سماجی تبدیلی کے لوازمات

 

سائنس ڈنڈے ماری کی اُلٹ چیزہے ۔ اس میں سندھی زبان کے فقرے ’’رکھ مرشد ءَ تے‘‘ کا اطلاق نہیں ہوتا ۔ سائنس اِس بات کو بھی نہیں مانتی کہ’’ فی الحال جدوجہد کرتے ہیں، باقی اُس وقت دیکھیں گے‘‘۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ سائنس نتائج نہیں طریقہِ کار دیکھتی ہے ، (میتھڈا لوجی، ناٹ رزلٹ)۔ لہذا بالخصوص سماجی سائنس میں کوئی ’’اچانک ‘‘ کو دجانے والا فلمی ہیرو نہیں ہوتا۔ بلکہ شخصیت تو فیصلہ کن ہوتی ہی نہیں۔ سماج میں کوئی کام ، جی ہاں انقلاب سمیت کوئی کام اچانک ، اتفاقیہ یا حادثاتاً نہیں ہوتا۔ چھینکنا کھانسنا، حتی کہ خود حادثہ بھی حادثاتاً نہیں ہوتا۔ ہر بات کے پیچھے سبب موجود ہوتے ہیں۔ کبھی ظاہر اور کبھی پوشیدہ ۔ ایسے ’’سبب‘‘ جن کی تشریح ہوسکتی ہو۔
اسباب کا قوانین سے بہت گہرا تعلق ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سب کچھ قوانین کے تحت ہوتاہے ۔ ایسے قوانین جو کسی جادو گرکے کرتبوں سے تبدیل نہیں ہوسکتے، پیر کی دم چُھوسے انہیں بدلا نہیں جاسکتا اور نہ کسی سینٹ سادھو کے مہربان یا غضبناک ہونے سے اُن کی رفتار اور راستے میں کوئی تغیر برپا ہوسکتا ہے ۔۔۔سختی سے قوانین کے تابع دنیا۔
اور دنیا کا، اشیا کا، واقعات کا سب سے بڑا اور بنیادی قانون’’ارتقا‘‘ ہے ۔ ارتقا ’’خیر‘‘ ہے ۔ ارتقا میں کسی طرح کی بھی دشمنی ’’شر‘‘ ہے ۔ لہذا ساری جدوجہد ، جنگیں، شخصی بقا کے لیے سٹر گل دراصل اسی خیر وشر کے بیچ جدوجہد ہے ۔ یعنی چیزیں، اجسام اور حالات ارتقا مانگتے ہیں مگر ’’شر ‘‘ کی قیادت میں ایک پوری رجمنٹ ایسا کرنے نہیں دیتی۔ لہذا دونوں کے بیچ ازل سے زندو مرگ والی جدوجہد جاری ہے ۔ مگر اس جدوجہد کے اپنے اصول اور قوانین ہیں۔انہی قوانین کو اگر’’خیر ‘‘ نے سمجھ کر سوچ کر استعمال کیا تو جیت خیر (ارتقا) کی ہے اور اگر اُس کے دشمن نے اُن قوانین کو اچھی طرح سمجھا اور حالات پر ٹھیک ٹھیک اطلاق کیا تو وہ جیت جاتا ہے ۔ کبھی کبھی جب دونوں اِن قوانین کو ٹھیک ٹھیک برتتے ہیں، یا دنوں ہی غلط برتتے ہیں تو دونوں ہی برباد ہوجاتے ہیں۔اور ازل سے جاری یہ کھیل ایک بارپھر نئے سرے سے شروع ہوجاتا ہے۔
یہ جو قوانین ہوتے ہیں ناں،یہ سو فیصد زمینی ہوتے ہیں، دنیاوی ہوتے ہیں۔یعنی ساری الائیں بلائیں یہیں سماج کی کوکھ سے ہی جنم لیتی ہیں۔ رام اور راونڑ کی لڑائی جیسی اساطیری داستان میں جس قدر اساطیری آمیز شیں ہوں مگر پوری طویل جنگ دنیاوی قوانین کے مطابق ہوتی ہے ۔ یعنی قوانین صرف اور صرف دنیا کے ہوتے ہیں ، بیرونِ دنیا کے بالکل بھی نہیں ۔او ریہ قوانین بھی دنیا کے اندرونی تضادات سے جنم لیتے ہیں۔
جب آپ سماج میں تبدیلی کے موضوع پہ بات کررہے ہیں تو اصل میں آپ سماج کے متعلق بات کر رہے ہیں۔ اور سماج کا سیکریٹری جنرل توانسان ہے ۔ انسان ، متحرک انسان۔ انسان معاشی سرگرمیاں کرتا ہے ، اُس سے سماجی معاملات پیداہوتے ہیں اور سیاست پید اہوتی ہے ۔یعنی انسانی معاشی سرگرمی دنیا میں خروشر کی ہر لڑائی کا مرکزہ ہوتی ہے ۔
