عہدِضیا ءالحق …. اندھیر آندھار اور فہمیدہ ریاض

 

وزیراعظم بھٹو‘ قتل کے مقدمے میں گرفتار ہوا توسندھیوں کو انقلاب شنقلاب سب بھول گیا۔جائز طورپر، سب اِس ٹھگ ترین اورجابر ترین ”مظلو م“ وزیراعظم کے طرف دار بن گئے۔بوناپارٹزم کی نشان، پیپلز پارٹی عوام الناس کی ہمدردیوں کے ہر زکوٰة کی حقدار بنی ۔دیگر پارٹیوں، ٹریڈ یونینوں کی طرح فہمیدہ اور اس کے خاوند والی انقلابی کسان پارٹی، پیپلز پارٹی کے دلدل کے پیند ے میں ڈوبتی چلی گئی۔
اب ایک بدترین عہد پاکستان پہ نازل ہوچکاتھا ۔ملک میں میاں طفیل والا مارشل لا لگا۔نفرت کی وسیع اور، طویل عمر والی نرسری قائم ہوئی۔ عورت ایمان کے لیے سب سے بڑا خطرہ‘ اور شیطان کا سب سے بڑا خلیفہ قرار پائی۔ اسی سلسلے میں پردہ ‘سرکاری لباس قرار پایا۔ مجمعے میں پردہ ، جلسے میں پردہ ، ٹی وی پر پردہ ، حتیٰ کہ گھرکے اندر واش روم کے اندر تک میں پردہ ۔
کوئی راہ راستہ نہ تھا۔ ہر نعر ہ تو استعمال ہوچکا تھا۔ کچھ بچا نہ تھا عوام کو متحرک کرنے کے لیے _
بندشوں ، فرمانوں اور عوامی دکھوں کا بلوچستان ایک
دشتِ بے دولت ہے جوختم ہونے کو نہیں آتا! ۔اس رجعتی سلطنت کا سارا شیش محل جس واحد لفظ سے پاش پاش ہوتاتھا، وہ لفظ تھا :جمہوریت۔ چنانچہ اس واحد لفظ کودور رکھنے کے لئے سارے منتر اور ہر طرح کے انتظامات کیے گئے۔ فہمیدہ نے تاریکی کی اِس قوت کو بھی بے باکی سے للکارا۔ایسی شاعری لکھی جو اندھیر ‘ اور اندھیرے کے خلاف لڑنے والوں کے لئے صحیفوں کادرجہ رکھتی ہے ۔اُس کی شاعری مارشل لا کے خلاف اشاروں کنایوں کے بجائے براہِ راست ہوتی گئی ۔” خانہ تلاشی“،” کوتوال بیٹھا ہے“ ،” کیا تم پورا چاند نہ دیکھو گے“ …….. فہمیدہ آمریت سے بھڑ گئی ۔
اس نے یہاں کی سیاسی پارٹیوں میں شامل ہونے کی کوشش کی ، مگر اُس کے مطابق وہ ایک آزاد ذہن رکھنے والے شخص کو اپنی پارٹی میں شامل کرنا ہی نہیں چاہتے ۔ اُس کے خیال میں ضیاءالحق کے دور میں پیپلز پارٹی نے بہت جدوجہد کی اور پارٹی ایک ایسی صورت میں سامنے آئی جو اس مزاحمت کو آگے بڑھارہی تھی ۔ چنانچہ اُس نے پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر اس جدوجہد کے لیے کام توکیا ، مگر اُس کو اندازہ ہوگیا کہ وہ ایک ایسی پارٹی ہے جو ادیبوں کو اپنا ممبر بنانا پسند نہیں کرتی۔
اِس پورے عرصے میں فہمیدہ ریاض ہر طرح کے عوام دشمن اور غیر جمہوری اقدام کے خلاف لڑتی ہے ۔ وہ سنسر شپ کے خلاف کوڑھ مغز حکمرانوں کا صرف ایک بات میں حشر کردیتی ہے کہ:” وہ اتنی سی بات بھی نہیں سمجھتے کہ طلوعِ آفتاب کی خبر چھپائی نہیں جاسکتی“۔ فہمیدہ ریاض مارشلائی پاکستان میں وطن کی سمت تک چھن جانے کی بات بہت خوبصورتی سے کرتی ہے۔
