قلبِ عرب کی روشنی

       کچھ برس پہلے نجیب محفوظ کے ناول ”افراح القّبہ“ کا ترجمہ کرتے ہوئے آدھے راستے میں میری ہمت جواب دے گئی تھی۔ انسانی تعلقات پر پیوست خام خیالی، خوش فہمی، دوسرے کا سفّاک احتساب اور دور کہیں کہانی کے انجام پر ناول کے اہم کرداروں کی منتظر اٹل مایوسی اتنی شدید تھی کہ دل جھیل نہیں پارہا تھا۔ وہ ترجمہ مہینوں تک اسی لیے مکمل نہیں ہوسکا تھا۔

اتنی طاقت تھی نجیب محفوظ کے قلم میں! وہ قاری کو اس موڑ تک لے جاسکتے تھے جہاں روشنی کی ایک واحد کرن بھی نہ پہنچ سکے۔

جدید عربی ادب کے بارے میں ہم بہت کم جانتے ہیں۔ اگرنجیب محفوظ کو ادب کا نوبیل انعام نہ دیا جاتا تو شاید ہم ان کی یہ گِنی چُنی تحریر یں بھی نہ پڑھ پاتے جو انگریزی تراجم کے باعث ہم تک پہنچتی رہی ہیں۔یہ انعام جو انہیں 1988میں دیا گیا، غالباً انہیں نہ ملتا اگر وہ جمال عبدالناصر کے اتنے سخت ناقد اور عرب اسرائیل جنگ کے مخالف نہ ہوتے لیکن انعام دینے والوں نے جلدی کی۔ آگا پیچھا نہ سوچا۔ نجیب محفوظ استعماریت کے حامی نہیں تھے۔ نوبیل انعام پانے پر جو تقریر انہوں نے لکھی(کی نہیں۔ انعام لینے وہ خود سویڈن نہیں گئے تھے) وہ اتنی سیاسی تھی کہ سُننے والے چونک پڑے ہوں گے۔ انہوں نے سویڈن اور مغربی ممالک کو ”آلام و مصائب کے درمیان عافیت کے جزیرے“ قرار دیا۔ انہوں نے کہا:

”ہمارے مصائب کے تماشائی نہ بنیے۔ اس دور کے رہنماؤں پر پورے کرہ ارض کی ذمہ داری ہے۔ جنوبی افریقہ میں غلام بن جانے والوں کو بچائیے۔ افریقہ میں بھوکی انسانیت کو بچائیے۔ فلسطینیوں کو گولیوں اور تشدد سے بچائیے، بلکہ اسرائیلیوں کو اپنے عظیم روحانی ورثے کو داغ دار کرنے سے بچایئے“۔

مغرب میں اور ہمارے یہاں بھی نجیب محفوظ کے ایسے مدّاح ہیں جو ان کی سب سے اہم خوبی اس صلاحیت کو ہی ماننا چاہتے ہیں کہ وہ رنگا رنگ کردار تخلیق کرسکتے تھے اور، ایک پُرانے، شہر کے گلی کوچوں کو اپنے قلم سے کاغذ پر اتار کر انہیں ”ابدیت“ بخش سکتے تھے۔ ایک قصہ گو کے لیے یقینا یہ ایک بلند درجہ ہے۔ شاید ان کی اپنی بھی یہ آرزو تھی کہ وہ صرف ایک بے مثال قصہ گوکی حیثیت سے یاد رکھے جائیں جو شہر زاد کی طرح ایک ہزار ایک کہانیاں سُنا سکتا ہو اور طرح طرح کے ان گنت کرداروں اور گلی کوچوں کو صدیوں تک کاغذمیں قید کر لے۔ 1992میں ”دی پیرس ریویو“ نامی جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے جب ان سے آخری سوال پوچھا گیا کہ آپ اپنی تعریف کس طرح کرنا پسند کریں گے، تو انہوں نے کہا:

”ایک ایسا شخص جو ادب سے محبت کرتا ہے، جسے اپنے کام پر یقین ہے اور جو اس سے مخلص ہے۔ میں سب سے زیادہ پیار لکھنے سے ہی کرتا ہوں۔ چاہے میرے اچھے دوست ہوں، مجھے سامانِ عیش میسّر ہو، میں دُور دراز کے سفر کروں، لیکن ادب کے بغیر میری زندگی ایک عذاب ہوگی۔ بڑی عجیب بات ہے۔ لیکن ادیب ایسے ہی ہوتے ہیں“۔

