بلوچی زبان و ادب کا ارتقا

 

جانور اپنی تخلیق میں تنوع پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور نہ ان کی تخلیق میں ارتقا نظر آتا ہے ۔ تخلیقی عمل میں تنوع پیدا کرنا ، اس کو پھیلانا، اس کی سطح اونچی کرنا اوراس کو اپنی وضع کردہ جمالیاتی قدروں کے مطابق ڈھالنا انسان ہی کا وصف ہے ۔ عمل انسان کی شخصیت کا مثبت اظہار ہے ۔ عمل ہی کے ذریعے اس نے عالمِ طبعی کے پہلوبہ پہلو اک جہانِ نو آباد کیا ہے۔۔۔ آرٹ ، سائنس ، مذہب ،فلسفہ، مشین اور آلات سب اس کی عالم ساز قوت کے کرشمے ہیں، اور اس کے ہاتھ ، کان ، آنکھ اور دماغ کی طبعی وسعتیں ہیں۔ دراصل تخلیقِ عمل کی تاریخ انسان کی توسیع ذات کی تاریخ ہے۔
مگر انسان میں اہم ترین وصف یہ ہے کہ اُس کا ہرتخلیقی عمل ،سماجی عمل ہوتا ہے۔ انسان کو سماجی حیوان اسی بنا پر کہتے ہیں کہ وہ دوسروں سے تعاون لیے بغیر ، اور دوسروں سے تعاون کیے بغیرزندہ نہیں رہ سکتا ۔(1)۔
دوہاتھو ں کی دس انگلیوں کی حیرت انگیزیوں کے بعد انسان کے سماجی عمل کی شاید سب سے درخشاں تخلیق اس کی زبان ہے ۔ بامعنی اور بامقصد آوازوں کی مدد سے بات چیت کرنے کا ہنر ۔ مگر ایسا ہنر جو دوسروں کی شرکت کے بغیر وجود ہی میں نہیں آسکتا۔
چنانچہ انسا نی زبانیں عرش پہ نہیں ،فرش پر بولی جاتی ہیں ۔اور زمین پہ بھی ہر زبان کی تخلیق وارتقا اُس کے اپنے مخصوص علاقے میں ہوتا ہے، وہ ہی علاقے جہاں محنت کرنے والے لوگ اور عوام الناس رہتے ہوں۔ یہ بات اب واضح ہونی چاہیے کہ محلات ودرباروں میں صر ف سازشیں پھل پھول سکتی ہیں ۔ مند ر میں زبان محض گناہ ثواب ناپنے کا ترازوبن کے رہ جاتی ہے۔کانفرنسوں، سیمیناروں، اسمبلیوں ،قراردادوں سے زبانیں گنجلک اورمشکل ہوجاتی ہیں۔ اور مارشل لائیں زبان سمیت عقلِ سلیم کی ہر فیکلٹی کا انکا رہیں ۔لہٰذا اِن ساری جگہوں پر زبان کی ترویج نہیں ہوسکتی ۔
زبان صرف اور صرف پیداواری عمل کے دوران پیدا ہوتی اور ارتقا کرتی ہے۔ زبانیں تو ‘چودھویں کے چاند چولستان میں اپنی ڈاچی پہ جھولتا ساربان بناتا ہے۔ زبان کوجلتی گرما میں کپا س چنتی سندھیانڑ یں کے گا ونڑ سنوار تے ہیں ۔اور پسنی پار،ساگرکی وسعتوں میں پکڑی مچھلی کو نمک لگا تے ماہی گیر ہی اِسے حسین اورسہل بنا تے ہیں۔۔۔۔۔۔
دنیا کی ہر زبان کی طرح بلوچی زبان بھی انسانوں کے بیچ رابطہ و ابلاغ کا ذریعہ ہے۔ہر زبان کی طرح بلوچی بھی اپنی تشکیل آناً فاناً نہیں، بلکہ اپنے ارتقا کے ہزاروں سالوں کے دوران کرسکی ۔(۔۔۔۔۔۔اور زبان کی تشکیل کبھی مکمل نہیں ہوتی ۔۔۔یہ ہمہ وقت جاری ساری رہتی ہے)۔