وہ اپنی شاعری اور تحریروں کے ذریعے ظلم وستم اور دباﺅ اور پابندیوں کی فصلیں توڑتی رہی ۔
ضیا کے کوڑے ، پابندیاں، سختیاں، سنسر شپ ہماری نسل نے خود بھگتی ہیں، اس لیے تفصیل میں جائے بغیر بتادوں کہ فہمیدہ پر سنگین مقدمہ درج کرلیا گیا ۔
مارشل لا کے خلاف اُس کی نفرت کی بس ایک مثال ہی کافی ہے۔ اس کا بیٹا کبیر اُسی سال پیدا ہوا تھا جب ضیا ءالحق کا مارشل لا لگا تھا ۔ فہمیدہ نے اس کی پہلی سالگرہ پر اُس کے لےے یہ نظم لکھی تھی:
لال تجھے چھاتی پہ لٹالوں سن مرے من کی بات
جس دن تو چندا سا جنما کالی تھی وہ رات
گھوم گئی تھی دیس کی دھرتی پر اندھی گھنگھور
لوگ نہتے سہم گئے تھے دیکھ کے ننگا زور
جس دن تجھ کو مان بھری ممتا کا دودھ پلایا
خون چوستا وحشی اُس دن شہروں میں در آیا
جب ترا مکھڑا چوم کے میں نے لی تھیں تری بلائیں
کوڑے کھاتے بیٹے اُس دم دیکھ رہی تھیں مائیں
جب تر ے ماتھے میں نے پہلا کاجل ٹیک لگایا
گھر گھر پر چھایا تھا اُس دن سنگینوں کا سایہ
ہار کے جنتا بیٹھی تھی جب تو نے سیس اٹھایا
بلک بلک خلقت روتی تھی جس دن تو مسکایا
گھڑی گھڑی نے پھڑک پھڑک کر تیرے دم کو پالا
کوکھ کا سکھ کیا سج کا سکھ جب من میں بھڑکے جوالا
تو رن بھومی پر جایا ہے مرے جگر کے ٹکڑے
دیکھ تجھے پر چانے میں ماتا کا قدم نہ اکھڑے
کیسا لاڈ ارے جیون کی ہر کٹھنائی جھیل
ہاتھ نہ میں روکوں گی ترا
تو انگاروں سے کھیل
باٹ کے کانٹے تجھے پکاریں لے یہ میرا ہاتھ
پہلا قدم اٹھا دھرتی پہ اپنی ماں کے ساتھ

ایڈیٹر
ان سب شعبوں کے علاوہ فہمیدہ ایک رسالے کی ایڈیٹر ی بھی کرتی رہی ہے۔ یہ کام اُس نے 1977 سے شروع کیا۔ جو 1981 تک جاری رہ سکا۔اُس کے اِس سیاسی اور سماجی ماہنامہ میگزین کا نام تھا:آواز۔یہ ایک روشن فکر رسالہ تھاجو عام آدمی کا شعور بڑھاتا تھا، اُسے عزت و وقار سے جینے اور دوسرے انسانوں کی بہبود و ترقی کے بارے میں سوچنے کی باتیں بتاتا تھا۔بہت ہی جمہوری ، روشن فکر اور سیاسی خیالات سے بھرا رسالہ۔افغان انقلاب ہواتھا تو اس نے اپنے ادارےے میں لکھا تھا:” وسطِ ایشیا کی سنگلاخ زمینوں پر سامراجی راکب منہ کے بل گر پڑے ہیں“۔
اس رسالے کی مدیر اور ناشر ہونے کی سزا غداری ہوگئی۔ ضیاءالحق جیسے دجال بادشاہ اور بھلا دے بھی کیا سکتے ہیں؟۔رسالہ بند کردیا گیا،فہمیدہ پر تقریباً چودہ مقدمے قائم ہوئے ۔اور ان میں سے ایک میں بغاوت کے الزامات شامل تھے جس کی سزا پھانسی تھی۔