لیکن سب ادیب نجیب محفوظ کی طرح نہیں ہوتے جنہوں نے صرف الف لیلیٰ جیسی رنگین اور ہوش رُبا مہمات کی داستانیں نہیں لکھی تھیں۔ وہ اپنے عصر کے زائیدہ تھے جو عالم عرب کے لیے، اذیت اور ذلّت کا دور تھا، اور ہے۔ نجیب محفوظ 1911میں پیدا ہوئے۔ 1939میں ان کا پہلا ناول ”عبث الاقدر“ شائع ہوا۔ جس کا پس منظر فراعین مصر کا زمانہ تھا۔ نجیب اس طرح کی تیس یا چالیس ناولوں میں فراعین مصر کی تاریخ لکھنا چاہتے تھے۔ اس طرح کی صرف تین ناولیں انہوں نے لکھیں اور اس کے بعد یہ ارادہ ترک کردیا۔ لیکن مصر کے سیاسی اور سماجی حالات ان کی تقریباً ہر تحریر کے تارو پود میں گندھے رہے۔ ہوش سنبھال کر نجیب نے قوم کو انگریزوں کی غلامی میں پایا تھا۔ اس کے خلاف جدوجہد کرنے والی وفد پارٹی اور اس کے سربراہ زاغلول پاشا کے وہ دل سے حامی تھے۔

نجیب محفوظ کی سب سے پہلے عرب دنیا میں شہرت پانے والی قاہرہ کے بارے میں تین سلسلہ وار ناولیں، ”بین القصرین“،”قصرِ شوق“ اور ”سکریہ“ 1957تک شائع ہوئیں۔ ان ناولوں میں نجیب نے السید احمد عبدالجوّاد اور اس کے بیٹے کمال کی زندگی کی داستان سنائی ہے، اور یہ بھی کہ ملک کے سیاسی حالات کا اتار چڑھاؤ، ان کی زندگیوں پر کس طرح اثر انداز ہوتا رہا۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے بتایا:

”(ان تین ناولوں کا جواں سال کردار) کمال میری نسل کی نمائندگی کرتا ہے۔ ہمارے خیالات، ہمارے انتخاب، ہماری کش مکش اور نفسیاتی بحران، اس طرح وہ کردار مجھ سے مماثل ہے۔ لیکن ذہنی طور پر میں اس کے باپ عبدالجوّاد سے بھی نزدیک ہوں۔“ (دی پیرس ریویو، 1992)

وہ گہرائی اور گیرائی رکھنے والی شخصیت تھے اور دو نسلوں اور کئی زمانوں میں بیک وقت زندہ رہ سکتے تھے۔ نوبل انعام کی تقریر میں انہوں نے کہا:

”میں دو تہذیبوں کافر زندہوں، قدیم مصری تہذیب اور اسلامی تہذیب۔۔۔“

لیکن اس حیران کن اتصّال پر بیرونی طاقتوں کی غلامی کی تذلیل اور اسے ختم کرنے کی ہرکوشش کی ناکامی سے پیدا ہونے والی مایوسی محیط تھی۔ وہ دوستو ئیفسکی کی طرح انسانی روح کے تاریک ترین گوشے میں اُتر سکتے تھے لیکن دوستو ئیفسکی کی طرح تیرگی کے آخری سرے پر مذہب میں ”روشنی کی کرن“ نہیں دکھاتے تھے۔نجیب محفوظ گزشتہ صدی میں بیرونی تسلط سے آزاد ہونے والے پس ماندہ ممالک اور قوموں کی اذیت ناک کش مکش کے چشم دید گواہ بھی تھے اور ایک فعال ادیب کی حیثیت سے اس کے ایک کردار بھی تھے۔ افریقہ، ایشیا، مشرق وسطیٰ کی سرزمینوں پر پھیلا یہ عالمِ انسانیت جو تیرگی میں ہاتھ پیر مارتا رہا ہے، جو کبھی کسی تحریک کے زیر اثر اجتماعیت کا واضح یا مبہم شعور حاصل کر کے غربت اور ناطاقتی کی دلدل سے ابھرنے کی کوشش کرتا  بھی ہے تواپنے معروضی حالات سے پیدا ہونے والی مہیب قوتوں کے باعث بار بار ناکام ہوجاتا ہے۔ بلاشُبہ اس ناکامی میں امپیریلسٹ طاقت بھی اہم کردار ادا کرتی رہتی ہے  جس کے بغیر اس کہانی کا رُخ بدل بھی سکتا تھا لیکن ان معاشروں کے اندرونی تضادات اس تیرگی کے  بنیادی محرک ہیں جو ہمارے ادیب کے قلم میں سما سکتی تھی۔ 1961میں نجیب محفوظ کی شائع ہونے والی طویل مختصر کہانی ”اللّیس والکلب“ (چور اور کتّا) ایسی ہی دل ہلا دینے والی تحریر ہے جس میں انسان کی اذّیت اتنی شدید ہے کہ موت بھی اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ یہ ایک عام عرب نوجوان کی کہانی ہے جسے اس کے انقلابی دوست اور رہنماء معاشرے سے جنگ کرنے کا سبق پڑھاتے ہیں۔ وہ چوری کرنے لگتا ہے اور جیل چلا جاتا ہے۔ رہائی کے بعد وہ ایک بدلی ہوئی دُنیا میں قدم رکھتا ہے۔اس کے ساتھ ہر شخص نے بے وفائی کے ہے۔ اس کی بیوی دوسری شادی کر چُکی ہے، اور اس کا انقلابی لیڈر اب حکومت وقت کا مال دار اتحادّی ہے۔ اس لیڈر کے گھر آخری چوری کی کوشش کرنے کے بعد وہ پولیس کے ساتھ آخری جھڑپ میں اس طرح مارا جاتا ہے کہ کسی زخمی درندے کی طرح رات کی تاریکی میں، جھاڑیوں میں چُھپا ہوا ہے اور جو آخری آواز اس کے کانوں میں آرہی ہے وہ دُور اندھرے میں چھپے کتّوں کے بھونکنے کی آواز ہے۔

مگر تیرگی اس فقید المثال ادیب کا واحد وصف نہ تھا۔ ان کی بے پناہ تخلیقی قوت اور لگن میں مزاح کی چاشنی بھی موجود تھی، جس سے وہ کسی گراں موضوع کو پھول کی طرح ہلکا بنا سکتے تھے۔

نجیب محفوظ نے بیسویں صدی میں استعماریت، اور عرب معاشروں کی اندرونی کش مکش سے، ایک ہاری جانے والی جنگ سے پیدا ہونے والی قلب ِ عرب کی تیرگی کو کاغذ پر اُتار دیا ہے۔ نجیب کے ناول ”اولاد حراتینہ“(children of Geblawi) پر عرب دنیا میں ایک ہنگامہ برپا ہوگیا۔ ما سوا لبنان کے، جہاں یہ ناول 1959میں شائع ہوئی تھی، اسے تمام عرب ممالک میں ممنوع قرار دے دیا گیا تھا۔ یہ ایک بہت دل چسپ اور پُر لطف ناول تھا جس میں خدا اور سامی پیغمبروں کو عام انسانوں کے روپ میں پیش کیا گیا تھا۔ جیلاوی، (یاگبلاوی) ایک سر پھرے رئیس ہیں جو اپنی اولاد پر ناراض ہو کر انہیں سخت سزائیں دیتے رہتے ہیں۔ وہ انہیں اپنے بہت خوب صورت گھر سے نکال بھی دیتے ہیں۔ یہ اولاد صحرا میں بھٹکنے کے بعد ایک شہر بساتی ہے جہاں شہر کا نظام درست طریقے پر چلانے کے لیے جبلاوی ایک وقف قائم کرتے ہیں۔ حضرت موسیٰؑ، حضرت عیسیٰؑ اور رسول اللہ ؐ سے مماثل افراد اس وقف کو چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ (ان میں رسول اللہ سے مماثل شخصیت سب سے زیادہ کامیاب رہتی ہے) لیکن ان کے بعد بستی میں ہمیشہ کی طرح غربت ونکبت کا دور دورہ قائم ہوجاتا ہے جب کہ شہر کے باسی دور پہاڑ پر بنے قصر جبلاوی کی طرف اوپر اشارہ کرتے ہوئے فریاد کرتے رہتے ہیں کہ ”جبلاوی گواہ ہے کہ اس وقف کی دولت پر ہم سب کا پورا حق ہے“‘۔