اسی طرح ہزاروں برسوں کی غلط ودرست کو ششو ں کے بعدیہ زبان تحریری صورت میں سامنے آئی۔تغیر نے سکو ت کوشکست دیتے ہی رہنا ہے ، دنیا میں ثبا ت، اور سکوت نامی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی۔دیگر ساری زبانوں کی طرح ( جی ہاں ساری زبانوں کی طرح)ہماری زبان بھی کسی کے اعلیٰ دماغ میں نہیں اُگی، نہ ہی یہ کسی پنڈت پادری کے ہاتھوںآسمان سے نہیں اتری ۔بلکہ ہر زبان اپنے سے پہلی زبانوں کے الفاظ اور فریم میں پیداواری عمل کے دوران بڑھتی اورپھلتی پھولتی رہی۔زبان رواں آب کی طرح ہوتی ہے ، بار بار پیچھے ہٹتی ہوئی ، پیچ وخم کھاتی ہوئی مسلسل آگے ہی بڑھتی جاتی ہے۔
جیسے کہ ذکر ہوا مہر گڑھ کی زبان ابھی دریافت و عدم دریافت کے چلمن کے پیچھے دُھند میں یافتگی کے انتظار میں ہے۔ اس لئے جب تک وہ ’’ ڈی کوڈ‘‘ نہیں ہوتی،ہم بلوچی زبان کواپنی جڑوں سے اکھڑی ہوئی زبان ہی قرار دے کر اُس پر بات کرنے پر مجبور ہیں۔
بلوچی کے بارے میں ایک بہت ہی دلچسپ بحث چلتی رہی۔ مہر گڑھ، پیرک اور نوشہرو کی دریافت سے قبل ،ہماری ہر بات کو آریاؤں کے قافلے کے آخری اونٹ کی دُم کے ساتھ باندھ دیا جاتا رہا ہے۔اب پتہ نہیں سائنس اِس پوری تھیوری کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے؟۔ کیا شمال سے بڑے پیمانے کی مہاجرتیں ہوئی بھی ہیں؟ ۔ اور کیا آریا لوگ اتنی تعداد میں آئے بھی ہیں؟ ۔مجھے تو آرکیالوجی میں نئی نئی دریافتوں کے تیور اس بارے میں ٹھیک نہیں لگتے اور یہ بات اچھنبے کی نہ ہوگی کہ ایک دن آثارِ قدیمہ کی نئی نئی کھدائیاں اعلان کردیں کہ کوئی مہاجرت ومائیگریشن باہر سے ہوئی ہی نہیں ۔ کیسا لگے گا کہ یہ دریافت ہوجائے کہ مائیگریشنیں کسپیئن اور حلب سے بلوچستان کی طر ف نہیں ہوئیں بلکہ الٹا مہر گڑھ سے شمال اور حلب کو ہوئیں؟ ۔ واللہ اعلم بالصواب!۔
چلو ہم اب تک کے مقبول مفروضے ہی کو مان لیں اور کہیں کہ ہمیں بھی اس بات سے کوئی اختلاف نہیں کہ آریا لوگ آکر ہم میں مدغم ہوئے اور وہ ہم سے اور ہم اُن میں سے بنے۔یہ تھیوری بھی درست مان لیتے ہیں کہ آریاؤں کی زبان ’’سنسکرت‘‘ (معنی=تراشیدہ ، شستہ اور صاف کیا ہوا) ہم سب کی زبانوں کی سنگی سہیلی کے بجائے اُن کی دادی قرار دی گئی ۔ لہٰذا یہاں کی ہماری زبانوں کے لئے ’’پراکرت‘‘ (خوردو، جنگلی،فطری، ناتراشیدہ) لفظ استعمال کرنے لگے۔ اگر اس طرح ہے بھی تو سوچیے کہ جس طرح بہت قلیل تعداد میں آنے والے آریا اپنے تمام تر ویلیو سسٹم کے ساتھ ہماری بہت بڑی اکثریت سے گھل مل گئے اسی طرح ہماری زبانیں بھی باہم یوں جذب و انجذاب کے عمل میں گئیں کہ اب ایک ہی زبان بن گئی۔ بلوچی میں سنسکرت کے بہت سارے الفاظ موجود ہیں (2)۔ایک لحاظ سے سنسکرت زبان ہم میں سے ہے اور ہم اُس میں سے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ چنانچہ ہم اس بات پر پہنچتے ہیں کہ یوں آریا بلوچ بنتے گئے، اور بلوچ آریا کے ضم ہونے کے پراسیس کے نتیجے میں وسعت یافتہ ہوگیا۔ اب ہم ایک ہیں۔
ماہر ینِ لسانیا ت کی کلاسی فی کیش کے مطابق ہماری بلوچی ،زبان ،آریائی زبانوں کے ’’انڈو یوروپین‘‘ خاندان انڈو ایرانی شاخ سے ہے ۔ان میں سے جو شاخ’’ ایرانی ‘‘ کہلاتی ہے ، بلوچی اس میں شامل ہے ۔
ہماری یہ قدیم ایرانی شاخ مزید تین ادوار میں منقسم ہے:۔
سب سے پرانا دور(1000 سال ق م) قدیم ایرانی کہلاتا ہے جس کی اہم زبانیں تھیں: قدیم فارسی،میڈک، اوستا، اور پہلوی۔(3)۔اَوِستا قدیم فارسی کی وہ صورت ہے جو زر تشتیو ں کے مذہبی کتبوں پر کھدی ملتی ہے۔(4)۔
دوسرا دور(331 سال ق م) وسطی ایرانی کہلاتا ہے ۔جس میں پہلوی، سوگدیائی اور بلکی زبانیں تھیں۔
تیسرا دور موجودہ ہے جس میں اہم زبانیں ہیں جدید فارسی، پشتو، کردی، اور بلوچی۔ یہ سب نئی ایرانی زبانیں کہلاتی ہیں۔ (4)۔
( مجھے یہاں بس ایک شک کا اظہار کرنا ہے ۔ اگر کبھی مہر گڑھ کی زبان ڈی کوڈ ہوگئی تو بلوچی زبان کو بعد میں آنے والی آریائی زبان قرار دینے کو دھچکا نہ لگے گا۔ اور اگر آرکیالوجی یہ ثابت کرے کہ کوئی بڑی مائیگریشن شمال سے جنوب کو ہوئی ہی نہیں ،گویا کوئی بڑے پیمانے کی آریائی مائیگریشن بلوچستان میں نہیں ہوئی توکیا، تب بھی بلوچی آریائی زبانوں کے صدر دروازے والے قلعے میں بند رکھی جائے گی؟
آئیے ذرا مختصر ترین انداز میں بلوچی زبان کی علاقائی سا لمیت کے فر یم میں رہتے ہوئے اِس کے ارتقا میں شامل بہت بڑے عوامل و عناصر کا تذکرہ کریں۔
708ق۔ م کے قریب مغربی ایران میں ماد حکومت قائم ہوئی۔ اس کا پایہِ تخت موجودہ ہمدان تھا۔ اُس زمانے میں کرد بلوچ’’ آھورا‘‘ کی پرستش کرتے تھے۔ ’’ھور‘‘ کا مطلب ہے، آگ اور’’آ‘‘ کا مطلب ہے :آیا، ۔۔۔۔۔۔ ’’ وہ حقیقت جو آگ سے دائمی ہے‘‘۔ یعنی ’’آتش پرستی‘‘ کا مذہب۔توران اور مکران کے بلوچوں نے اپنے اس مذہب کو رواج دیا۔ اورتو ران کی بت پرستی نیم دلی اورنیم انداز میں متروک ہوگئی۔ کرد بلوچ دن میں تین بار آگ کی پرستش کرتے تھے۔ وہ اپنی عبادت گاہ کو ’’آرینم ‘‘ کہتے تھے۔ جس کا مطلب ہے آتشکدہ۔ آتشکدہ کے معبد کو آری وان کہتے ہیں۔ شہروں اور دیہاتوں میںآتشکدہ ہوا کرتے تھے۔ بلوچ آج بھی آگ کی بہت عزت کرتے ہیں۔ ہمارے محاوروں اور ضرب الامثال میں آج بھی آگ کو پھلانگنے ،آگ کی طرف پیر کرنے، آگ کی طرف تھوکنے، آگ کی طرف ہاتھ کے پنجے سے لعنت بھیجنے کی سختی سے حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ہمارا بچہ بھی غیر ارادی طور پر آگ کی تکریم کرتا ہے۔ آگ کی حرمت کرنے کی خصلت بلوچ میں قرنوں تک جاری رہے گی‘ اس لئے کہ یہ ہمارے اجداد کا مذہب تھا۔اور اسے ادب کے مانوس و نامانوس اصناف کی ڈھال دستیاب ہے ۔۔۔۔۔۔۔ آپ تصور کرسکتے ہیں کہ بت پرستی سے آتش پرستی کی طرف ہمارے ڈھل جانے نے ہماری زبان میں کیا کیا وسعتیں لائی ہوں گی!!۔
پھر اس خطے میں بادشاہ اشوکا نے 260 ق م میں بدھ مذہب اختیار کیا اور راہبانہ لباس پہن لیا ۔ اس نے بدھ مذہب کی تعلیمات کے مطابق شکار اور گوشت خوری سے پرہیز شروع کردیا۔۔۔ وہ ہر ذی روح سے شفقت اور نرمی کے سلوک کی تلقین کرتا تھا۔ اس نے بدھ مت کی تبلیغ و ترویج کی زبردست کوشش کی ۔ وہ انتہائی رواداری برتنے والا انسان تھا ۔ وہ لوگوں کے دماغوں کو جیت کر انہیں اپنے دین میں شامل کرتا تھا ۔ اشوک نے اپنی پوری سلطنت میں ریڈیکل تبدیلیاں کیں ۔ جب وہ شہزادہ تھا اس نے ٹیکسلا میں وائسرائے بن کر بلوچ علاقوں پر حکمرانی کی ۔ بدھ مذہب سے متعلق اس کی تحریریں ستونوں پر کنندہ کی گئیں۔ اس کے بعد موریا خاندان زوال کا شکار ہوگیا۔ بلوچستان سے اس کی علمداری کا خاتمہ ہوگیا۔ ابھی تک بلوچستان کے ادب میں(بالخصوص سنائی جانے والی فوک داستانوں میں )بدھ مت کے اثرات بڑے پیمانے پر ملتے ہیں (5)۔
پھر آئیے ایک اور نظریے کے بلوچی زبان و ادب پر اثرات دیکھیں۔غلام داری سماج کے خلاف ’’مانویت ‘‘اور ’’مزدکی‘‘ تحریکیں ہمارے پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہیں۔ زرتشتی مذہب ریاستی مذہب کا درجہ پاگیا تھا۔ مگر شاہ پوراول کے دور میں مانی نے خود کو یسوع مسیح کا سب سے بڑا اور آخری حواری جتایا ۔ اس کی تحریک اور مذہب کا نام ’’مانویت‘‘ پڑا۔ اس تحریک سے ہمارے اس خطے کے غلام داری سماج میں زبردست بحران آیا ۔ مانویت نے اس سماجی ڈھانچے کو غیر منصفانہ قرار دیا اور اس پر زبردست تنقید کی ۔