فہمیدہ کے بچے چھوٹے تھے۔ ظفر کوجیل بھیج دیاگیا۔ فہمید ہ بال بال بچ گئی۔ اسی دوران دلّی کے ایک مشاعرے کے لئے آیا ہوا دعوت نامہ، ٹکٹ اور ویزہ فہمیدہ کو سزائے موت سے بچا گئے ۔ریاست کا کھوکھلا پن اس قدر زیادہ تھا کہ وہ اپنے دو بچوں اور بہن کے ساتھ مارچ 1981میں ” مشاعرہ“ پڑھنے ہندوستان گئی۔ اندرا گاندھی جب ایک وقت میں حزبِ اختلاف میں تھی فہمیدہ سے مل چکی تھی۔ اب وہ وزیراعظم تھی۔ اس نے اُسے وہاں رہنے میں مدد دی۔ فہمیدہ” سندھ نہ سہی تو ہندسہی “کے مصداق ہندوستان میں پناہ گزیں ہوئی۔خاوند بھی بعد میں رہا ہوا،اور ہند وستان فرار ہوا۔
یہ ہفت سالہ جلا وطنی تھی۔ بقول اس کے اپنے ” میری زندگی کے سات برس یہاں گویا بھٹک رہے ہیں “۔بے تو قیراور ہلکے میڈیا نے چیزوں کی حرمت اس حدتک ختم کردی کہ سات بر س تک ایک پورے خاندان کی جلاوطنی ،کرکٹ کے سات رن جتنی اہمیت کے بھی نہ رہے۔ بہت معتبر اور گراں قدر الفاظ کو اس قدر بے ہودہ اور کثرت سے استعمال کیا گیا کہ وہ پاک الفاظ بے معنی ہوکر رہ گئے ہیں۔ جمہوریت، سوشلزم، انقلاب، جلا وطنی، قید بامشقت، اسلام ،کتنے بھاری الفاظ ہوا کرتے تھے۔اس ملک میں ایک مشن و مہم کے بطور سارے دانشوروں کو الفاظ کے بھاری پن کے احیائے نو کے لےے جدوجہد کرنی ہوگی۔ وگرنہ بے توقیری سماج کی ہر قدر کے لےے دیمک بن جائے گی ……..
مگر رک جاﺅ ، یہ دیکھو توسہی کہ اُس نے لکھا کیا تھا جس کے جرم میں ستر و قبرجیساوطن چھوڑ کر بقول مست ”دھلی کے کالے کلوٹوں کی جھڑ کیاں دھکے کھانے پڑے “۔آپ کو یاد ہوگا کہ ”مردِمومن مر د ِحق“ ضیاءالحق امیرالمومنین بن چکاتھا ۔اُس کے بد تمیز کوڑے ہر شہر کے ” ایوب سٹیڈیم “ میں بر پا ہوتے تھے ۔”کماحقہ‘، اللہ کے فضل وکرم سے ، عورت کے سرپر دوپٹہ ، اور ”چادروچاردیواری “ جیسے
الفاظ ریڈ یو ٹی وی اور ہر
فرمان واعلان میں شامل رہتے ۔اُس کی ایک سیاہ اصطلاح ”چادراور چاردیواری“کے سارے شیطا نی بخیے فہمید ہ نے اکھیڑدیے تھے ۔ اور اسی عنو ان سے نظم لکھ کراُس نے اپنے لےے پر دیس میں جان بچانے کااعز از کمایا تھا۔

حضورمیں اس سیاہ چادرکاکیاکروں گی
یہ آپ کیوںمجھ کو بخشتے ہیں، بصد عنا یت !

نہ سوگ میں ہوں کہ اس کو اوڑھوں
غم والم خلق کودکھاﺅں
نہ روگ ہوں میں کہ اس کی
تار یکیوں میں خفت سے ڈوب
جاﺅں
نہ میں گنہگار ہوں نہ مجرم
کہ اس سیاہی کی مہر اپنی جبیں پہ ہر حال میں لگا ﺅں
اگر نہ گستاخ مجھ کو سمجھیں
گرمیں جاں کی امان پاﺅں
تو دست بستہ کروں گزارش
کہ بند ہ پر ور !
حضور کے حجرہء معطر میں ایک لاشہ پڑا ہوا ہے
نہ جانے کب کاگلا سڑا ہے
یہ آپ سے رحم چاہتاہے
حضو ر اتنا کرم تو کیجئے
سیاہ چادر مجھے نہ دیجئے
سیا ہ چادر سے اپنے حجرہ کی بے کفن لاش ڈھا نپ دیجئے
کہ اس سے پھوٹی ہے جوعفونت
وہ کوچے کوچے میں ہانپتی ہے
وہ سر پٹکتی ہے چوکھٹوں پر
بر ہنگی تن کی ڈھانپتی ہے
سنیں ذرا دلخراش چیخیں
بنارہی ہیں عجب ہیولے
جوچادروں میں بھی ہیں برہنہ

یہ کو ن ہیں ؟ جانتے تو ہوں گے
حضور پہچا نتے تو ہوں گے !

یہ لونڈ یاں ہیں !
