سوشلزم کیا ہے

 

پہلی جنگِ عالمگیر کے اواخر میں لینن اور اس کے ساتھیوں کی انتھک کوششوں سے روس میں انقلاب برپا ہوا۔ زارشاہی اورجاگیرداری کا خاتمہ کرکے معاشرے کو ازسرِ نو اشتراکی اصولوں پرتعمیر کیا گیا۔ تمام املاک مشترکہ قراردے دی گئی اوربقول کارل مارکس “غاصبوں کی دولت غصب کر لی گئی”۔ سامراجی اقوام نے سفید روسیوں کے ساتھ مل کرانقلاب کو ناکام بنانے کی مہم جاری رکھی لیکن انہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ روسی کمیونسٹوں نے باقاعدہ منصوبہ بندی کرکے ملک کی زرعی اورصنعتی پیداوار میں اضافہ کیا اورعوام نے بڑے جوش و خروش سے شبانہ روزمحنت کرکے ان منصوبوں کو کامیاب بنایا۔ اب حال یہ ہے کہ اس وقت روس دنیا کا عظیم ترین ترقی یافتہ ملک سمجھا جاتا ہے۔ چین میں ماؤزے تنگ نے رجعت پرست سرمایہ داروں کا خاتمہ کیا۔ انقلاب کے بعد لوگ بے پناہ جذبہِ عمل سے سرشارہوگئے اوردیکھتے دیکھتے چین ایشیا کا عظیم ملک بن گیا۔ اشتراکیت کی درخشاں کامیابیوں سے ایشیا، افریقہ اورجنوبی امریکہ کے اکثر ممالک متاثرہوئے۔

اشتراکی ممالک میں اقتصادی پیداوار کے وسائل کسی خاص طبقے کے ہاتھوں میں نہیں ہیں۔ طبقات کی تفریق مٹ چکی ہے۔ املاک کے اشتراک سے جوعمرانی علائق پیدا ہوئے ہیں وہ قدرتا مساوات پر مبنی ہیں۔ بے کار اورعیش پرست دولت مندوں، گداگروں، طفیل خورمذہبی پیشواؤں اورعصمت فروش عورتوں کا استیصال ختم کردیا گیا ہے۔ یورپ اورامریکہ کے سرمایہ دار “جمہوریت پسند” اشتراکی ممالک پرتعریض کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اشتراکی معاشرہ جبر پرمبنی ہے اوراس میں شخصی آزادی کا فقدان ہے۔ اشتراکی ممالک میں جبر کا مفہوم یہ ہے کہ ہرشخص کوکام کرنا پڑتا ہے۔ اشتراکیوں کا کہنا ہے کہ “جو کام نہیں کرے گا وہ نہیں کھائے گا”۔ جمہوری ممالک میں عوام تو کام کرنے پر مجبور ہیں لیکن چند سرمایہ داروں کو عیش وعشرت کی آزادی حاصل ہے۔

سرمایہ دارانہ معاشرے میں عوام بے دلی سے کام کرتے ہیں کیوں کہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ کام کا پورا معاوضہ نہیں ملتا بلکہ ان کی محنت کا ثمر بیکار کارخانہ داروں کی جیب میں چلا جاتا ہے۔ اشتراکی معاشرے میں شخصی مفاد اجتماعی مفاد کے تحت ہوتا ہے اس لئے محنت تخلیقی وتعمیری صورت اختیار کرلیتی ہے۔ یہ احساس کہ وہ اجتماع کے عمومی فائدے کے لئے کام کررہا ہے ایک مزدورکی محنت کو مسرت آمیز بنا دیتا ہے اورمحنت تفریح بن جاتی ہے۔ وہ کام اس لئے کرتا ہے کہ کام کرنا ایک فطری تقاضا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان نے جو کچھ بھی ترقی کی ہے محنت کی بدولت ہی کی ہے۔ محنت وجہ معاش کا وسیلہ ہی نہیں ہے بلکہ زندگی کی ایک اہم فطری ضرورت بھی ہے۔ محنت انسان کی بہترین جسمانی اورذہنی صلاحیتوں کوبروئے کارلاتی ہے۔ سائنس دان ہو یا فنکار، کان کن ہویا بڑھئی وہ اپنی تمام ترصلاحیتیں معاشرے کی بہبود کے لئے وقف کردیتا ہے۔ اس کی محنت نہ صرف شخصی آسودگی کا باعث ہوتی ہے بلکہ معاشرے کی عمومی مسرت میں بھی اضافہ کرتی ہے۔ ان حالات میں جسمانی اورذہنی محنت کی تفریق مٹ سکتی ہے۔ ایک کاریگر کل بناتے وقت وہی مسرت محسوس کرتا ہے جو ایک موسیقار نغمہ لکھتے وقت کرتا ہے۔ قدیم معاشرے میں ان دونوں کے درمیان وسیع خلیج حائل کر دی گئی تھی۔ شعر کہنے، نغمہ الاپنے یا تصویرکھینچنے کو جسمانی مشقت پرفوقیت دی جاتی تھی۔ یہ تفریق غیرفطری ہے۔

