آرکیالوجی اور بلوچستان

رپورٹ: جمیل بیدار

 

آرکیالوجی کی ابتدا غالبا آج سے تین سو سال قبل ہوئی. جب خزانواں کی تلاش میں چند لوگوں نے پرانی تہذیبوں کے آثار کھوج نکالے ۔ آرکیالوجی کو دو بنیادی برانچز میں تقسیم کیا جاتا ہے جو کہ (Buried) & (Monumental) آرکیالوجی ہیں۔ بلوچستان بریڈ آرکیالوجی کے لحاظ سے بہت امیر ہے۔
مہرگڑھ کے بارے میں تو ریسرچ ہوئی اور اس پر بہت کچھ لکھا بھی گیا لیکن وہیں کلی گل محمد سمیت دوسرے چھوٹے آرکیالوجیکل سائٹس کو مکمل نظر انداز کیا گیا حالانکہ کلی گل محمد جو کہ کوئٹہ میں واقع ہے دوسرے سائٹس کی نسبت زیادہ پرانی انسانی تہذیب کا مالک ہے ۔ اسی طرح بلوچستان کے ڈسٹرکٹ گوادر میں 1875 کو "ستکغیں ڈور” نام سے سائٹ دریافت ہوا لیکن اس کے(culture) لینیج کے بارے میں آرکیالوجسٹ کو کچھ پتہ نہ تھا کیونکہ اس دور میں انڈس سیولائزیشن کی تہذیب اور مہرگڑھ کی ثقافت دریافت نہیں ہوئی تھی۔ اس دور میں چونکہ جتنے تہذیب دریافت ہوئے تھے (جیسے گندھارا کی تہذیب) اکثر بدھ مت کے دور کے تھے مگر یہ واحد آرکیالوجیکل سائٹس تھے جو بدھ مت تہذیب سے بہت پرانے تھے ۔ اور پھر1920 میں ہڑپہ کی تہذیب دریافت ہوئی جس نے تحقیق کا نیا دروازہ کھول دیا اور آرکیالوجسٹ نے انڈس میسو پوٹینین سولائزیشن تھیوری یا ڈفیوژنسٹک ماڈل پیش کیا (یعنی تہذیبوں کا تسلسل مغرب سے مشرق کی طرف ہوا)۔ ہڑپہ میں دریافت ہونے والی تہذیب پہلے کے اسی تہذیب (مغرب) کا تسلسل ہے۔ لیکن اس تسلسل کی اکثر کڑیاں (لنکس) مسنگ تھیں ان لنکس کو دریافت کرنا آرکیالوجسٹ کےلیے سب سے بڑا سوال بن گیا ۔
کوئٹہ ویلی  میں 39 قبل از تاریخی مقامات (پری ہسٹاریکل سائٹس) دریافت ہوئے ۔ 1951 میں کلی گل محمد میں 3×3 کا ایک ٹرینچ کھولا گیا۔ اس ٹرینچ کو 11.5 میٹر گہرائی تک کھودا گیا جسے آرکیالوجیکل ٹرم میں کلچرل ڈیپتھ کہتے ہیں۔ گہرائی میں حیران کن انکشاف یہ ہوا کہ وہاں انسانی تہذیب کے آثار تو مل رہے تھے لیکن وہاں چھے میٹر تک کسی برتن یعنی سیرامک (pottery) کے نشان نہ ملے اس وجہ سے اس دور کو پری پوٹری یا "اے سیرامک دور” سے جانا جاتا ہے۔ یہ ہم 9 ہزار سال پہلے کی بات کر رہے ہیں ۔
کلی گل محمد میں دریافت آرکیالوجیکل سائٹ کو چار ادوار میں تقسیم کیا گیا
اول کلی گل محمد فیز : یعنی وہ دور کہ جب انسان اے سیرامک یعنی بغیر برتن کے رہ رہا تھا۔ اس فیز کو بلوچستان فیز بھی کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ جو تہذیب جس علاقے میں سب سے پہلے دریافت ہوتی ہے وہی نام پوری دنیا میں رائج ہو جاتی ہے۔ اس طرح کی دریافت ہونے والی ہر تہذیب کےلیے پھر وہی نام استعمال کی جاتی ہے.
دوسرا دور یعنی برج باسکٹ مارکڈ (Burj Basket Marked) جسے سیرامک نیولیتھک (ceramic neolithic) دور بھی کہا جاتا ہے۔ اس کو برج باسکٹ مارکڈ اس لیے کہا جانے لگا کیونکہ یہ لوگ برتن کو کسی باسکٹ یعنی ٹوکری میں بنا کر پھر اسے جلا کر سخت بناتے تھے ٹوکری آگ سے جل جاتی لیکن برتن پر اس ٹوکری کے نشان پائے گئے جس کی وجہ سے اسے برج باسکٹ مارکڈ کا نام ملا۔
تیسرا دور یعنی کلی گل محمد کلچر ( Kili Ghul Muhmmad Culture) کہ جب برتن کو باقاعدہ وھیل یعنی پیہہ کے ذریعے بنایا جانےلگا جسے ریڈ پوٹری کہا جاتا ہے۔ کلی گل محمد کلچر دور کے لوگ بہت ہی نفیس قسم کے برتن بناتے تھے۔ اس بات کا غالب امکان ہے کہ اس وقت جو برتن بنائے جاتے تھے وہ آج کے دور کے برتنوں سے زیادہ نفیس اور پائیدار تھے۔ کیونکہ ہزاروں سال گزرنے کے بعد بھی ان پر موجود رنگ اسی طرح موجود ہے۔ وہ جس انداز میں پگمنٹ بناتے اور اس کو اپلائی کرتے وہ آج کے دور کے پگمنٹ سے زیادہ پائیدار تھی ۔ اور یہ ان کی کیمیکل انجینئرنگ کی ایک شاہکار مثال ہے۔
اور آخری یعنی چھوتا دور کیچی بیگ (Kechi Beg)کے نام سے مشہور ہے کیونکہ اس دور کے پہلے آثار سریاب میں کیچی بیگ کے علاقے میں دریافت ہوئے۔ اس کی گہرائی صرف 2.2 میٹر ہے ۔ جو مہر گڑھ کا چوتھا  دور بن جاتا ہے ۔
فئیر سروس کے1950 سے لے کر 1952 میں کوئٹہ کے سائٹس کو ایکسپلور کرنے کے بعد مہر گڑھ تب ڈسکور ہوا جب جیرج پیرک پہ ایگزکیویشنز کر رہا تھا۔ اور پھر 1977 میں ان کو کچھ ایسے آرکیالوجیکل فائنڈنگز ملے جو کہ مہرگڑھ کو اے سیرامک نیو لیتھک تک لے کے گئے ۔ مہرگڑھ کو کل سات ادوار میں تقسیم کیا گیا مہرگڑھ میں دریافت ہونے والے ساتوں ادوار کے نشانات بلوچستان کے دوسرے آرکیالوجیکل سائٹس میں بھی ملتے ہیں۔