یہیں پر مزدک کی قیادت میں ایک اور انقلابی یوٹو پیائی تحریک شروع ہوئی ۔ مزدکیوں نے سماجی برائیوں کے خلاف کھلے عام جدوجہد کرنے کا اعلان کیا ۔ ان کا مطالبہ تھا کہ فاضل جائیداد رئیسوں سے چھین لی جائے ۔ مزدک کی نظرمیں حرص اور استحصال نے ’’انسانیت کی برابری ‘‘ والے خدائی حکم اور خدائی خواہش کو تباہ کر دیا تھا ۔ مزدک نے خدا کی اس خواہش اور حکم کی دوبارہ بحالی کو اپنا مقصد حیات بنا دیا (6)۔
چونکہ زرتشتی پادریوں اور وڈیروں کی طاقت بہت بڑھ چکی تھی اور بادشاہ ان کی اس طاقت کو کمزور کرنا چاہتا تھااس لئے شاہ قباد نے اس نئے انقلابی مزدکی نظریے کی حمایت کی۔ اس نے مزدک کی تعلیمات کے مطابق معاشی سماجی اصلاحات کیں ۔ جس سے وڈیرے اور زرتشی ملاّ اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور قباد کو عارضی طور پہ اپنے بھائی جما سپ کے حق میں معزول ہونا پڑا ۔ مگر فوراً ہی اس نے پینترا بدل ڈالا اور دوبارہ اپنا پرانا مذہب اختیار کیا اور دوبارہ حکمران بنا ۔ اب کے اس نے مزدکیوں ہی کا قتل عام شروع کیا ۔
اس قتلِ عام کی قیادت اس کے شہزادے خسرو اول نے کی جسے پھرا نوشیروان کا خطاب ملا (انوشک۔ روبان۔’’لافانی روح والا)۔مزدک کو انوشیرواں نے 528 کے اواخر میں اُس وقت بے دردی کی موت دے دی جب ساسانی حاکمیت عروج پر تھی (7)۔
مگر ظاہر ہے اتنے بڑے نظریے کو ایک ہی دن میں تو ختم نہیں کیا جا سکتا تھا ۔ چنانچہ جب ضیاء الحقی خصوصیات والا انوشیروان 531 میں خود بادشاہ بنا تو اس نے مزدکیوں کے قتل عام کا ایک اور دور چلایا ۔ کہتے ہیں کہ اس چنگیز کے ہاتھوں ہزاروں مزدکی مارے گئے ۔ بلاشبہ مزدک کی انقلابی تحریک ہمارے خطے کی تاریخ میں سب سے بڑی طبقاتی تحریک تھی ۔
بلوچوں کی اکثریت بہت زمانے تک ’’ مزد کیت‘‘ سے وابستہ تھی۔آج بھی بہت سے بلوچوں کا نام مزدک ہے۔آج بھی انوشیروان بلوچ کی نفر ت کا مرکزہے۔کتنے نئے الفاظ ایجاد ہوئے ہوں گے بلوچی میں اور کیا کیا ضرب الامثال، مناجات اور دعائیں اپنا رس اِس بہتی میٹھی نہر میں گھولتی رہی ہوں گی!۔
پھر اسلام پر امن طور پر بلوچستان آیا، عرب حملوں سے بہت پہلے،عرب تو بعد میں بہت عرصہ کے بعد ، بلوچ سے تجارت و دوستی و پناہ گیری کرتے کرتے باقاعدہ حملہ آور اور پھر قابض ہوگئے۔عربوں کے ڈائریکٹ یا بالواسطہ روابط نے بے شمار الفاظ ہم سے شیئر کرلیے۔ سردار خان گشکوری نے مشترک الفاظ کی ایک طویل لسٹ مہیا کردی : شان، اصل، منزل، مجلس، کلام، نصیب، امیر ، تاج ، کیف ، مروارد، غم، حنی، قبہ، خلق، طام ، قوت ، ضرت ، قدر ، جہد ، وسواس ، سر، ظلم ، اسرار، ایمان، حد ، جان، بقا، شک، والی، وارث، بر، دکان، وکیل ، شہم، بہوش ، مسکین، لولاک، گراغ، سترا، ملوک، وبا، شاہد۔۔۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ ۔ اور یہ الفاظ ایک آدھ صدی پرانے نہیں بلکہ پانچ سو برس قبل سے ہم میں موجود مستعمل ہیں(8)۔
