غربت

تم نہیں ہونا چاہتی ہو
تم مفلس ہونے سے ہراساں ہو
تمھیں یہ پسند نہیں
کہ گھسے ہوئے تلووں والے جوتے پہن کر
بازار میں جاو
اور جب واپس آو
تو کسی بوسیدہ لباس میں
میری جان
ہمیں کوئی شوق نہیں
فلاکت وغربت کا
جس طرح کہ امرا کی خواہش ہے کہ ہم نہ ہوں
ہم اسے یوں نکال باہر کریں گے
جیسے دردکرنے والے دانت کو
جو ہمارے دلوں کو ڈس رہا ہو
نکال باہر پھینکتے ہیں
لیکن میں ہرگز نہیں چاہتا
کہ تم اس سے ڈرو
اگر میرے کسی جرم یا غلطی کے کارن
یہ تمھارے گھر تک آن پہنچے
اگر غربت و فلاکت نے تم سے
تمھارے سنہرے جوتے چھین لیے ہیں
تو بھی تم اسے اپنی ہنسی نہ چھیننے دینا
یہ میرے جیون کی واحد
طاقت بخش غذا ہے
اگر تم گھر کا کرایہ نہ ادا کر سکو
تو پرغرور قدموں کے ساتھ
کام کی تلاش میں نکلو
میری محبوب
یاد رکھو
کہ میری نگاہیں صرف تم پر ہیں
اور ہم دونوں ایک
اٹوٹ ملاپ میں
وہ سب سے بڑی لکشمی ہیں
جو کبھی اس دھرتی پر ایک ساتھ دیکھی گئی

 

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*