معاشی سرگرمی ایک معاشی نظام کو جنم دیتی ہے ۔ اِس معاشی نظام میں معاشی طبقات پیدا ہوتے ہیں، اِن طبقات میں باہمی تضاد ہوتے ہیں اور انہی تضادات سے طبقاتی کشمکش پیدا ہوتی ہے ۔ ساری سیاست ، صحافت ، ثقافت ، صلح جنگ، اخلاق ، ہلاکت اسی طبقاتی کشمکش کے حاملہ پیٹ سے پیدا ہوتے ہیں۔
سادہ بات یہ ہے کہ سارا جھگڑا ، ساری تقریریں ،ترانے گانے اس بات سے وابستہ ہیں کہ جہاں جہاں پیداوار ہوتی ہے وہ پیداواری جگہ (فیکٹری، کھیت ) کی ملکیت کس کی ہے ۔ آیا وہ مشترکہ ہے یا شخصی۔اگر پیداوار کی جگہ زمینیں ہیں اور وہ زمینیں ایک شخص کی ہیں، اوربقیہ آبادی محض بزگر ہے تو وہ نظام فیوڈل کہلائے گا۔ اسی طرح اگر پیداوار کی جگہ فیکٹری اورکار کانے ہیں اور اگر اُس کی ملکیت نجی ہے تو اسے کپٹلزم کہتے ہیں۔
چنانچہ طبقاتی کشمکش سماج میں ارتقا اور انقلاب کا بنیادی سبب بنتی ہے ۔ مگر یہ طبقاتی کشمکش اکیلی انقلاب نہیں لاسکتی ۔سماجی تبدیلی یا انقلاب ایسے ہی ’’سَٹی‘‘ میں نہیں آتے ۔انقلاب کے لیے طبقاتی کشمکش ایک چوکھاٹ کی محتاج رہتی ہے۔ ایک خاص حالت آجاتی ہے جب تبدیلی کے امکانات روشن ہوجاتے ہیں۔ اُن میں سے ایک تو یہ ہے کہ محنت کرنے والا طبقہ نظام میں نشوونما پاتا رہتا ہے ۔ جب وہ جب اپنی نشوونما کے ایک خاص مرحلے میں مالک طبقات کے قائم کیے ہوئے سارے نظام کے ساتھ متصادم ہونے لگتا ہے اور یہ سارا نظام اِن محنت کرنے والوں کی ترقی میں مددگار بننے کے بجائے رکاوٹ بن جاتا ہے تب اُس سارے نظام کو ڈھادینے کے علاوہ کوئی اورراہ نہیں رہ جاتی ۔ کیونکہ محنت کرنے والے بہت ترقی کرجاتے ہیں اور نظام وہیں کاوہیں رہتا ہے ۔ جب دونوں میں مطابقت نہیں رہتی تو ارتقا رک جاتا ہے ۔ اور ارتقا کے بغیر تو زندگی ختم ہوتی ہے ۔چنانچہ محنت کرنے والوں اور نظام میں مطابقت پیدا کرنے کے لیے سماجی انقلاب کا برپا ہونا لازمی بن جاتا ہے ۔ تب یہ نظام ٹوٹ جاتا ہے ،اورمحنت کرنے والوں کی ارتقا کی سطح کی مطابقت میں،اور ارتقا پذیری کو مہمیز دینے والا نظام قائم ہوجاتا ہے ۔ دونوں کی مطابقت میں پیداواری قوتوں کی نشونما ہونے لگتی ہے۔تب سماجی تبدیلی کا دور شروع ہوتا ہے ۔
اس لیے سماج کے معاشی نظام اور اس معاشی نظام کے تضادات کو تلاش کرنا اور معاشی نظام کے طبقات اور ان کی باہمی کشمکش کا مطالعہ کرنا ضروری ہے ۔
یہاں دیکھیے تو ہمارے سماج کا انتظام جا گیرداروں ، سرمایہ داروں اور سامراج کے ہاتھ میں ہے ۔ اس سماج میں دوسرا حصہ مزدور، کسان، ماہی گیر، اورچرواہوں جیسے محنت کرنے والوں پر مشتمل ہے ۔ یہ دونو ں طبقات مفاد کے لحاظ سے ایک دوسرے سے متضاد ہیں۔ انہی تضادات کی وجہ سے یہ دونوں آپس میں گتھم گتھاہیں۔
