بلوچ مائتھالوجی

 

اور یوں، آپ اچانک اُس گیٹ پر پہنچتے ہیں جس پر لکھا ہے : نانی مندر ،ہنگلاج کا مندر ۔اور آس پاس سرخ، نارنجی جھنڈے ہیں، بینرزپوسٹرز ہیں۔
یہ مندر ہے ، مزار ہے ،یا عبادت گاہ ،تاریخ ابھی تک فیصلہ نہ کر پائی ۔ شاید انگلش کا Shrine لفظ ہی درست ہو۔مزار، آستانہ۔۔۔۔۔۔
اتاہ بے بسی میں انسان اپنا ہی نچلا ہونٹ کاٹتا ہے۔ بلوچ دنیا کی بے بس ترین قوم ہے۔ اُسے تین سو سال سے گردن پہ لات رکھ کر معاشی وسائل، سیاسی و جغرافیائی آزادی جیسی ( لازمی اور اشرف المخلوقاتی ) سیاسی باتوں میں ڈال دیا گیا ہے۔ اور جوانمردمی اورانسانیت بھری اپنی اِن چھ نصف صدیوں میں اُسے اندازہ ہی نہ ہوسکا کہ وہ ثقافتی طور پر کس قدر لٹ چکا ہے ۔ دنیا تو کیا خود اُس کے بچوں کو بھی معلوم نہیں کہ اس کی سرزمین پانچ کروڑبرس قبل کی خشکی والی وہیل مچھلی ’’روڈھوسی ٹس بلوچستانی سس‘‘ کی مسکن ہے۔ ساڑھے تین کروڑ سالوں سے بلوچی تھیریم اُسی کے سینے میں دفن ہے۔ نیز اُسے یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ ساری مائتھالوجی دراصل اُس کی ہے جس کو غیر محسوس طو رپر اُس سے چھین کر اُس پربعد میں ایک پورا مذہب (ہندو مت)کھڑا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ بلوچ مائتھالوجی کے سرچشمہ یعنی ہنگلاج کے بارے میں کچھ معلومات ہیں۔ ہم میں سے کتنے لوگ جانتے ہیں۔بلوچستان پورے ہندوستان، سری لنکا،اور نیپال کی زیارت گاہ ہے۔ کیسے خود کو بتایا جائے کہ شیو ، ستی ، گنڑیش ، وشنو ،یہ سب دیوی دیوتا بلوچستان سے ہیں۔
بلوچستان کی ہر وادی ایک مائتھالوجی کی گود ہے۔ اس کا ہر پہاڑ ایک داستان اپنے سینے میں دفن کیے بیٹھا ہے۔ اس کا ہر دریا ایک سولائزیشن کا خالق ہے اور اس کا ہر درہ ایک ناول نگار ہے۔ بلوچستان قصہ خوانی کی کتاب ہے۔
مائتھالوجی کیا ہے؟۔ یہ یونانی لفظ myth ہے جس کا مطلب ہے، داستان، فوک کہانی، ۔۔۔۔۔۔ ۔
بلوچ مائتھالوجی ہماری قوم کی تہذیب و ثقافت کی بنیاد ہے۔ ایسے قصے اور داستانیں جہاں فطرت کو، فطرت کے مظاہر کو، دیوؤں پر یوں کو، اورمافوق الفطرت انسانوں کو جسم کی صورت دی جاتی ہے۔اُن سے کہانیاں اور قصے بنتے ہیں ، ہمارے آبانے اپنی رسموں کو تاریخی واقعات بنا کر بہت بڑھا چڑھ کر پیش کیا تھا۔
دوسرے لفظوں میں ہماری قوم فطرت ، تاریخ اور رواجوں کی وضاحت کے لے ہزاروں برسوں سے جو کہانیاں بناتی رہی ہے۔ اُن کے مجموعے کو بلوچ مائتھالوجی کہتے ہیں۔ بدقسمت ہے وہ قوم اور وہ زبان جس کی اپنی مائتھالوجی نہ ہو۔
واضح کرنی ضروری ہے: مائتھالوجی کا مذاہب سے کسی طرح کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔ انسان کی ترقی کے لیے میتھالوجیوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے ۔
یہ بات بھی واضح کردینی چاہیے کہ بلوچستان مائتھالوجیوں کی ’’ماں ‘‘ہے۔ یہ بھی، کہ یہاں کے مائتھالوجی منظم مذہبوں یعنی یہودیت، مسیحیت، ہندومت، اسلام اور بدھ مت آنے سے ہزاروں سال پرانے ہیں۔
ہم یہ ذکر صرف بلوچستان میں موجود ہندو بلوچوں کے لئے نہیں کر رہے اس لیے کہ ہندو مت تو ابھی تک مکمل طور پر ایک منظم اور واحد مذہب بناہی نہیں ہے۔ ہم توہندو مت سے بھی ہزاروں برس قبل والے بلوچستان اور اس کے اساطیر کی بات کررہے ہیں۔اسی طرح ہم اپنی اُس تاریخ کے ضمن میں بات کر رہے ہیں جس سے ہم بلوچ ہزاروں سال پہلے گزرے۔ یہ کوئی خاص مذہب نہ تھا اور نہ ہی منظم انداز میں ایک مذہبی خانے میں فٹ آتا تھا ۔یہ توسخت حالات میں رہتے ہوئے انسان کے ایسے سہارے تھے ، جو دنیا کی ہر جگہ اور ہر کمرہ میں معمولی فرق کے ساتھ موجود ر ہے ہیں ۔ اور یہاں تو ہم حضرت یسوع کی پیدائش سے بھی تین چار ہزار سال قبل کی بات کر رہے ہیں ۔