کیا مہرگڑھ کلی گل محمد تہذیب کا ہی تسلسل ہے؟
اس سوال کا جواب ہاں میں ہے کیونکہ جب مہرگڑھ میں کام کرنے والے ایک آرکیالوجسٹ گریگوری فوسیل سبی سے کوئٹہ کی طرف آرہے تھے تو بولان کے راستے سے اس کو کچھ کوچی اپنے مال مویشیوں کے ساتھ کوئٹہ سے سبی کی طرف جاتے ہوئے نظر آئے تب پوچھنے پر معلوم ہوا کہ وہ سردیاں گزارنے سبی جا رہے ہیں جبکہ گرمیاں وہ کوئٹہ میں گزارتے ہیں تو اس آرکیالوجسٹ کے ذہن میں فورا یہ بات آگئی کہ شاید کلی گل محمد کے لوگ سردیوں میں موسم کی شدت کی وجہ سے مہرگڑھ آباد ہوتے تھے۔اور جب مہرگڑھ کی آبادی بھی ایک حد سے بڑھ گئی اور دریائے بولان کا پانی ان کےلیے ناکافی ہوا تو یہ لوگ دریائے سندھ اور راوی کی طرف مائیگریٹ کر گئے ۔ یہ بات آج ثابت ہوچکی ہے کہ مہرگڑھ کی تہذیب کبھی ختم نہیں ہوئی بلکہ ایک جگہ سے دوسری جگہ ڈفیوز یعنی منتقل ہوتی رہی۔

مہرگڑھ کا موجودہ اسٹیٹس:

مہرگڑھ سے قریبا 33000 کے قریب اوبجیکٹ ملے لیکن افسوس کہ مہرگڑھ کو کسی طرح کا میوزیم اور انٹرنیشنل رکگنیشن نہ مل سکی ۔ حالانکہ انٹرنیشنل رکگنیشن کےلیے جن 9 کمپوننٹس کی ضرورت پڑتی ہے وہ 9 کے 9 مہرگڑھ میں پورے ہوتے ہیں لیکن باوجود اس کے مہرگڑھ کو انٹرنیشنل رکگنیشن نہ مل سکی جس میں مقامی آرکیالوجسٹ کا نہ ہونا اور فارن آرکیالوجسٹ کی کم توجہ بنیادی وجوہات ہیں ۔ تاہم اگر تھوڑا سا کام کرکے ان سائٹس (مہرگڑھ، کلی گل محمد اور دوسرے چھوٹے سائٹس) کو انٹرنیشنل رکگنیشن مل جائے تو اس کی وجہ سے یہاں میوزیم ، ریسرچ لیب سمیت انٹرنیشنل فنڈزمل سکتے ہیں ٹورازم بڑھ سکتا ہے اور دنیا میں بلوچستان کو ایک نئی پہچان مل سکتی ہے۔

مزید ان سائٹس کی دیکھ بھال اور پریزرویشن بھی انٹرنیشنل لیول پر مہنجوداڑو کی طرح ہو سکتی ہے۔
بلوچستان آرکیالوجی کے حوالے سے بہت امیر ہے یہاں شیرانی سے لے کر کوئٹہ تک اور کوئٹہ سے لے کر گوادر تک بہت سارے ان ایکسپلور  ڈسائٹس ہیں جن پر مزید کام کرنے کی گنجائش ہے ۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*