محنت کرنے والوں اور مالکوں کے اندر پیدا ہونے والے تضادات ہمیشہ اپنا اظہار طبقاتی مفادات کے تصادم کے بطور کرتے نظر آتے ہیں۔ محنت کرنے والے میں شعور آجاتا ہے ۔ وہ نجات کے نظریات کی تلاش میں ہوتا ہے ۔ اور پھر وہ اس شعورو نظریات کی قیادت میں مالک طبقات سے بھڑ جاتے ہیں۔ محنت کرنے والے چاہتے ہیں کہ نجی ملکیت کے خاتمے سے وہ جبر واستحصال کی زنجیریں توڑ دیں اور سماجی قوتوں کی از سر نو تنظیم کریں ۔ اور اس تصادم کا بلندترین اظہار سماجی انقلاب ہے۔
اِس طویل طبقاتی لڑائی میں دانشور ، ادیب، شاعر اور دیگر روشن فکر انٹلی جنشیاکا کوئی بنیادی رول نہیں ہے۔ اِن کابس اتنا سا کام ہے کہ اَن پڑھ اکثریت والے محکوم طبقے کو گمراہ نہ کریں ۔ اُن دونوں طبقات کے مفادات کے ٹکراؤ کو نہ چھپائیں اور سماج میں طبقات کی بنیاد پہ موجود تضادات کو کند کرنے سے احتراز کریں ۔ وہ جتنا زیادہ زور آوراور زیردست طبقات کے درمیان مفادات کے تضاد کے انکشاف پر زور دیں گے، اتنی ہی جلد یہ طبقاتی تضاد آگے بڑھے گا اور محنت کش اپنے طبقاتی شعور کی مدد سے اپنے طبقاتی دشمن کو شناخت کر لیں گے۔
اگر اسی موقع پر ایک بات کی وضاحت کردی جائے تو آگے چل کر مسائل پیدا نہیں ہوں گے ۔ وہ وضاحت یہ ہے کہ آیا مالک طبقات وعظ سے، تقریر سے، اللہ کے واسطے دے کر ، یاری دوستی میں اس بات پہ قائل کیے جاسکتے ہیں کہ وہ ملکیت اور حکمرانی سے رضا کارانہ طور پر دستبردار ہوجائیں؟ ۔وہ انسانیت اور انسانی بھائی چارے کے طفیل ، ہم مذہب اور ہم وطن اور ہم قوم ہونے کے محابے سے یہ سب کچھ ترک کردیں گے؟۔ تاریخ اور قوموں کے تجربے بتاتے ہیں کہ ایسا ہر گز نہیں ہوتا۔ وہ نہ صرف اپنی ملکیت اور ملکیتی اقتدار کے لیے لڑتے ہیں بلکہ اپنی اس طبقاتی لڑائی میں ریاست کو بھی گھسیٹ لاتے ہیں۔ یعنی وہ عدلیہ ، میڈیا، فوج، اسمبلی ،پنڈت ، پیر سب کو اس لڑائی میں جھونک دیتے ہیں۔یعنی لُٹ جانے والا طبقہ اپنے شعور، آرگنائزیشن اور کثیر تعداد کے بل بوتے پر بالادست طبقہ کو اقتدار سے بے دخل کرنا چاہتا ہے اور حکمران طبقہ اپنی پوری ریاستی مشینری کی مدد سے اُن کی ’’بغاوت‘‘ کو کچل ڈالنے کی لڑائی لڑتا ہے ۔کسی بھی جدوجہد، بغاوت ،الیکشن یا انقلاب کا بنیادی سوال ریاستی اقتدار پر قبضے کا سوال ہے ۔ باقی تو بس زیبِ داستان ہے ۔ کسی بھی انقلاب کی روح اقتدار کا حصول ہے ۔
صرف بنیادی انقلابی تبدیلیوں کے ذریعے ہی پرانے رجعت پرستانہ سماجی نظام کو ختم کیا جاسکتا ہے اور ایک نئے ترقی پسند سماجی نظام کو ناقد کیا جاسکتا ہے۔ اور وہ معاشی اور طبقاتی تضادات جو پرانے سماج کی ترقی کے طویل دور میں پختہ اور گہرے ہوتے ہیں۔ انہیں سماجی انقلاب کے بغیر حل نہیں کیا جاسکتا ۔
سماجی انقلاب سماجی زندگی میں زبردست اہمیت رکھتے ہیں۔ سماجی انقلاب کے دوران عوام کی تخلیقی صلاحیتیں بیدار ہوتی ہیں اور وہ سماجی زندگی کی تبدیلیوں میں باشعور اور بامقصد حصہ لیتے ہیں۔سماج کی تبدیلی کا عمل سماجی انقلاب کے باعث تیز ہوجاتا ہے ۔