ہنگلاج زیارت پیچ و ختم کھاتے بہتے پانی کے برساتی دریا کے ساتھ ساتھ سڑک کے آخر میں واقع ہے ۔ جس کے بعد ایک بہت بڑا پہاڑ اس ندی کو بند کردیتا ہے۔
بلوچ اُسے بی بی’’ نانی کی زیارت‘‘ بھی کہتے ہیں۔ اورہزاروں سالوں سے یہاں کی زیارت کرتے ہیں۔ سرخ کپڑے پہنے، خوشبو لگائے، چراغ جَلاتے اور شیرینی بانٹتے ہوئے۔ یہ بی بی نانی کون ہے؟ ۔نانی، انا ہیتا ہے یا پھر اناہیتا، نانی ہے؟۔ پتہ نہیں ۔ہم تو صرف اتنا جانتے ہیں کہ بی بی نانی کی زیارت صرف ہنگلاج میں نہیں،ہمارے وطن میں یہ بے شمار جگہوں پر موجود ہے۔
بلوچستان مائتھالوجی کا اڈہ ہے۔۔۔۔۔۔۔ بلوچ کو کوئی تباہی کوئی زوال نہیں کہ ہم سب سے پاک و مقدس جگہ یعنی ہنگلاج کے مالک ہیں۔ دس دس دفعہ تباہ کردو بھی مائتھالوجی اسے زندہ کیے رکھے گی ۔ ۔۔۔۔۔۔ ایک دعویٰ سن لیجیے ۔ بلوچ کو آپ ڈی کلچر نہیں کرسکتے ۔
نانی مندر جاتے ہی مرید اورسادھو ہاتھ جوڑ کرآپ کا سواگت’’ ماتا جی کی جے ‘‘کہہ کر کریں گے۔عاجز، منکسر ،ملائم ، اور خوش گفتار مرید۔ مست کے مزار کے رکھوالے کو ’’ مستہ ملنگ‘‘ کہتے ہیں۔ ہنگلاج والے کو کیا کہوں؟ ۔ فقیر، مرید ،ملنگ ، یا کچھ اور ؟۔ مجھ سے انہیں سجادہ نشین نہیں کہا جاتا ، نہ ہی انہیں سادھو کہہ کر اپنی متاع گنگا جمنا کے حوالے کرسکتا ہوں۔ ہنگلاجہ پخیر، یا اِس جیسا نام !! ۔
بھئی یہ تو ہمارے بلوچ بقال ہیں۔ قمیص شلوار میں ملبوس ۔ داڑھی پگڑی والے،ہمارے ہی طور طریقے ، ہماری زبان بولتے ۔ ہاں، البتہ سائیں، بھوتار اور واجہ کے القابات ذرا زیادہ مقدار میں قے کرتے ہوئے۔یہ ہمارے اپنے سردار زدہ معاشرے کے باسی ہیں۔
تماشا دیکھیے کہ پہلے تو سردار کے پاس طاقت بھی ہوتی تھی، اُسی کی جی حضوری کرکے بقیہ چھوٹے چھوٹے ظالموں بدمعاشوں سے محفوظ رہا جاسکتا تھا ۔ مگر،اب تو سردار اپنی عوامی پُشتی بانی کھو چکا ہے۔ بس سرکاری پھوں پھاں میں بھتہ وصول کرنے والا مافیائی دادا بن چکا ہے ۔ سرکار موجودنہ ہو تو نہ وہ الیکشن جیت سکے، نہ وزیر بن سکے، نہ لیویز کی گاڑیاں ساتھ رکھ سکے۔۔۔۔۔۔ لہٰذا اس بے اختیار فرعون کی جی حضوری کرتے کرتے نانی کا بھگت ’’ہر ‘‘شخص کو جی حضور کہنے کا عادی ہوچکا ہے۔
مگر ہمیں ہمارے گائیڈ کی ایک بات سب سے اچھی لگی۔ ہوا یوں کہ کراچی کی سحر بلوچ ہم سے ناواقفیت کی بنا پر گروپ فوٹو سے ہچکچارہی تھی۔ ٹائٹ جینز پہنی یہ ننھی منی لڑکی سی لگتی تھی۔اِن سنسانوں میں جینز وہی خاتون پہن سکتی ہے جسے کراچی شہر سے نکلنا کم نصیب ہوتا ہو۔ چنانچہ جینز والی ڈان اخبار کی یہ ننھی لگتی رپورٹر فوٹو کھچوانے گروپ میں آنے سے تکلف برت رہی تھی۔ ایرانی بلوچستان کی یہ لڑکی بلوچی زبان کا ایک لفظ تک بول نہ پاتی تھی۔ تازہ تازہ ملاقات میں بھلا کیسے گھل مل جاتی !۔ جیسے ہوتا ہے، وہ ہمارے ساتھ ساتھ ہوتی، باتیں سنتی ،محظوظ ہوتی مگر خود بولتی نہ تھی اور گروپ تصویر کشی کے وقت جبلت کے ہاتھوں تین چار گز پرے ہوجاتی ۔گائیڈ کرنے والے ریش بردار پجاری نے، اُس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انتہائی ملائمت سے کہا :’’ ماتا جی آپ بھی آئیے ناں‘‘!۔
