور عاجزی کے سبب جھک گیا ہے۔چور نے چاہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ اس پر سوار ہوکر اپنا کام سرانجام دیا جائے۔لیکن اس نے محسوس کیا کہ منزل ابھی کچھ دور ہے۔کیا پتہ سپاہی کی حیوانی صفت جاگ اٹھے اور وہ تلوار اٹھاکر میرا سر تن سے جدا کردے۔یہ سوچ کر چور نے اپنی مقناطیسی شخصیت کے ذریعہ الفاظ کی جادوگری جاری رکھی اور اسے اپنے جال میں مزید قابُو کرتا چلاگیا۔

”لالچ ایک بری بلا ہے۔“چور نے کہا،”جب ہم لالچ میں آجاتے ہیں تو لعاب ہماری بائیں باچھ سے بہتے ہوئے ہمارے کپڑوں کو گنداکردیتا ہے۔لالچ ہمارے دل کو بزدل اور منافق بنادیتی ہے۔ہم دنیا میں اپنے آپ کو کمزور اور دوسروں کے سہارے محسوس کرتے ہیں۔ حلال اور حرام کی تمیز نہیں رہتی۔لالچ مفادپرستی اور غداری کو جنم دیتی ہے۔ہم اپنے اور پرائے کی تمیز بھلادیتے ہیں۔خواہشیں جو ایک اژدہا کی مانند ہمارے پیچھے لگی آتی ہیں،وہ ہمیں دوڑادوڑاکر مارتی ہیں۔ہماری خواہشیں ایک ایسی زنجیریں ہیں جن سے اپنا آپ چھڑانا بہت مشکل ہوتا ہے۔خواہشیں مایوسیوں کو جنم دیتی ہیں۔جب خواہشات پوری نہیں ہوتیں تو ہم غمگین ہوجاتے ہیں اور اس طرح ہم مایوسیوں میں گھر کر تنہائیوں کی دنیا کا حصہ بن جاتے ہیں۔ہم اگر لالچ نہ کریں اور خواہشات کی تمنا کو بھلادیں تو ذہنی طورآزاد ہوکر ایسی جگہ پہنچ جائیں گے،جہاں خوشیاں ہمارا انتظار کریں گی اور ہم کبھی مایوسیوں اور دکھوں کا منہ نہیں دیکھیں گے۔“

چور کی باتوں کا بہادر سپاہی پر اتنا اثر ہوا کہ اسے اپنی بیتی ہوئی زندگی گناہوں بھری نظر آئی۔اس کا ضمیر جاگ اٹھا،اس کے نتیجے میں اسے یہ احساس ہوا کہ اس نے کتنے ظلم کیے ہیں!؟کتنے بے گناہ،معصوم لوگوں کو قتل کیا،ان کے گھر اجاڑدیے اور عورتوں کو بیوہ کردیا۔بہادر سپاہی کو اپنا ماضی ایسا نظر آیا کہ جیسے کوئی اژدہا ہو جواس کے سامنے منہ کھولے کھڑاہوگیا ہو اور اس کے منہ سے ایسی آگ نکلنے والی ہو،جس میں اس کا وجود جل کر راکھ ہوجائے گا۔بہادر سپاہی کو بڑا ڈرمحسوس ہوا اور اس کا جسم کانپنے لگا۔اس نے ہاتھ جوڑکر چور سے کہا،

”اے ولی!تمہاری باتیں سن کر میں گناہوں کے خوف میں مبتلا ہوگیا ہوں۔“

چور بظاہر آنکھیں بندکیے،سیدھااور خاموش بیٹھاہوا تھالیکن دل ہی دل میں تالیاں بجاکر،اتنا ہنس رہا تھا کہ اس کا پیٹ درد کررہا تھا۔