گیارھویں صد ی میں تر کمنوں کے قبیلے سلجو قوں کے طغر ل بیگ کی سطنت پارس پہ چھا ئی ہوئی تھی ۔ بے شمار ترک قبا ئل پارس کو مہا جر ت کرگئے جہاں وہ بلو چوں کے ساتھ کر مان ،خراسان ، سیستان اور ہر ات میں رہنے لگے۔ ہماری قبائلی ساخت انہی کے الفا ظ استعمال کرنے لگی ۔ او لس (قوم ) ، تمن ، بولک ، تمند ار ، لاغ ، اولاک ،ادّا (بھا ئی ) ، اُرد ، (9) ہم مشترک طور پر استعمال کرتے ہیں۔
غوریوں کے بعد نصیر الدین قباچہ قابض ہوگیا۔ جس کے بعد بلوچستان ان علاقوں میں سے ایک بنا جو شمس الدین التمش کے مقبوضہ جات تھے۔ یہ بات1225 کی ہے۔اور یہی دور بلوچستان کی بُلبل شاعرہ حضرت رابعہ خضداری کا ہے۔ عشقیہ داستان تشکیل دینے والی رابعہ‘ ہمارے ہاں ایک ولی کادرجہ رکھتی ہے۔ ایک خوبصورت شاعری کو جنم دینے والی رابعہ خضداری‘ بلوچستان کی ثقافتی تاریخ میں ایک بہت ہی بلند چوٹی تصور ہوتی ہیں۔
سولہویں صدی کے شروع میں پرتگیزیوں نے بلوچ وطن کا بھی رخ کیا اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں پر ’’امن،سلامتی،تمدن،جمہوریت اور پرامن بقائے باہمی‘‘ پھیلانے کے لئے حملے کیے۔مہذب مغرب کے پرتگالیوں کے ساتھ بلوچوں کی زبردست مزاحمتی جنگ ہوئی جس کے آثار ہماری زبردست شاعری میں آج بھی موجود ہیں۔کیا خوبصورت شاعری ہے وہ،ہمل والی !!…….اورپھر بلوچی زبان کے خزانے میں الماری ، صابن ، تو لیہ وغیر ہ جیسے الفاظ اور تصورات وہیں مغر ب سے تو آئے!!۔
پندرہویں سولہویں صدی ‘‘ رِندی‘‘ عہد کہلاتا ہے۔ یہ عہد بلوچی زبان و ادب کا ترقی یافتہ ترین دور ہے ۔اور اس میں زبردست شاعری تخلیق ہوئی ہے ۔ جہاں عشق و محبت کی داستانیں وافر ہیں، جہاں قبائلی جنگوں پر مبنی شاعری موجود ہے اور جہاں بیرونی حملہ آوروں اور اُن کے خلاف مزاحمت کے خوبصورت شاہکار شاعری کے خزانے پڑے ہیں۔
چاکر کے عہد میں بلوچی زبان ایک بالغ زبان تھی اور دنیا کی دیگر بڑی زبانوں کے ہم پلہ ادبی ، ثقافتی اور سائنسی اظہاربھرپور انداز میں کررہی تھی۔ سچ ہے کہ دوسری کسی بھی زبان کی طرح، بلوچی زبان بھی بنی بنائی شکل میں چاکرو شہیہ مریذ کو نہیں ملی بلکہ وہ تو صدیوں کی’’ تجرباتی کوششوں سے پیدا ہونے والی نطقی روایت کے نسل درنسل منتقل اور متغیر ہوتے رہنے کا نتیجہ ہے۔ تغیر و تبدل اور تراش خراش کے اس کے دامن میں ‘صوتی آنکھ مچولی ہی نہیں بلکہ تہذیبی سفر، نفسیاتی کرشمہ اور سیاسی و سماجی نیرنگیوں کی داستان بھی موجود ہے۔
