غزل

شہر نو اطوار تیری خامشی بھی ہاؤ ہؤ
خواہشوں کا رقص جاری، لمحہ لمحہ چارسو

اک مسلسل جنگ ہے جو لڑ رہے ہیں خاکزاد
لفظ لفظ اور گیت گیت اور، دور دور اور دوبدو

جو بھی سوچا اور چاہا اسکو کرتی ہے بیاں
چشم و لب کی خامشی اور چشم ولب کی گفتگو

جسم کا ہر ایک خلیہ جاگنے لگتا ہے تب
جب سپرانداز ہو تو پور پور اور موبہ مو

وسعت افلاک میں جب خاکداں ہی خاک ہے
پھر کسی کی جھونپڑی کیا، کیا کسی کے کاخ وکو

واپسی کی ساعتوں میں بانٹتا رہتا ہے دل
زندگی کی ریز گاری، بے طلب، بے آرزو

زندگی کے شور و شر میں رابطہ ہی کٹ گیا
آخری آواز دے پایا نہ میں اور نہ ہی تو

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*