کہ یرغمالی حلا ل شب بھر رہیں
دمِ صبح دربدر ہیں
یہ باندیاں ہیں !
حضورکے نطفہِ مبارک کے نصف ورثہ سے بے معتبر ہیں
یہ بیبیاں ہیں !
کہ زوجگی کاخراج دینے
قطاراند ر قطار باری کی منتظرہیں
یہ بچیاں ہیں !
کہ جن کے سرپر پھرا جو حضر ت کا دستِ شفقت
توکم سنی کے لہو سے ریش سپید رنگین ہوگئی ہے
حضور کے حجلہِ معطر میں زندگی خون رو گئی ہے
پڑاہواہے جہاں یہ لاشہ
طویل صدیوں سے قتل اِنسا نیت کایہ خوں چکاں تماشہ
اب اس تماشہ کوختم کیجئے
حضوراب اس کو ڈھا نپ دیجئے

سیاہ چادر تو بن چکی ہے مری نہیں آپ کی ضرورت
کہ اس زمیں پر وجود میرا نہیں فقط اک نشانِ شہوت
حیات کی شاہر اہ جگمگارہی ہے مری ذہانت
زمین کے رُخ پہ جو ہے پسینہ تو جھلملا تی ہے میر ی محنت

یہ چاردیواریاں ، یہ چادر ، گلی سٹری لاش کومبارک
کھلی فضاﺅں میں بادباں کھول کر بڑھے گامرا سفینہ
میں آدمِ نوکی ہم سفر ہوں
کہ جس نے جیتی مری بھروسہ بھری رفا قت!
سات سال جلا وطنی کے بارے میں کیا کہا جاسکتاہے ، بس بیورغ کو پڑھیے، شہ مرید کو پڑھیے فیض کو پڑھیے اور وطن پرست بن جایئے ۔ ذلت بھر ی زندگی ہوتی ہے
جلا وطنی ۔فہمیدہ کو وہاں جامعہ ملیہ اسلامیہ میں مہمان شاعر کے بطور مقرد کیا گیا ۔کشور ناہید فہمیدہ کی اس جلا وطنی کی ایک جھلک یوں دکھاتی ہے:
”…….. میں دلّی گئی ۔ یہ واقعہ ہے یوسف کے انتقال کے بعد کا ہے۔ اگلے دن صبح فہمیدہ ریاض جو دلّی میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہی تھی ، مجھ سے ملنے آئی اور گلے لگ کر یوسف کو یاد کرکے بہت روئی۔ یہ تو سچا واقعہ ہے ۔ ہمارے سفارت خانے میں جو اعلیٰ افسر تھے۔ انہوں نے وزارتِ خارجہ کو فوری مطلع کیا کہ کشور ناہید پاکستان دشمن خاتون فہمیدہ ریاض سے مل رہی ہیں۔ واپس ملک میں آئی تو لمبا چوڑا Explanation سامنے تھا“۔
اِس طویل اور تکلیف دِہ جلا وطنی سے 1987 میں فہمیدہ کی واپسی ہوئی۔ اِس دوران افغانستان میں
ترہ کی صاحب کا انقلاب آچکا تھا۔اجاڑی گئی ارواح جاگ گئی تھیں۔ بادشاہت کو تباہ وبر بادکرتی ہوئی نئی زندگی آئی تھی ۔ اوراب ہم سب کی ساری توجہ افغان انقلاب کے دفاع پہ مبذول تھی۔
اس دوران فہمیدہ نے ایرک فرام کی کتاب fear of freedom کا ترجمہ کیا اور شیخ ایاز کی سندھی شاعری کا اردو میں ترجمہ کیا ۔
فہمیدہ بےنظیر کی شادی پہ 1987 میں پاکستان لوٹ سکی ۔اس طرح کہ ہندوستان کے بارے میں اُس کا جادو ٹوٹ چکا تھا۔ وہ لوگ بھی ” ہماری طرح“ نکلے۔ ہندوراج ، دھرم کی بالادستی، فتوے، نفرتیں، فرقہ واریت۔
یہاں(بے نظیر کی پہلی حکومت میں )وہ نیشنل بک فاﺅنڈیشن کی سربراہ بنا دی گئی۔اس نے اِس عہدے پر1988 سے 1989 تک کام کیا۔