اس قدر قدیم زبان کا خالص اور سُچا رہنا نہ کل ممکن تھا اور نہ آج ممکن ہے ۔چاکری عہد کی بلوچی بھلا زرتشتیوں کے جشنِ نوروز ، اور اس سے متعلق اصطلاحات، اور شعر و ادب سے بچ سکتی تھی؟۔ وہ بلوچی جو خود خیر سے کافی عرصے تک زرتشتی رہی تھی۔
پندرہویں صدی سے لے کر اٹھارویں صدی تک بلوچستان خوانینِ قلات کی حکمرانی میں رہا۔ جہاں فارسی دفتری سرکاری زبان رہی۔ بلوچی زبان پیچھے بھی بہت گئی مگر جدید فارسی اثرات نے غیر سرکاری بلوچی کو امیر بھی کردیا۔( غیر سرکاری بلوچی زندہ باد!)۔
نصیر خان نوری کی دہلی تک فوج کشیوں نے دیگربہت سی بلوچستانی وغیر بلوچستانی زبانوں کے ساتھ بلوچی زبان کے روابط قائم کروادیے۔ وہاں سے غلام لائے گئے، عورتیں باہر سے یہاں لا کر اپنے فوجیوں میں بیاہ دی گئیں۔ تجارت کو زبردست فروغ حاصل ہوا۔
چھوڑیے حاکموں کی فتوحات پر ہم نہیں اتر اتے !۔ہمیں تو بس قدرت نے جام درک عطا کرنا تھا، کردیا۔
انیسویں صدی کے اواخر میں قسمت نے بلوچی زبان کی ایک اور زبان ،انگلش کے ساتھ لین دین کرانی تھی جو آج تک جاری ہے۔ انگریز پہلے توطبعی طور پر ہمارا سامراج بنا جب ہم نے لڑ لڑ کر اس کا حلیہ بگاڑ دیا ۔انگریز سے اِس دشمنی کے رابطے سے ہماری زبانوں کے الفاظ نے بے شمار لین دین کی۔ انگریز نے ہماری نفسیات و سماج کوسمجھنے کے لیے ہماری زبان سیکھی، اُس کے بارے میں لکھا ، تحقیق کی۔ اس نے ہماری کلاسیکی شاعری جمع کرکے چھاپی۔ گرامر، فوک کہانیاں اور موسیقی کو جمع کیا اور انہیں تحریر کرکے ابدمان کردیا ۔ ہم اُن سارے سکالرز اور ریسرچرز کے احسان مند ہیں۔ ہماری زبان ہزار گنا ترقی کر گئی ۔ صرف اسّی سال بعد بلوچ آزاد تو ہوا مگر اُس وقت تک انگلش زبان دنیا بھر میں سائنس ٹیکنالوجی اور تجارت کی Lingua francaبن گئی۔کتنے الفاظ اس نے ہم سے، ہم نے اس سے لیے!!۔ ٹوک ، ڈوڈو،ٹال،۔۔۔۔۔۔۔
اُس بیچ پہلی جنگ عظیم بھی آئی۔اُس میں جرمن پمفلٹ خراسان و خضدار کو سیراب کرتے رہے۔ نئی نئی باتیں ، نئے نئے الفا٭۔۔۔۔۔۔
اور یہیں کہیں 1917 میں روس میں بالشویک انقلاب ہوا۔ لینن، سوشلزم، بورژوازی، پرولتاری، قومی آزادی الغرض بہت بڑے فلسفیانہ سوال اپنی مخصوص اصطلاحات کے لشکر کے ساتھ بلوچی زبان کے وسیع دامن میں پناہ گزین ہوئے اور بالآخر مقامی بنے۔