ان سب کو بڑا ذہنی دھچکہ تب پہنچتا ہے جب جبلاوی کا انتقال ہوجاتا ہے۔ ایسا تو کسی نے کبھی سوچا تک نہ تھا۔ اب لوگوں کے پاس یہ اُمید بھی باقی نہیں رہی کہ جبلاوی ان کی گواہی دے سکے گا۔ اس وقف کو بہر حال انہیں اب بھی ٹھیک طرح سے چلانا ہے اور اس کی کوشش جاری رکھنی ہے، کیونکہ جبلاوی کی رضا یہی تھی۔

اس ناول پر شدید ردّ عمل ہوا اور نجیب محفوظ پر قاتلانہ حملہ بھی کیا گیا جس سے وہ بال بال بچے۔ نجیب محفوظ کی جو پُر زور مذمت کی گئی۔ اس میں ایک دلچسپ اعتراض یہ بھی تھا کہ ناول میں حضرت عیسیٰ ؑ سے مماثل کردار کا نام”ارفع“ تھا جس سے یہ تاثر پیدا ہوسکتا تھا کہ وہ ان کرداروں سے بہتر تھے جن کا نام ”ارفع“نہیں تھا۔

جب نجیب محفوظ سے پوچھا گیا کہ وہ اس ناول میں کیا کہنا چاہتے تھے تو انہوں نے کہاتھا:

”میں اس کتاب میں دکھانا چاہتا تھا کہ سائنس کا بھی معاشرے میں ایک مقام ہے اور ضروری نہیں کہ سائنس مذہبی اقدار سے ٹکراؤ میں آئے۔ میں قاری کو قائل کرنا چاہتا تھا کہ سائنس کو ٹھکرا کر ہم عام آدمی کو بھی مسترد کردیں گے۔ بد قسمتی سے اس کے بالکل غلط مطالب ایسے لوگوں نے نکالے جن کو ادب پڑھنے کا قرینہ ہی نہیں آتا۔ یہ کہانی پس ماندہ علاقوں اور ان کے چلانے والوں کے بارے میں ہے،لیکن یہ تصور کرلیا گیا کہ یہ کہانی پیغمبروں کے بارے میں ہے“۔

(دی پیرس ریویو 1992)

کیا نجیب محفوظ مذہب کے خلاف تھے؟ اسی انٹرویو میں انہوں نے کہا:

”مذہب کا تعلق صرف جذبات سے نہیں، ترقی اور تہذیب وتمدن سے بھی ہے۔ میں آپ کو اعتماد میں لے کر بتا رہا ہوں، میں مذہب کو ایک لازمی انسانی رویہ سمجھتا ہوں۔۔“

مگر انہوں نے یہ بھی کہا:

”بدقسمتی سے، فی الوقت مذہب کی جو تفہیم کی جاری ہے وہ بیشتر پس ماندہ ہے اور تہذیب کے تقاضوں کی نفی کرتی ہے۔۔“

نجیب محفوظ نے اپنی تحریر میں ”جبلاوی کے اولاد“ سے پہلے یا بعد میں مذہب کو نہیں چُھوا۔ ان کی دلچسپی کامرکز ملک کے سیاسی حالات ہی رہے جن کو وہ مشاقی اور چابک دستی سے تراشے ہوئے کرداروں اور ان کے حالات کے ذریعے پیش کرتے رہے۔ ”افراح القبہ“ میں جمال عبدالناصر کے دور کے حالات نظر آتے ہیں۔ 1973میں شائع ہونے والی ان کی ناول ”الحب تحت المطر“ (بارش میں محبت) میں 1967کی جنگ میں شکست کے بعد ایک شکستہ دل اور زخم خوردہ عزّت نفس کی اذیت سہتی قوم کا نقشہ مرتسم ہے۔ اس سے دس برس قبل 1967میں شائع ہونے والی طویل مختصر کہانی ”میرا مار“ ایک جوں سال دیہاتی محنت کش عرب لڑکی کے روپ میں مصر کی تمثیل ہے جس سے معاشرے کا ہر طبقہ فائدہ اٹھانا چاہتا ہے، لیکن اپنے اندرونی تقاضوں اور طبقاتی جبر کے باعث اسے کوئی بھی اپنا نہیں بنا سکتا اور نہ اس کی زندگی میں مسرت لاسکتا ہے۔