ایک اور جلا وطنی بھی ہماری شاعرہ کے لےے لوحِ محفوظ میں لکھی ہوئی تھی۔نواز شریف کی پہلی حکومت میں فہمیدہ کو پارلیمنٹ کے اندر ہندوستانی ایجنٹ اور غدار قرار دیا گیا اور اس کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال دیا گیا تھا ۔ وہ بہ یک وقت تین ملازمتیں کرتی رہی کہ اپنے خاندان کو پال پوس سکے۔یہاں اُسے کوئی روزگار دیتا نہ تھا۔اب توباہر جانے کی اجازت بھی ختم۔ تب اس نے چوہدری شجاعت حسین کو ایک کاغذ گھر بھیجا جس پہ اس نے لکھا ” اپنے وطن کے شاعروں کے ساتھ کوئی ایسا سلوک کرتا ہے ؟“۔ اور دوسرے دن اس کا نام لسٹ سے باہرتھا۔
اِس باروہ انگلینڈ چلی گئی ۔ وہاں سے مشاعرے میں کچھ پیسے ملے، کینیڈا اور امریکہ بھی گئی ۔ کہیں کسی یونیورسٹی میں تقریر پکڑلی ‘کہیں کوئی مشاعرہ اچک لیا۔
ابھی وہ امریکہ میں تھی کہ بے نظیر کی دوسری حکومت قائم ہوگئی اور یوں فہمیدہ واپس پاکستان آئی۔اس بار اُسے قائداعظم اکیڈمی میں جاب ملی۔ پھر بے نظیر کی چھٹی پھر فہمیدہ کی چھٹی۔
ظفر کے ساتھ فہمیدہ کی اس نئی شادی سے اس کے دو بچے ( بیٹی ویر تا علی اور بیٹا کبیر )پیدا ہوئے ۔ویرتا نے ڈاکٹری پڑھی اور کبیر امریکہ میں پڑھنے لگا۔(کبیر کا ابھی2007 میں امریکہ میں ایک حادثے میں انتقال ہوگیا،اور کُوکتی ممتا کو بقیہ زندگی بین کرنے کے اذیت ناک کام پہ لگا گیا )۔
زندگانی کے دیگر دکھ بھی بہر حال موجود تھے ۔ خاوند کی طرف سے کوئی زیادہ خیال داری اور التفات حاصل نہ ہوسکا ۔ ایک طرف بھرپور انقلابی امنگ تھی اور دوسری طرف ذاتی نا آسودگی ( اب بھی فہمیدہ کا یہی حال ہے) ۔ایک اور نہ ختم ہونے والی خلش یہ رہی کہ پچھلے خاوند سے بیٹی سارہ نے اس کی نئی شادی کو ماں کی خود سے بے وفائی سمجھا :
” آپ نے تو مجھے چھوڑ دیا تھا نا۔ چھوڑ دیا تھا مجھے، ایک مرد کے لئے ۔ شادی رچالی تھی۔ ،مجھے تو چھوڑ دیا تھا“۔
فہمیدہ کا کلام پڑھیے تو اندازہ ہوگاکہ وہ ہرعہدمیں عوام الناس کی دلیری اور اُ ن کی کامیابی کی گواہ بن کر ڈٹ جاتی رہی ہے۔ جب جب جمہور نے چاہا اُن کی شاعرہ نے انہیں ” لبیک“ کہا اور اُن کے ساتھ چل پڑی، اُس طرف جہاں ” مستقبل قید ہے “۔…….اور وہ اس راہ میں بغیر کسی خیانت کے عوام کو اُن کی امانت کی گٹھڑی واپس کرتی جاتی ہے …….. امید کی گٹھڑی۔
فہمیدہ سے میری پہلی ملاقات کراچی کے صدر کے علاقے میں کتابوں کی ایک بڑی دکان ، سٹینڈر بک اسٹال میں ہوئی تھی۔یہ دکان اب بند ہوچکی ہے کہ بکنے کو اور بہت کچھ آچکاہے۔ بہ یک وقت میں، رسول بخش پلیجو اور فہمیدہ وہیں تھے۔ پلیجو صاحب سے سلام دعا میں فہمیدہ بھی شامل ہوئی۔ ایک آدھ لفظ خیرخیریت پوچھنے کا، اور اُس کے بعد میری اور پلیجو صاحب کی بحث ۔ دو منٹ میں ہم دونوں‘ نظریاتی ساتھیوں کے بجائے رند و لاشار بن چکے تھے۔ اُس کی تلوار میری ڈھال‘ اور میری تیغ اُس کی تیغ بند ( تعویز)۔ اب دیکھتا ہوں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری ربع صدی قبل کی ساری حیات بخش بحثیں بے کار چلی گئیں۔ انقلاب کا گھوڑا نہ پاﺅں کے بل کھڑا ہوسکا اورنہ سر کے بل ۔ ہمارا سماج ایسے تضادات میں قتل و قتال کرنے پر لگادیا گیا ہے جو نہ بنیادی ہیں اور نہ قابلِ تصادم۔ تاریک راہیں، تاریک قتل اور تاریک قاتل۔ ( لیکن کیا ہم اپنے اُن بحثوں اور سرگرمیوں پہ نادم ہیں؟۔ نو، نو ہمیں فخر ہے کہ ہم انسانوں کی طرح جیئے ، انسانوں میں کام کیا اور بے شمار انسان بنائے)۔…….. عجب اتفاق کہ اُس روز بحث میں اَن جانی فہمیدہ میرے موقف کے ساتھ تھی۔ پلیجو صاحب نے چائے پلائی، کھٹی بحث میٹھی باتوں میں ڈھل گئی اور ہم دونوں پھر وہی کامریڈ بن گئے…….. ایک دوسرے کی عزت کرنے والے، ایک دوسرے کا ساتھ دینے والے۔ میں نے پلیجو سے اس کے رسالے ” تحریک“ سے اور اس کی تحریروں سے بہت کچھ سیکھا ،استاد نما دوست رسول بخش پلیجو……..پتہ نہیں فہمیدہ پھر کہاں کھوگئی۔
اس کی گمشدگی کے دورانیے میں اُس سے ذاتی ملاقات کے مواقع کے بجائے، حرام قرار دی گئی باتوں (Taboo)کی اُس قلعہ شکن دانشورپر،اُچھالے گئے کیچڑ ہی سے سابقہ پڑتا رہا۔ خود گناہوں میں سات زمین تک دھنسے ہوئے ڈیوائن کا میڈی کے مکین‘ گنگا اشنان شدہ بن کر‘ فہمیدہ پہ زہرناگ والی آگ برسا رہے تھے۔ کوئی ہندوستانی ایجنٹ کا بوسیدہ اورسٹراند بھرا فتوی دے مار رہا تھاتو کوئی نظریاتی سرحدوں کاکوئی فرضی جغرافیہ تراش کر فہمیدہ کو اُس کا منکر گردان رہا تھا ۔اور کوئی اس پہ بے مہار آزاد خیال والی لایعنی اور لا معنی گالی مَل رہا تھا۔ ساری عمر مسکراتے مسکراتے اپنے چہروں کو سپاٹ بنانے والے افسروں، اور سرکاری دانشوروں کے بدبو بھرے دماغوں نے اُس وقت تک جتنے بھی الفاظ گھڑ لئے تھے وہ سب کے سب فہمیدہ پر تھوپ دیئے گئے : دو قومی نظریہ ، جغرافیائی سرحدیں، نظریاتی سرحدیں ، نظریہِ پاکستان ،ہنود و یہود، ایجنٹ ، غدار، را،خاد، کے جی بی ،حتی کی آئی ایس آئی ایجنٹ ،فلاں اسٹ اور فلاں ازم ۔۔۔۔۔ مگر ان ساری جاسوسی ایجنسیوں کی ایجنٹی کے باوجود فہمید ہ دو وقت کی روٹی کے لےے محنت کرتی رہی ۔پوری پاکستانی تاریخ میں فہمیدہ کمیونسٹوں ، ولی خان اور بزنجو پراستعمال ہوتے رہنے والے اِن سارے القابات سے مزین رہی۔ سب کے برابر ۔مگر وہ عورت ہے ناں، اس لئے کچھ الزامات اضافی بھی تھے۔
بیا لوجیکل الزامات۔ بیا لوجیکل ہتھیار ۔ حیا ، شرم ، مشرقی عورت،”ایک خاتون غیر معمولی جنسی خواہشات کے ساتھ تیار“ عصمت ،کا فرانہ ،متنازعہ ، حجاب ، غیرت، پردہ ، اور دین کے متضاد الفاظ سب اس کے گلے کاہار بنے ۔میں کہتا ہوں کہ اگر کسی محقق کو کبھی گالیاں اکٹھی کرنی ہوں تو بس فہمیدہ کے پاس چلا جائے۔اُس مبارز خاتون نے سارے ”شہدادوں “کے دیئے ہوئے سارے پتھر اپنے دوپٹے کے پلو میں باندھ رکھے ہیں۔ ذرا سی گرہ کھول دے ، سارے متقی سنگسار ہوجائیں۔