ننھی منی لگتی سحر بلوچ تو ہمارے ساتھ ہی سیڑھیاں بلندیاں چڑھتی رہی، خاموش مگر بھرپور سامعہ۔ بلوچستان کی اِس نئی ثقافتی تاریخی وسعت کو دیکھ کر جس طرح ہم باقی لوگوں کے ذہنوں دلوں کی ہوائیاں اڑرہی تھیں، سحر بلوچ اُس سب سے بے خبر لگ رہی تھی۔ شاید ہم پچپنائے سٹھیائے لوگوں کا احساسِ زیاں اِس نوجوانوں کو نہیں ہورہا تھا۔ سعدیہ بلوچ تو خیر وطن کی ایک اور نعمت سے محظوظ ہورہی تھی۔ چٹان کے سائے میں بہتی ندی کنارے سگریٹ کے کش لگانے کا اپنا ہی لطف ہوتا ہے۔ پتہ نہیں وہ کوئی شعر سوچ رہی تھی یا دور آسمانوں میں کسی نئی ستی اور شیوکا ملاپConceiveکررہی تھی۔ صنعتی معاشرہ یعنی کراچی کی شاعری کرتی ہے۔ مجھے اپنی فرسودگی پسماندگی ،اخلاقی ہیڈ ماسٹری اور فیوڈل غلام فطرت نے اُسے بھجن کے وہ الفاظ بھی سنانے نہ دیے:
نانی کے مرید ہمیں معلومات دیتے رہے۔ مگر ان کی ساری معلومات عقیدے میں گُندھی ہوئی تھیں۔ عقیدہ اور ’’ آزمانک‘‘ کی آپس میں کوئی سمبندھ ہی نہیں ہوتی ۔ آسمان کو ہم ’’ آزمان‘‘ کہتے ہیں۔ اور چونکہ پری اور دیو آزمانوں میں رہتے ہیں اس لیے اُن سے متعلق قصے کہانیوں کو ہم ’’آزمانک‘‘ کہتے ہیں۔ اور آزمان میں رہنے والی پریاں اور دیو وہی کچھ کرتے ہیں جو زمین پہ ہم انسان کرتے ہیں۔ شادیاں، محبت، اغوا، کثیر بیویاں، مستیاں، شرارتیں۔۔۔۔۔۔مگر یہاں ملنگ و مجاورتو اُنہیں ملا اور پنڈٹ بنانے لگا تھا۔ لہٰذا اُن کا سارا مبلغ علم ہمارے دانشور دوستوں کے سائنسی سوالات کے سامنے بار بارگھٹنے ٹیک جاتا تھا۔ہم اور یہ گائیڈ دونوں نادان تھے کہ ہم دونوں مائتھالوجی کو مذہب سمجھ رہے تھے۔ مائتھالوجی کو توتفصیل اور سوال قتل کردیتے ہیں۔ اور ہم نے اس درے میں موجود بہت سارے گائیڈوں ، مریدوں ور پنڈتوں کی معلومات کی لاشیں تڑپتی دیکھیں۔
بھئی 5000 برس پرانے، اساطیر سے بھرے Shrine کی معلومات ایک عام پجاری کیا دے پائے گا۔ ہمیں احساس ہوا کہ یہاں تو مائتھالوجی ، کے پی ایچ ڈی گائیڈچاہییں، یہ مِن مِن کرتے پجاریوں کے بس کی بات نہیں۔
ہنگلا ج دیوی کا Shrine دنیا بھر میں قدیم ترین مندروں میں سے ایک ہے۔ اور یہ دنیاکے Shrinesمیں مقدس ترین Shrineبھی ہے ۔
قدیم مائتھالوجی کے مطابق ستی یا دُرگا ایک دیوی تھی۔اُس کے دس بازوتھے۔ ان میں اس نے جنگی ہتھیار پکڑے ہوئے ہیں ۔ وہ راکھشسوں کو ختم کرنیوالی دیوی ہے اور اس مقصد سے اس نے بہت سے جنم لئے ہیں ۔ اسے ستی اور پاروتی (پہاڑوں والی)بھی کہا جاتا ہے ۔ اُس کے کل ناموں کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہے۔ ظاہر ہے یہ دیوی زمین پر تو نہیں رہتی تھی، دور کہیں آسمانوں میں اس کا محل ماڑی تھا۔ اور یہ پری وغیرہ ہوتی ہیں، انسان نہیں ۔ ستی کے باپ کا نام دکھشا ہے جو کہ خود دیوتا ہے، پہاڑوں کا دیوتا ۔
د کشاکی بیٹی ستیؔ کو ایک دیوتا سے محبت ہوگئی۔ ۔۔۔۔۔۔ شیو دیوتا سے :’’ تباہ کرنے والا‘‘ ’’موت کا شہزادہ ‘‘اور’’جنگ کا دیوتا‘‘۔ شیو کو بعض اوقات پانچ چہروں اور چار بازوؤں کے ساتھ اور دوسری جگہوں پرقدرتی طور پر آدمی کی شکل میں ، لیکن ایک اضافی آنکھ کے ساتھ پیش کیا گیا ہے ۔یہ کھوپڑیوں کی مالا سے آراستہ ہے ۔ وہ کٹی پھٹی لاشوں پر ناچتا ہے ۔ اور مقتولوں کی کھوپڑیوں سے خون پیتا ہے ۔ ہر سال اس کے احترام میں تہوار منائے جاتے ہیں ۔ اور ان تہواروں میں خود پر اذیت ناک تشدد کیا جاتا ہے۔ مثلاً زبان کاٹنا ، زخم میں لکڑی کے ٹکڑے داخل کرنا ۔۔۔شیو درگاہ کے علاوہ کالی دیوی کا خاوند بھی ہے۔