نجیب محفوظ کی تحریر میں جمال عبدالناصر کا دور ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ وہ ناصر جو کوئی معمولی آدمی نہ تھے۔ وہ ایسے رہنما تھے جن کے لیے مصری مبصروں نے لکھا کہ ان کے باعث ”مصر دو ہزار سال کے بعد بیرونی تسلط سے حقیقی آزادی حاصل کرسکا“۔ تاریخ کے مبصرین کے مطابق مصر میں نئے استعماری دور کا آغاز 1798میں نپولین کے حملے سے ہوا تھا۔ 1883سے1914تک مصر براہ راست برطانیہ کا زیر نگیں تھا۔ 1922میں مصر کو برائے نام خود مختاری دی گئی اور ایک کٹھ پتلی ”آئینی بادشاہت“قائم کردی گئی۔ 1952میں جمال عبدالناصر نے فوجی انقلاب کے ذریعے اس شہنشاہیت کا تختہ اُلٹ دیا۔ انہوں نے نہر سوئز کو قومی ملکیت میں لے کر سامراجی حکمرانوں کو ایسی تشویش میں مبتلا کردیا کہ وہ مصر پر حملہ کرنے کے درپے تھے لیکن اس وقت کے بین الاقوامی حالات نے مصر کو سرخرو کیا تھا اور فرانس، برطانیہ اور اسرائیل نے حملے کا ارادہ ترک کردیا تھا۔ جمال عبدالناصر، ٹیٹو، نہرو اور سویکارنو کی طرح نو آزاد قوموں کے ایک ایسے ہیروبن کر ابھرے تھے جنہوں نے طاقتور سامراجی مغرب کی کاسہ لیسی کو مسترد کردیا تھا۔ لیکن اس تصّور کا ایک دوسرا اند وہ ناک رُخ بھی تھا۔ مصر کا یہ سامراج مخالف انقلاب نہ تو ملک میں سوشلزم لاسکا تھا اور نہ سانس لینے کی آزادی۔ اس دور میں نجیب محفوظ کیسا محسو کرتے تھے؟

”ناصر کے دور میں انسان دیواروں سے بھی خوف کھاتا تھا۔ ہر شخص خوف کھاتا تھا۔ ہر شخص خوف زدہ تھا، ہم کیفے میں بیٹھ کر بات کرنے سے خوف کھاتے تھے۔ ہم گھر پر بات چیت کرنے سے ڈرتے تھے۔ میں انقلاب سے پہلے کے حالات کے بارے میں اپنے بچوں سے بات کرنے سے ڈرتا تھا، مباد اوہ اس کا ذکر سکول میں کریں جس کا غلط مطلب اخذ کرلیا جائے۔“

ناصر کا کہنا تھا:

”ہم چاہتے ہیں کہ پوری قوم فردِ واحد بن کر سوچے اور عمل کرے“۔

لیکن یہی تو اُن کی سب سے بڑی غلطی تھی، اور یہی تو عالم عرب کا سب سے بڑا اندرونی تضاد ہے۔ اور شاید استعماریت سے مستحکم نجات کے راستے میں ایک ناقابل عبور سدِراہ بھی۔ ذلّت، نامرادی، اور گھٹن کے اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں عرب قلمکاروں کے شاہکار روشنی کی کرن بن کر پھوٹتے ہیں۔ بالکل جس طرح ”افراح القبہ“ کے آخری صفحات میں، ناول کا جواں سال ہیرو، اپنی تحریر کے بالآخرکامیاب ہوجانے کے بعد، خودکشی کا ارادہ کرنے کے بعد اور ایک خط میں اس ارادے کو تحریر کرنے کے بعد، اپنے آپ کو ختم نہیں کرتا۔ وہ ایک باغ کی بینچ پر گہری نیند سوجاتا ہے۔ اور جب وہ بیدار ہوتا ہے تو خود کو ایک روشن، شاداب دنیا میں پاتا ہے۔ اس کی تخلیقی قوتیں زندہ ہیں اور اسے زندہ رہنے پر مجبور کرتی ہیں۔ یہی قلبِ عرب کی روشنی ہے۔ ”افراح القبہ“ کا ترجمہ ان آخری صفحات کے باعث مکمل ہوگیا تھا۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*