ابھی، دوڈھائی سو برس قبل کی ہماری اپنی سامراج دشمن جنگ نے ہمیں انڈین نیشنل کانگریس سے ملوادیا اور درجنوں زبانوں کے ساتھ بلوچی کو بغلگیر کرایا ۔ اور پھر دوسری عالمی جنگ اور اس کے نتیجے میں بلوچستان کی اپنی آزادی کے ساتھ ساتھ درجنوں ملکوں کی سامراج سے آزادی کی پرمسرت ہوائیں چلیں۔ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ بلوچی زبان نے ترقی کے کتنے زینے پھلاندلیے۔
اُس کے بعد پھر ہم سرد جنگ کا حصہ بنا دیے گئے۔ مگریہاں افغان انقلاب نے جتنا مثبت اثر ہم پر ڈالا شاید ہی کسی اور واقعہ نے بلوچی زبانوں کو اس قدر مالا مال کیا ہو۔
بیسویں اکیسویں صدی حیرتوں کی صدیاں رہی ہیں۔وہ وہ واقعات و ایجادات ہوئے کہ بلوچی زبان کے بشمول پوری دنیا کی زبانوں میں بگ بینگ بجنے کا تسلسل رہا ہے۔ مثلاً آپ دیگر لوگوں اور زبانوں کے ساتھ بلوچی زبان کے ملنے جلنے میں تیز رفتاری کا اندازہ کریں۔ اسی صدی میں انگریز آیا، صرف خود نہ آیا بلکہ وہ تو بہت سی بولیاں بولنے والوں کے ذریعے ہم پر حملہ آورہوا۔ ہماری زبان تو خیر پہلے ہی ہماری دفتری زبان نہ تھی مگر انگریز نے فارسی کو دھکے مار مار کر تخت سے گرادیا اور انگلش، اردو کو دفتری سرکاری زبان بنا ڈالا۔پھر انگریز کے ذرائع آمدورفت دیکھیے، شتر بانی سے ہمیں ہٹا کر بڑے پیمانے پر ریلوے کے ذریعے ہمارا تعلق ایک سے زیادہ زبانوں سے کروادیا۔ سائنس اور ٹیکنالوجی نے یہاں بے شمار پیشوں کو ختم کردیا، اُن پیشوں سے متعلق الفاظ و استعارات اکھاڑ پھینکے ۔ اور نئی ٹکنالوجی کے سارے الفاظ، اشارے، مخفف بلوچی میں رائج کردیے۔ اب آٹو موبیل، سپیس ٹکنالوجی ، الیکٹرانکس، انٹرنیٹ اور موبائل فون نے ہماری دنیا بدل کے رکھ دی ۔ بلوچی زبان اس قدر تیز رفتاری سے ترقی کرتی، اور امیر ہوتی جارہی ہے کہ :
محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی
اللہ کا لاکھ لاکھ شکرادا کیجیے کہ بلوچی زبان حادثاتی طور پر بنی ہوئی زبان نہیں ہے ۔ اس بات پر بھی کہ یہ ایک تہذیبی اور ثقافتی پس منظر رکھنے والی ، ارتقائی عمل سے گزر کر قومی زبان اور شناخت کی علامت بن جانے والی زبان ہے۔
اِس میں جاری ارتقا اور بڑے پیمانے کے لین دین کی حوصلہ افزائی ہی کرنی چاہیے۔
ہاں، اس عظیم ارتقا میں مزید جان اُس وقت پیدا ہوسکے گی اگر اسے قومی زبان کا درجہ دیا جائے ، اسے یونیورسٹی تک تعلیمی زبان قرار دیاجائے اور اسے صنعت وتجارتی زبان کا مقام دیا جائے۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*