ہم دُرگا دیوی کی بات کررہے تھے جسے شیو دیوتا سے محبت ہوگئی تھی ۔ اوروہ اس سے شادی کرنا چاہتی ہے۔ مگر شیو ہر طرح سے اس کی حوصلہ شکنی کرتا رہا۔ ستی،درگا،یا،پاروتی نے ہر جتن کرکے دیکھا۔ اس نے روزے رکھے، دور تنہائی میں عبادت و دعائیں کیں،محبت و جنسی دیوتا کی مدد حاصل کی، منہ بولے بھائی وشنو نے اس کی مدد کی ۔مگر وہ شیو کا دل جیتنے میں کامیاب نہیں ہورہی تھی۔ وشنو یعنی ’’حفاظت کرنے والا ‘‘ کے بارے میں آپ کو بتاؤں کہ وہ ستی کا منہ بولا بھائی ہے۔ کالے رنگ کے ساتھ ۔ اس کے چار بازو ہیں۔ اس نے ایک ہاتھ میں نیزہ ، دوسرے میں سنکھ ، تیسرے میں ایک پہیہ اور چوتھے میں کنول پکڑا ہوا ہے ۔ اس کے کپڑے نارنجی رنگ کے ہیں اور وہ ایک ایسے جانور پر سوار ہے جو آدھا آدمی ہے اور آدھا پرندہ ۔ وہ گھر بار کا دیوتا ہے اور خاندان کی بدبختیوں کو دور کرنے کی طاقت رکھتا ہے ۔ وہ خوشحالی اور خوش قسمتی کی دیوی لکشمی کا خاوندہے ۔
اب واپس آئیے ستی کی طرف۔شیو کے ساتھ عشق ابھی تک یک طرفہ تھا ۔ اس کی ہر کوشش ناکام ہورہی تھی۔ مگرستی نے ہمت نہ ہاری۔ اس نے باپ کا محل چھوڑا اور جنگل میں بیٹھ گئی۔ کھانا چھوڑ دیا اور محض دن کا ایک پتا درخت کا کھا کر گزارہ کرتی رہی۔ بالآخر وہ بھی ترک کردیا۔
یوں کہیں جا کر اس نے شیو کی محبت حاصل کرلی ۔ اس نے اپنے والد کی مرضی کے برخلاف شیو دیو تا سے شادی کرلی ۔
ذرا غور کریں کہ رومانویت ہزاروں سالوں سے ہماری رگوں میں موجود ہے۔ بھئی، سنگلاخ بلوچستان کو رومانویت نے ہی رہائش کے قابل بنا رکھا ہے ۔ نہیں؟
اُس کا باپ دکشا ضدی اور مغرور دیوتا تھا ۔اس نے آگ کی ایک بہت بڑی عبادت منعقد کی اور سارے دیوتاؤں دیویوں اور شہزادوں کو شمولیت کی دعوت دی۔۔۔۔۔۔ مگر اس نے ستی اور شیو کو نہیں بلایا۔
ستی نے خاوند سے وہاں جانے کی ضد کی ۔ مگر شیو خود توجانے پہ راضی نہ ہوا البتہ اُسے جانے کی اجازت دے دی۔ مگر،بے دعوت ستی وہاں پہنچی تو اس کا باپ اس پربہت چیخا،ا س کی بے عزتی کی۔اور اس کے خاوندشیو کی زبردست تو ہین کی ۔ستی دیوی اپنے خاوند کی اِس تو ہین کو برداشت نہ کرسکی ۔ اس نے اُسی آگ میں کو دکر خودکشی کرلی ۔ دیوی مر گئی مگر اُس کاجسم جلا نہیں۔(مائتھالوجی میں ایسا ہی ہوتا ہے)۔
یہ جو ستی بننے کا رواج ابھی تک ہے ناں ہندوستان میں شوہر کی موت پہ، تو یہ دراصل ستی کی اُس وفاداری کی پیروی ہے جو اُس نے اپنے خاوند سے دکھائی تھی۔ جس کے وقار کی خاطر اُس نے خود کو آگ کے شعلوں کے حوالے کیا تھا۔
اپنی محبوبہ کی موت پہ ظاہر ہے شیو دیوتاغصے سے بپھر گیا۔ اس نے اُس کی لاش کندھے پہ رکھی اور تباہ کن رقص شروع کیا۔
شیو دیوتا کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ وہ رقص کا دیوتا بھی ہے ۔ رقص کے ذریعے وہ دنیا میں تبدیلیاں لاتا رہتا ہے۔ اُس کا ایک رقص تو بالخصوص سب سے تباہ کن ہوتا ہے ۔ وہ جب سخت ناراض یا غصے میں ہوتا ہے تو تباہی والا اپنا یہ رقص کرتا ہے۔ لولاک کو اتھل پتھل کرنے کا رقص، پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کرنے کا رقص۔ اُس روز بھی غصے سے بپھرے شیو نے یہی رقص شروع کیا۔ جب اُس کے رقص سے دنیا تباہی کے دہانے پر پہنچنے کے قریب ہوتی ہے تو وشنودیوتا ،پاروتی کے جسم کواپنے سُدرشن چکرا کے ذریعے باون ٹکروں میں کاٹ ڈالتا ہے اور اُن ٹکڑوں کوایشیابھر میں پھینک دیتا ہے۔ تاکہ لاش غائب ہوجائے اور شیو اپنا تباہ کن غصہ بھول پائے۔