”موہ،“ اس نے بات آگے بڑھائی تو کھنڈر میں گونج پیداہوئی،”موہ انسان کو پاگل کردیتا ہے۔وہ موہ کے دھاگے میں بندھی کٹھ پتلی کی طرح اشاروں پر ناچتا رہتا ہے۔اس کی زندگی اس کی نہیں رہتی،بلکہ دوسروں کی غلام بن کر رہ جاتی ہے۔جدائی اسے دکھ دیتی ہے اور فراق اس کے لیے پریشانی کا باعث بن جاتا ہے۔موہ ایسا جرم ہے جسے سرانجام دینے پر آدمی بہ طورسزا خود اپنے آپ میں قیدہوجاتا ہے اور اسے ضمیر کبھی آزاد نہیں ہونے دیتا۔موہ کے دھاگے اتنے کچے ہوتے ہیں کہ وہ ان میں بندھے دلوں کا بوجھ اٹھا نہیں سکتے اور جب وہ چھوڑدیتے ہیں تو دل گرکر مٹی میں مل جاتے ہیں۔اگر تم دائمی خوشی چاہتے ہو تو تمہیں بندھنوں کو توڑنا ہوگا۔بندھن توڑوگے تو آزاد ہوجاؤ گے اور دائمی خوشی تمہارے قدم چومے گی۔“

چور کی بات سن کر بہادر سپاہی کو اپنی بے وفا بیوی یاد آگئی،جس کے ساتھ اس کا موہ تھا۔وہ اسے چھوڑکر چلی گئی تھی۔وہ جب جنگِ عظیم سے دوبرسوں کے بعد گھر لوٹا تو اس کی بیوی اس کے گھر میں موجود نہیں تھی۔وہ گلیوں کی نالیاں صاف کرنے والے ایک بھیل کے ساتھ بھاگ گئی تھی۔وہ بیوی کو یادکرکے بہت رویا اور وہ گدھے نما سپاہی کھنڈر کی پرانی دھول میں لوٹ پو ٹ ہوتا رہا۔

بہادر سپاہی کی یہ حالت دیکھ کر بہ ظاہر ساکت بیٹھے چور کے دل میں ہنسے کے پھوارے پھوٹ رہے تھے کہ اس نے بات چیت جاری رکھنا ضروری سمجھا،ورنہ اس کا خیال تھا کہ یہ قہقہے اس پر دھاوا بول دیں گے اور اس کا پورا کھیل بگڑ جائے گا۔اس نے پھر بہادرسپاہی کو جنت اور جہنم کے قصے سنائے،حوروں اور شہد کے ذائقہ کا بتایا۔طوفانوں اور زلزلوں اور قہر کی داستانیں بیان کیں اور قبر کے عذاب سے ڈرایا۔ بہادر سپاہی بھیڑ کے بچے کی مانند اس کے سامنے بیٹھا،رحم بھری نظروں سے گھورنے لگا۔چور اٹھا اور اس کا ہاتھ پکڑکر اسے اس دیوار کے پاس لے گیا،جہاں بوتل رکھی ہوئی تھی۔اس نے اسے وہاں کھڑاکرکے کہا۔

”یہی وہ مقام ہے کہ جہاں تم جھکوگے تو تمہارے تمام گناہ دھل جائیں گے۔تمہار مرتبہ بلندہوگا اور تمہیں دائمی خوشی حاصل ہوگی۔“

اس نے سپاہی کہ کندھوں سے پکڑکرنیچے کیا اور سپاہی یوں جھکتا چلاگیا کہ جیسے موم کا بنا ہوا ہو۔سپاہی گھٹنوں کے بل جھک کر پشت کو اونچا کیا تو وہ اس پر ٹانگیں رکھ کر چڑھا اور بڑے آرام سے اس خانے تک پہنچ گیا۔اس نے پندرہ سو برس پرانی،ابوجہل کی چھپائی ہوئی بوتل ہاتھ میں پکڑی اور چھلانگ لگاکر کھنڈر سے باہر نکل گیا۔

بہادر سپاہی وہیں یوں جھکا ہواتھا کہ جیسے فناہوچکا ہو۔

ماہنامہ سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*