پاکستان میں اقتدار کی کرسی خواہ کسی کی بھی ہو، اس کی کوڑا بردار رکھوالی ، پنڈت ہی کررہا ہوتا ہے ۔ مگر یہ بھی ہوا کہ ہر کوڑا بردار کے کر یہہ ہاتھوں کو شل کردینے کےلئے ہمہ وقت ہزاروں پیٹھیں موجود رہی ہیں۔ اُن ہزاروں پیٹھوں میں ایک پیٹھ فہمیدہ کی بھی رہی ہے ۔
بہادرانسان ہے فہمیدہ ۔ کسی کی پرواہ نہیں کرتی ۔ جلا وطن کردو ، مالی تنگدستی مسلط کردو ، نظر انداز کر دو اُس کی بلا سے ۔ فہمیدہ نہیں بدلتی، مخالفین البتہ شکلیں بدل بدل کر ، وضع و قطع، لباس و چوغہ بدل بدل کر اپنے فرسودہ اور پتھرزمانے کے خیالات کے بچاﺅ کا سوچتے رہتے ہیں ۔ہم گواہ ہیں کہ فہمیدہ ریاض کے تعاقب میں ہمہ وقت ہجومِ سنگ زناں رہا ہے، اس کی نازک روح کا نازک چہرہ زخموں کے نیل نشانوں سے اٹا رہا ہے ، اُس کا کاسہِ سر خون سے تر بہ تر رہا ہے ، اس کے” پیوندِ قبا دشنام بہت“ اور پیوستِ جگر الزام بہت۔اعداکی ساری دشنام طرازیاں بھی اُس کی ،اور یاروں کی ساری بے التفاتیاں بھی اس کی۔ زندگی مشکل ، چولہا مسئلہ ، اور پھر زندگی کے پچھلے پہر نوجوان بیٹے کی موت کا صدمہ ۔۔۔۔ ایک کوہِ چلتن کا سا دل چاہیے پگھل کر
معدوم ہوجانے سے بچنے کو۔یہ عورت پہاڑ ہے کہ بکھرتی ہی نہیں۔ اب بھی ملے گی تو وہ اسامہ ابامہ فکر پہ آپ سے گہرے اور بلند قہقہے لگوائے گی ۔اب بھی کان لگاﺅ تو وہ کہتی ہوئی ملے گی: اے
بے سروسامان، مفلس لوگو! ، تم کب تک خدا کی نعمتوں کو ترسو گے؟۔ اب بھی دیکھو تو فہمیدہ سربسجود دستانِ مبارک میں موجود ریشانِ مبارک کے لئے ” اموات“ کی دعا کرتی ملے گی۔
مگر فہمیدہ تو طلسمِ اسمِ وفا کی قاری تھی ‘یہی قرات کرتی رہی۔ جگر برّاں قرات‘ کہ دانا کی روزی خونِ جگر ہے۔درد بہ دوش یہ خانہ برباد سندھ بدر ہو کر ہند کی پناہ گزین رہی۔جب بھی مورخ لکھے گا تو وہ کہ پاکستان کی مارشل لائی تاریخ میں انکار کے سفیروں کی ایک سرغنہ، فہمیدہ کا ذکربھی کرے گا۔
فہمیدہ سے میری دوبارہ ملاقات اُس وقت ہوئی جب بلوچوں کی یہ دوست اپنی ہمہ وقتی فاقہ کشی سے تنگ آکر بلوچستان پہ ایک بروشر نکالنے کے بہانے کچھ سرکاری ،غیر سرکاری اشتہارات کی تلاش میں کوئٹہ آئی ۔ اسے ایک ”چُھوٹو“ چاہیے تھا اپنے ساتھ
گھما نے کو، اپنی مدد اور ساتھ دینے کو۔چنانچہ اس نے مجھے ساتھ لیا۔اُس کی واقفیت بہت تھی ۔ ساری بیوروکریسی ایک عمدہ شاعرہ کے بطور اُس سے واقف تھی۔پھر ایک حسین و جمیل خاتون شاعرہ، جو فیور لینے آئی تھی ۔ مجھے ایک دو بڑے افسراب بھی یاد ہیں جو کہ پوری ملاقات میں چمکتی دمکتی پائپ میں ایمفورا تمباکو کے کش لگا لگا کر خوشبو بکھیرتے رہے۔ بہر حال جتنے دن وہ یہاں رہی میں اُس کا فرمانبردار خادم بنا رہا۔ مجھے نظرےے کی بیماری جو لاحق تھی۔ ( یا اُسے کمان کرنا اچھا آتا ہے !!)۔