ستی (پاروتی )دیوی کے جسم کے یہ باون ٹکڑے مغرب میں بلوچستان سے لے کر ، مشرق میں گوہاٹی تک ، اور دورسری لنکا تک پورے جنوبی ایشیا میں جگہ جگہ گرے۔ جہاں جہاں یہ ٹکڑے گرے وہاں’’ تیرتھ استان ‘‘یعنی مقدس زیارت گاہیں قائم ہوئیں، مختلف ناموں سے۔بلوچستان کا ہنگلاج (کُنراج پہاڑ میں واقع)سب سے مقدس ٹھہرا، اس لیے کہ پاروتی کا سر یہاں گرا۔ اس کا نام ہوا: ہنگلاج تیرتھ۔
پتہ نہیں اُس زمانے میں انسان کو جغرافیہ کس طرح معلوم تھا کہ وہ بغیر قطب نما،خلائی جہاز اور دیگر آلات کے پاروتی کی لاش کے باون ٹکڑے تلاش کر بیٹھا ۔ اور وہ بھی ،ایک ٹکڑا بلوچستان اور دوسرا ہزاروں میل دور گوہاٹی میں۔ ہم پھر آپ کو خبردار کرتے ہیں کہ مائتھالوجی کے مزے لو، سوال نہ پوچھو۔یہ ہمارے اجداد کی قائم کردہ داستانیں ہیں۔ انہیں فخر سے سنو، اپنے بچوں کو کہانی کے بطور سناؤ۔ اور اپنے ادب پہ نازاں ہو جاؤ، اپنی قدامت اور اپنی دھرتی کی تقدیس پہ اتراؤ۔
چونکہ ستی، یا، پاروتی کا سر بلوچستان میں ہے ، اس لیے اس کا ہنگلاج بقیہ اکیاون زیارت گاہوں میں سب سے مقدس ہے۔
یہ بھی ذہن میں رہے کہ ستی سے وابستہ اِن سارے باون مقدس مقامات کو کوئی بھی گزند نہیں پہنچاسکتا ، اس لیے کہ اِن سارے مقامات کی حفاظت شیو دیوتا کا ایک خونخوار اوتار کرتا ہے۔
ایک مقبول ترین روایت یہ بھی ہے کہ ’’ وچاتر‘‘ نامی ایک بادشاہ تھا۔ اس کے دو بیٹے تھے ہنگول اور سندر۔ وہ بہادر مگر ظالم تھے اور عیاش زندگی گزارتے تھے۔ وہاں کے لوگ شیو دیوتا کے پیروکار تھے۔ شہزادہ سندر نے اِن علاقوں پر حملہ کیا اور ہزارو ں کو قتل کردیا اور سو نے کے زیورات لوٹ لیے اور ٹیکس کا مطالبہ کیا۔
لوگوں نے شیو دیوتا سے اس ظالم شہزادے سے نجات دلانے کی دعا کی ۔ اُن کی دعا اور درخواست قبول کرتے ہوئے شیو دیوتا نے ایک کرامت عطا کی اور گنڑیش دیوتا نے سفاک شہزادہ سندر کو تین دنوں میں قتل کردیا۔
گنڑیش ہاتھی کے سر اور چار ہاتھوں والے موٹے آدمی کی شکل میں ہے ۔ وہ چوہے پر بیٹھتا ہے ۔ وہ اِسی درگا دیوی کا بیٹا ہے ۔ جو شو کی بیوی ہے ۔ شیو اور ستی کے اِس بیٹے کومعاشرتی معاملات پر طاقت حاصل ہے۔ کسی بینکار کے پاس چلے جائیں ، آپ کو دروازے پر گنڑیش کی تصویر بنی نظر آئے گی ۔ آپ کسی بنیے کے پاس چلے جائیں تو اس کی دوکان کی دیوار پرنمایاں جگہ پرگنڑیش کی تصویر موجود ملے گی ۔تمام کاروباری آدمی ، اس تصویر کو حفاظت کے نشان کے طور پر رکھتے ہیں ۔ خط اس کے نام سے شروع کئے جاتے ہیں ۔ اور حسابات کی کتابوں کے سرورق زعفران کے ساتھ اس کی شبیہہ سے آراستہ کے جاتے ہیں ۔
شہزادہ سندر کے قتل ہوجانے پراُ س کا بھائی ہنگول غضبناک ہوگیا اور اس نے اپنے بھائی کا انتقام لینے کی قسم کھالی۔ وہ نفس کشی، چلہ یااسی طرح کی روپوشی میں چلا گیا ۔(جس طرح ہزاروں سال بعد ہمارا بالاچ گورگیژ سخی سرور کے دربار میں چلا گیا۔ دلچسپ ہے کہ بالاچ بھی اپنے بھائیوں کا انتقام لینے کے لیے شکتی یا مافوق الفطرت طاقتیں لینے زُہد اور خدمتگاری میں رہا۔ اُسے بھی سخی سرور نے ایک مافوق الفطرت طاقت بخشی۔۔۔۔۔۔ تیز دوڑنے کی طاقت۔ دشمن اُس کا تعاقب کر ہی نہیں سکتا)۔ ہنگول کو بھی برسوں کی زُہد کے بعد ہی بالاچ کی طرح کرامت ملی ۔ یہ کہ تین دنیاؤں میں کوئی بھی جاندار اُسے آہنی ہتھیار سے نہیں مار سکتا، اور اُس کی موت صرف ایسی جگہ پر ہوگی جہاں سورج کی شعاع داخل نہ ہوسکے ۔