انقلاب ایک بدبخت خونریزی (انقلاب سے پہلے ، انقلاب کے دوران ،یا بعداز انقلاب ) کے بغیر ممکن نہیں۔ لکھ کر لیجیے کہ انقلاب پوسٹ آفس میں خط ڈالنے کا نام نہیں ہے کہ وہ خود بخود آگے ڈلیور ہوجائے گا۔ نہ ہی انقلاب کسی لیڈر کی مرضی کا محتاج ہے کہ حکم دیا ’’ہوجاانقلاب‘‘اور ’’ہوگیا انقلاب‘‘ ۔
طبقاتی کشمکش کے سماجی تبدیلی یا انقلاب میں صفتی تبدیلی کے لیے کچھ شرائط کا پورا ہونا لازمی ہے ۔ کچھ لوازمات کی تکمیل کے بغیر تبدیلی ممکن نہیں ہوتی ۔
یہ شرائط ولوازمات ڈھائی ہیں :
ایک :کوئی تبدیلی یا انقلاب ’’انقلابی صورتحال‘‘ کے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔
انقلابی صورتحال اُس وقت وجود میں آتی ہے:۔
۔1۔جس وقت دبے اور کچلے ہوئے طبقات بڑھتی بھوک بیماری، غربت اور افلاس سے عاجزی کی آخری حدوں کو پہنچ جائیں ۔۔
۔2۔ اِس حد تک کہ وہ از خود کاروائیاں کرنے لگیں اور بحرانی حالت کو انقلابی صورت دینے کی طرف بڑھیں۔۔
۔3۔ اور جب حکمران طبقات کے لیے اپنی حکمرانی ، عیش اور کروفر برقرار رکھنا ناممکن ہوجائے۔
یعنی حکمران کمزور، پسپا اور بے بس ہوتے جائیں اور مظلوم طبقہ زور آور، اورانقلابی اقدامات کے لیے سرگرم اور متحرک ہوجائے ۔
دو: سماجی انقلاب کے لیے دوسری ضروری چیز انقلابی صفوں کی حالت ہے ۔ جولوگ (یعنی مزدور طبقہ) سماجی انقلاب لا رہے ہیں ،کیا وہ انقلاب کی قیادت کے اہل ایک تجربہ کار اور منجھی ہوئی منظم سیاسی پارٹی رکھتے ہیں؟ ۔اور کیا اُن کا طبقہ بڑے پیمانے پر انقلابی کاروائی کے لیے تیار کھڑا ہے ۔ یعنی وہ سیاسی طور پر باشعور ، معاشی طور پر معذور ،اور اپنی حالت بدلنے کے لیے کچھ کر گزرنے کو تیار ہے؟ ۔اور کیا اُس نے ایسے ہی حالت میں موجود کسان طبقہ ، عورت، مظلوم قومیتوں اور روشن فکر دانشوروں سے پکا اتحاد کر لیا ہے۔ اس سارے پیراگراف کو ’’موضوئی صورتحال‘‘ کہتے ہیں۔
ویسے موضوعی صورتحال موجود نہ ہو تو انقلابی صورتحال بھی موجود نہیں ہوتی۔ اس لیے اہم تو موضوعی حالت کا موجود ہونا ہے ۔ مگر میں یہ کہہ کر ’’انقلابی صورتحال ‘‘کو کسی صورت بھی کم اہم نہیں کر رہا ۔
ڈھائی واں:اوپر بیان کردہ دونوں شرائط سماج کے’’ اندرونی ‘‘لوازمات تھے جو ایک سماجی انقلاب کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ ایک ڈھائی ویں شرط بھی بہت اہم ہوتی جارہی ہے ۔ ہوایوں کہ اب ویسے تو بالعموم مگر سوشلسٹ کیمپ کی 1990کی دھائی میں تباہی کے بعدبالخصوص کپٹلسٹ دنیا اس قدر مضبوط ومنظم و جنگجو ہوچکی ہے کہ اس بیرونی صورتحال کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے ۔ اب کسی بھی ملک کے سماجی انقلاب اور اس کی کامیابی کے لیے بہت ضروری ہو گیا ہے کہ کپٹلسٹ کیمپ کا اتحاد ڈھیلا پڑجائے، وہ انتشار کی کیفیت میں مبتلا ہو۔ اور یہ بھی ضروری ہے کہ عالمی مزدور تحریک آپ کے انقلاب کا ساتھ دے۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*