اس کی بلوچ دوستی کے لئے ایک چھوٹی سی مثال اس کا یہ کلام ہے:
ویرانہ میں پیر پیادہ کرتی گھات بلوچ کی
ایک پنھل کی کارن میں تو باندی ذات بلوچ کی

مرے پنھل کو کیا رو کے گی زنداں کی دیوار
بھور سمے آکاش کی لالی دیتی ہے دیدار
کیچ کوٹ میں بھڑک بھڑک کر بیتی رات بلوچ کی
وہ الا تھا رات بھی بن گئی باندی ذات بلوچ کی
سب کا ہوگا بھور اُجیارا ، کالی رات بلو چ کی
اس دھرتی کو یاد رہے گی، ساری رات بلوچ کی
سسی سہاگ بنے گی تیرا ، بھاری رات بلوچ کی
اِس کوئٹہ ملاقات کے بعد ایک بار پھر،بے پرواہ ، اور ، بہت کام والی فہمیدہ ایک لمبے عرصے کے لئے عنقا ہوگئی۔ بس شاعری کے ذریعے ڈھلمل یقین لوگوں کا ایمان تازہ کرتی رہی۔

فہمیدہ کی شاعری، فیوڈل اردو پر، بغاوت کے اتنے زیادہ اوراتنے گہرے کرپان گھونپتی رہی ہے کہ اب اردو ” اِن، اُن“ جیسی اشارہ بازیوں کے مریخ سے اتر کر انسانوں کی زبان بنتی جارہی ہے۔ گو کہ یہ ابھی تک فارسی والے آئی ایم ایفی قرضے میں گردن گردن ڈوبی ہوئی ہے ( اور اس پر اردو والے اتراتے بھی بہت ہیں)،مگر فہمیدہ نے گلی کے عام محنت کرنے والے ماﺅشما کی روزمرہ بول چال کا سونا چاندی ڈال کر اس غیر مستحسنی کواچھے خاصے انسانی جامے پہنائے ہیں۔ اردو کے ” عالیہ پن “کا ہماری قومی زبانوں کے اپاہج بنانے میں بہت رول رہا ہے۔فہمیدہ جیسے لوگ جب پاکستان میں زبانوں کے تھانیدار اردو ‘ہی کو عوامی بنارہے ہیں تویقینا ہماری دوسری قومی زبانیں بھی ہوائی جہازپہ چڑھنے کی بجائے نیچے اپنے عوام میں ہی رہیں گی ۔
فہمیدہ ( بنتِ ریاض الدین احمدوحسنہ بانو) کسی بہت بڑی انقلابیت میں مبتلا نہ رہی ۔بڑی بڑی اصطلاحات سے گریز کرتے ہوئے بھی، اس نے نہ کبھی مارشل لا کو بخشا اور نہ ملاّ کو، اور نہ فیوڈل کو ۔ اس ملک میں محکوم قوموں کے حقوق تو اُسے پیارے رہے ہی ہیں مگر اُس کا اصل میدان دوہرے تہرے استحصال کی شکار، عورت ذات رہا ہے۔ لیکن فہمیدہ کے اندر امتیا زی بات یہ ہے کہ اس نے ہمیشہ عورتوں کی تحریک کے نام پر فرقہ بنانے کی سخت مزاحمت کی ہے۔ اس کے ہاں‘ عمومی عوامی اور جمہوری تحریک سے جوڑکر عورتوں کی تحریک اپنے تبرک و تقدس کا پرچم ہوا میں پھڑپھڑاتی رہی ہے۔
ایک اچھے دانشور کی طرح وہ نئی نئی بحثیں چھیڑتی ہے،نئے نئے سوال اٹھاتی ہے۔ جس وقت ( اوردراصل ہمہ وقت )پورا سماجی دھارا اپنی نکیل ملاّ کے ہاتھ میں دے کر،منہ سے جھاگ اڑاتے ہوئے آخرت بچانے رواں دواں ہوتا ہے تو فہمیدہ کوئی دنیاوی بات چھیڑ کر اُس کا سرور توڑ دیتی ہے۔ کتنا تکلیف دِہ ہوتا ہے سرور کا بے وقت ٹوٹ جانا۔ کچھ گالیاں تو پھر آئیں گی ہی ۔ ہیں ناں ؟!

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*