لہٰذا کرامتوں سے لدے پھندے اِس ہنگول باشاہ نے آس پاس کے دوسرے بادشاہوں کو شکست دی، دہشت اور ظلم سے اپنی حکمرانی وسیع کردی۔ اس نے خود کو ہنگول دیوتا کہلانا شروع کردیا۔ لوگ اس کی حکمرانی میں ظلم اور بربریت سے تھک گئے، بیزار ہوئے۔ انہوں نے دیوی ماتا کے حضور ہنگول بادشاہ سے نجات کے لیے عبادتیں سجائیں۔ بالآخردیوی ماتا ظاہر ہوئی اور ہنگول کوقتل کردینے کا وعدہ کیا۔ ہنگول فرار ہوکربلوچستان کے اِس علاقے آیا اور ایک اندھیرے غار میں چلا گیا مگر تعاقب کرتی دیوی ماتا اپنے لکڑی کے ہتھیار ’’ ترشول‘‘ کے ساتھ آئی اور اُسے قتل کردیا۔ اپنے آخری سانسوں میں ہنگول نے دیوی ماتا سے درخواست کی کہ مستقبل میں یہ جگہ اُس کے نام پہ ’’ ہنگول تیرتھ ‘‘ کے نام سے پکاری جائے ۔ جسے دیوی نے قبول کرلیا۔
میں اِس زیارت گاہ کے لیے’’ واحد‘‘ کا صیغہ یونہی استعمال کررہا ہوں۔بھئی یہاں ایک ٹمپل نہیں ، یہاں تو ٹمپلز ہیں۔ اس ایک جگہ پرکئی زیارت گاہیں ہیں۔ ویسے بھی اوپر ہم نے دیکھا کہ ایشیا کی ساری مائتھالوجی ، سارے آزمانک ستی اور شیو سے نکلے ہیں۔ کوئی اُن دونوں کا بیٹا ہے، کوئی بھائی۔ تقریباً سب کچھ اسی خاندان سے منسوب ہے ۔چنانچہ گنٹریش کی پوجا یہاں ہوتی ہے،، ہنومان اور کالی ماتا کی بھی ،تیر کُنڈ، گروگور کھ ناتھ ، براہم کُنڈ، رام جروخا بیٹھک، انیل کُنڈ۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے ذہنوں میں مندر کا جو تصور ہندوستانی فلموں نے ڈال دیا ہے وہ غلط ہے ۔ بلوچستان کے یہ مقامات مذہب کی عبادت گاہیں نہیں ہیں۔ یہ تو دیوی دیوتاؤں،بہادروں، درویشوں کے عشق و محبت، جنگ و جدل، اورشوق و شغل کے آسمانی قصوں کا زمینی صورت ہیں۔ ہنگلاج سے لے کر نورانی تک اور مست توکلی سے لے کر سسی پنوں تک ۔۔۔۔۔۔ہنگلا ج تو بالخصوص ہندوستانی فلموں والا مصنوعی مندر نہیں ہے ۔ اس لیے کہ نہ یہاں کوئی کمرہ گنبد ہے اور نہ کوئی گھنٹی گھڑیال ہے۔ اسے مندر کے بجائے متبرک جگہ کہنا چاہیے ۔ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ یہ کیسی مقدس جگہ ہے۔
جغرافیائی طور پر ہم بتا چکے ہیں کہ ہنگلاج ماتاکا یہ تیرتھ استان بلوچستان کے ضلع لسبیلہ کی لیاری تحصیل کے دور دراز اور دشوار گزارکوہستا نی علاقے میں ایک تنگ درے میں ہے۔ آپ پہاڑی دریا ( بارشوں کی عدم موجودگی میں بھی ایک ندی جتنا رواں پانی) کے کنارے چلتے جائیں، اور اچانک سامنے گیٹ لگا ملے گا۔اندر داخل ہوں تو عبادت گاہوں کی ایک قطار ملے گی۔ وہاں لگا ہوا بڑا نیلا بورڈ یوں کہتا ہے :
’’جئے ماتا دی ۔ ہنگلاج مندر لسبیلہ شیوا میں۔مُکھی شام لال لاسی‘‘ ۔( مجھے مکھی شام لال کے ساتھ لفظ لاسی بہت اچھا لگا۔ مجھے بگٹی اور ڈومبکی ہندو اچھے لگتے ہیں کہ وہ اپنے نام کے ساتھ اپنا قبیلہ بھی لکھتے ہیں۔ میں ہمیشہ سے چاہتا ہوں کہ بلوچ ہندو، بلوچ سید، اوربلوچ آرٹسٹ ( لوری ، لوڑی، ترکھان، جت ، مریٹہ )کو اپنے نام کے ساتھ اپنا قبیلہ ضرور لکھنا چاہیے۔ اس شناختی علامت کے ساتھ وہ کوئی مساوات تو نہ پائے گا لیکن رفتہ رفتہ کمیونٹی میں ضم ہونے میں آسانی ہوگی)۔
یہاں آتے ہی سب سے پہلو ہنومان کا مندر ملے گا۔ چھوٹا گیٹ ہے، اندر داخل ہوں تو ہنومان کے بت رکھے ہیں مختلف پوز میں۔ پوسٹر، جھنڈے، سندور، تیل کا چراغ۔۔۔۔۔۔
یہاں سے ،نکلیں آگے بڑھیں اور ندی کنارے درے میں چلتے جائیں۔ چھوٹی چھوٹی پہاڑی غاروں میں مختلف عبادت گاہیں ہیں۔