اشتراکی ممالک میں پیشے کا انتخاب فرد کی صلاحیت کے علاوہ معاشرے کی ضروریات پرمنحصر ہے۔ ایک شخص پڑھنے لکھنے میں دلچسپی لیتا ہے تو وہ ایسا کام نہایت شوق اورمحنت سے کرے گا جس میں پڑھنا لکھنا ضروری ہو۔ اسی طرح ایک کند زہن مگر طاقتور شخص ایک عمدہ کان کن بنے گا اوراپنے کام میں مگن رہے گا۔ بعض پڑھے لکھے اشخاص جب کسی کان کن کی محنت کا تصورکرتے ہیں تواپنے آپ کوکان کن سمجھ کرکانپ کانپ جاتے ہیں اورکہتے ہیں کہ اشتراکی انقلاب کے بعد ہمیں کان کن بنا دیا گیا تو کیا ہو گا۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ کان کن جسے پڑھنے لکھنے سے مطلق کوئی دلچسپی نہیں ہے اپنا کام تفریح سمجھ کرکرے گا۔ اگر اسے تعلیم کے حصول پرمجبور کیا گیا تو وہ سمجھے گا کہ مجھ پرظلم کیا جا رہا ہے۔ افلاطون کا قول ہے: “مثالی معاشرہ وہ ہو گا جس میں ہرعورت اور ہر مرد وہی کام کرے گا جس کی وہ فطری صلاحیت رکھتا ہو۔”

محنت کوجبروہ بیکار سرمایہ دار سمجھتے ہیں جو دوسروں کی محنت کے بل بوتے پرعیش وآرام کی زندگی کے عادی ہو چکے ہیں۔ محنت کے ساتھ قہروجبرکا جو تصور وابستہ ہوگیا ہے وہ قدیم جاگیرداری نظام کی یادگارہے۔ جب محنت بیگار تھی اور محنت کش غلامی کی زندگی گزارتے تھے۔ اشتراکی معاشرے میں محنت کا تصوربہت کچھ بدل گیا ہے۔ اب محنت انسانی فطرت کا تقاضا سمجھ کر کی جاتی ہے۔ محنت کو جماعت کی بہبود کے لئے وقف کردیا گیا ہے اس لئے وہ دلچسپ فریضہ بن گئی ہے۔ یہ خیال کہ ایک شخص اپنے ہم قوم کی بہتری کے لئے محنت کررہا ہے، محنت کو عملی اخلاقیات کی اساس بنا دیتا ہے اوریہی اخلاقیات ہے جو ترقی پذیرمعاشرے کے صحت مند علائق سے صورت پذیرہوتی ہے اوپرسے نہیں ٹھونسی جاتی۔ کام یا محنت سے مفرکی کوئی صورت ممکن نہیں ہے کیوں کہ انسان مصروف رہ کرہی خوش رہ سکتا ہے۔ بے کار امیر بیٹھے بیٹھے بیزاری اوراکتاہٹ کے شکارہوجاتے ہیں اور اس سے بچنے کے لئے عیاشی کی دلدل میں غرق ہوجاتے ہیں۔ کام یا محنت سے ننگ وعار کا تصوربھی زرعی معاشرے سے یادگار ہے۔ قدیم چین اورروما میں امرا ہاتھوں کے ناخن بڑھا لیتے تھے تاکہ کسی کو یہ شبہ نہ گزرے کہ وہ ہاتھ سے کام کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں آج بھی ہاتھ سے کام کرنے والے کو کمینہ یا کمین (لفظی معنی ہے”کام کرنے والا”) کہا جاتا ہے اورجو شخص جتنا بے کاراورکاہل ہوتا ہے اتنا ہی زیادہ شریف سمجھا جاتا ہے۔ اب وہ زمانہ آگیا ہے کہ کام کرنے والے کو معزز وسرخرو اور بے کار کوحقیروذلیل سمجھا جائے گا۔

متذکرہ بالا تصریحات کی روشنی میں اس سوال کا جواب دینا آسان ہوگیا ہے کہ انسان کس نوع کے معاشرے میں حقیقتا آزاد ہے اور کس میں مقہورومجبور ہے۔ جاگیردارانہ اورسرمایہ دارانہ معاشرے میں عوام کی آزادی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ نام نہاد جمہوری ممالک میں مزدور اورکاریگر کارخانہ داروں کے رحم و کرم پرزندگی گزاررہے ہیں۔ اختصاصی مہارت نے اس انحصار کو غلامی میں تبدیل کر دیا ہے۔ ایک کاریگر جو کسی پرزے کا ایک جز ہی بنا سکتا ہے کارخانے میں کام کرنے پر مجبور ہے۔ اقتصادی اورصنعتی مسابقت کو یورپ اورامریکہ میں جمہوریت کی جان سمجھا جاتا ہے حالانکہ یہ آزادی بھی یک طرفہ ہے۔ چھوٹے صنعتکار میں اتنی سکت کہاں کہ وہ بڑے بڑے اجارہ داروں کا مقابلہ کرسکیں۔ ناچاروہ ان کے خیمہ بردار بن کر رہ جاتے ہیں۔ اس مسابقت کا بنیادی اصول یہ ہے کہ “دوسروں کو لوٹو ورنہ تم خود لٹ جاؤ گے، آقا بنو یا تمھیں غلام بننا ہو گا۔” حقیقت یہ ہے کہ جب تک شخصی املاک باقی رہے گی عوام کو سچی آزادی نصیب نہیں ہو سکتی۔ رابرٹ اوون (1771-1858) نے اشتمالی انقلاب سے بہت پہلے اس بات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا تھا کہ آغاز تاریخ سے ہی شخصی املاک ظلم و تشدد، مکروفریب، قتل و غارت اورعصمت فروشی کا باعث ہوتی رہی ہے۔ لارڈ رسل کہتے ہیں: “جب تک اقتصادی طاقت کے وسائل پرائیوٹ ہاتھوں میں رہیں گے کسی شخص کو آزادی نصیب نہیں ہو سکتی سوائے ان لوگوں کے جو ان وسائل پرقابض ہوں۔

ماہنامہ سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*