جھنڈیوں پوسٹروں سے لدے پھندے ایک چھوٹی غار میں ایک عجب منظر ہے۔ ایک عورت نما لاش پڑی ہے اُس پہ (دس ہاتھوں والی ،ہار پہنی)ایک اور خاتون کھڑی ہے جس نے اپنا ایک پاؤں اُس کی لاش پر رکھا ہوا ہے،بالکل سلطان راہی کی فلموں کے طرز پر۔ اُس نے ایک ہاتھ میں ایک مرد کا کاٹا ہوا سر بالوں سے پکڑ رکھا ہے۔ باقی نو ہاتھوں میں بھی دوسری کئی باریکیاں ہیں۔ اوراس کے ساتھ بورڈ پہ لکھا ہے :’’ماں کالی ‘‘۔
ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ کالی جو اپنے جنگی کارناموں کی وجہ سے مشہور ہے ۔ وہ اپنے خاوند شیو کے بالکل شایان شان ہے۔اسے سانپ کے بالوں اور خوف و دہشت کی ہر خصوصیت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے ۔ اس نے ایک مرتبہ ایک راکھشس پرفتح حاصل کر لی اور اس فتح سے اتنی خوش ہوئی کہ اس نے انتہائی زور سے ناچنا شروع کر دیا ۔ جس سے زمین کی بنیادیں تک ہل گئیں ۔ اور بہت سے لوگ ہلاک ہو گئے ۔ جب اس نے دیکھا کہ مُردوں میں اس کا شوہر شیو بھی شامل ہے تو وہ بہت دہشت زدہ ہو گئی ، اس نے بہت زیادہ لمبائی میں اپنی زبان نکالی اور بت کی طرح بے حس و حرکت رہ گئی ۔ اسے اسی انداز میں پیش کیا جاتا ہے ۔
’’ مشکی ‘‘ رنگت کا ہمارا خارانی دوست ضیا شفیع اور اُس کا کیمرہ بردار موبائل اگر ساتھ نہ ہوتے تو ہم ہنگلاج آزمانک کی بھول بھلیاں نہ یاد رکھ سکتے تھے اور نہ اُ ن پر یہ رپورتاژ لکھ سکتے تھے۔ نا مکمل خواہشوں سے بھرا ہوا اُس کا دل اس سے حساسیت بھری شاعری کرواتا ہے تو خوش طبعی اُس کی ’’ سوزارنگی‘‘ کو حسین بناتی ہے۔ جب چاہے دانشور بن جاتا ہے اور جب ضرورت ہو خدمتگار ۔ خدا اُسے اپنی اچھی بلوچیت کے ساتھ چمٹے رہنے کی توفیق دے۔
یہ زیارت دیکھنے کے بعد آگے چلتے جائیے ، ندی کراس کیجئے اور اب بائیں طرف وہShrineآئے گا جس کے لیے ہم آئے تھے۔یہ مقدس مقام ایک چھوٹے قدرتی غار (جُڈو)میں ہے۔ سرخی مائل سیڑھیاں چڑھ کر اوپر جائیں۔ سیڑھیاں آپ کوپہاڑ پر بلندی پہ بنے ایک پلیٹ فارم تک لے جائیں گی ۔ آپ وہاں بیٹھیں تو آپ کو اپنے ساتھ ہی پہلو میں،چار پانچ گز کا ایک غار نظر آئے گا۔ یہی ہے Shrine۔
وہاں بڑا فقیرنارنجی رنگ کی پگڑی پہنے بیٹھا ہے۔ قمیص شلوار میں۔ یہ اپنا سندھی مانڑھو ہے ۔اصل فقیر چھٹی گیا ہوا ہے اور یہ اُس کا replacement ہے ۔
وہیں اُس کے پیچھے بائیں طرف بالٹیاں ڈبے اور راشن پانی رکھا ہے۔ اُسی غار یا جڈو کے فرش پر پہاڑ ہی سے پاروتی کا سر بنا ہوا لیٹا ہے۔ میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ یہ انسان کا بنایا ہوا پاروتی کا بت نہیں ہے۔بلکہ یہ اُس پہاڑی غار کے فرش کے پتھر میں ایک ابھرتی ہوئی صورت ہے۔ جیسے ایک خاتون سوئی ہوئی ہو۔ اُس کا سر ، ناک کا ابھار اور ناک کے دونوں اطراف چھوٹے گڑھے آنکھوں کی صورت ہیں۔ پتھر سے بنا، لیٹا ہوا، قدرتی بت۔ اُس کے چہرے پر ایک باریک سرخ کپڑا چُست انداز میں بچھایا ہوا ہے ۔ جہاں سے ناک کا ابھار صاف نظر آتا ہے ۔
اس مورتی والے پتھر اور آس پاس پہاڑ کو سندور سے سرخ گردیا گیا ہے۔ اگر بتیوں کے گچھے ہیں۔عجیب الخلقت جانوروں کی تصاویر کے پوسٹر لگے تھے، اُن پہ ہار پہنا رکھے تھے۔روایتی ترشول وہاں فکس تھا۔ آس پاس جھنڈے بینرز تھے، پینا فلکس تھے۔ سب زیادہ تر تاریخی رنگ کے ۔ یوں اس مقام کا قدرتی حسن فوت ۔اور دیوی دیوتاؤں کے ہیبتناک واقعات سامنے موجود ہوتے ہیں۔
اسی پلیٹ فارم یعنی ماتا کے بت کے نیچے نیم دائرے میں کھدی ایک سرنگ ہے۔جس میں لوگ رینگتے رینگے گھٹنوں کے بل نیم دائرہ کے ایک طرف سے جاکر دوسری طرف سے نکلتے ہیں۔ اسے ’’ گربھ گپھا‘‘کہتے ہیں۔ زرد پٹکا پہنے گائیڈ نے اُسے ’’ ماتا کا گربھ‘‘ کہا تھا یعنی ماں کا پیٹ ۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ اس تنگ و تاریک دس بارہ گز کی نیم دائرہ نما غار میں سے ہو آئیں توسمجھیں آ پ کے سارے سابقہ گناہ ختم ہوگئے ہیں۔ اور آپ ایسے پاک صاف ہوجاتے ہیں جیسے ماں کے پیٹ سے ابھی ابھی پیدا ہوئے ہوں۔
اس مراد مند سرنگ میں خواہشیں رکھنے والے لوگ گھٹنوں اور پیٹ کے بل رینگتے باہر آتے ہیں۔۔۔۔۔۔ ہم بھی سفید کپڑوں اور سرکے سفید بالوں کو جھٹک کر اپنے اندر موجود بچے کو بہلانے اُس گربھ گپھامیں سے گھٹنوں کے بل چلے۔ ہاں ہاں، منت بھی مانگی۔
یہ الگ بات ہے کہ سرنگ بازی کرتے وقت میری عینک وہیں گپھا میں گر گئی۔ کمزور عقیدے کا مالک، میں بہت خوش تھا کہ گپھا میں میری عینک گم نہیں ہوگئی بلکہ اُسے تو ستی ماتا نے رکھ لیا۔ اب بس میری نظرخود بخود ٹھیک ہوجائے گی اور عینکوں کی ضرورت نہ رہے گی۔ مگرایسی کوئی کرامت میرے ساتھ نہ ہوئی۔ مجھے جیند خان کی عینک ادھار لینی پڑی گوادر تک، اور وہاں سے کوئٹہ تک۔
میں نے دل میں طے کر لیا کہ میں سائنس کی دنیا کا فرد ہو کر بھی اِس علاقے اور اِن زیارتوں کی عزت کرتا رہوں گا۔ بھئی یہ ہمارے ادب، ہماری ثقافت کا حصہ ہیں۔ میں’’ آؤٹ ڈیٹ‘‘ کہہ کر اپنے آباواجداد کو مسترد نہیں کرسکتا۔ انہوں نے عالمگیر صداقتوں کو پہلی بار بطور علم کے پہنچانے کے لیے مائتھالوجی بنائی اور پانچ چھ ہزار سال قبل ہمیں بتایا کہ ’’ خیر‘‘ کے واسطے جدوجہد کرنے والوں کو عوام کی طرف سے پانچ ہزار سال بعد بھی یاد رکھا جاتا رہے گا۔ آباؤ اجداد کے زمانے کے اہداف ، خوفوں ، آرزوؤں کو مجسم شکل دینے کے لیے جو کہانیاں بنائیں ، ہمارے عوام اب تک انہیں یاد رکھتے ہیں۔
پاروتی کے بت کے ساتھ بیٹھے پنڈت کے ساتھ ہی ایک بڑا سا چوکور ڈبہ رکھاہے۔ اس پر نیچے ہندی میں کچھ لکھا ہے ۔ اور اُس سے اوپر کی لائن پہ اردو میں یوں لکھا ہے:’’ پیسے پیٹی میں ڈالیں‘‘۔ واضح رہے کہ اُس وقت تک ہم نے عامر خان کی مشہورفلم ’’ پی کے‘‘ نہیں دیکھی تھی۔( عامر خان نے ہنگول بھی تو نہیں دیکھا )۔
میں نے500 روپے کا نوٹ اُس کے ڈبے میں کسی پیارے کا نام لے کر ڈال دیا۔ دربار کے ملنگ نے جواباًمجھے ایک ناریل دے دیا۔یہاں زائرین ، بالخصوص دیا لوزائرین کو ایک ’’الوداعی‘‘ ناریل دیا جاتا ہے۔یہ ناریل ،میں اُسی پیارے وجود کے لیے لے گیا جس کے لیے منت مانگی تھی اورجس کے لیے خود کو سرنگ آلود کیا تھا۔
یہاں سیمنٹ کی خوبصورت پگڈنڈیاں ہیں، پُل ہیں، ریکنگ ہیں۔ سبزہ ہے ، جن میں گزکی قدرتی جھاڑیاں بھی ہیں اور انسانی لگائے گئے درخت و پودے بھی۔ البتہ برگد کا درخت مجھے یہاں کہیں بھی نظر نہ آیا۔ ساتھ میں بہتے نالے کا ذکر ہم پہلے ہی کر چکے ہیں۔
نانی مندر کی غار کے عین سامنے نیچے ندی کنارے ذرا سی جگہ کو جوبہ مشکل ایک بڑے کمرے کے برابر ہوگی ، پارک جیسا بنا دیا گیا۔ پتلے آہنی ڈنڈے وہاں لگے تھے جن کے سروں پر بجلی کے خوبصورت بلب اور جھنڈے تھے اور اُن کی بنیادوں پر پودے اور پھولوں والے بیل لپٹے تھے۔اس پارک نما جگہ پر ترشول گاڑے ہوئے ہیں(ترشول شیو کا ہتھیار ہوا کرتا تھا )۔اس پارک نما جگہ پر سفید بیل کا خوبصورت مجسمہ ہے جس پر سرخ کپڑا کوہان سے آگے گردن پہ اور کوہان کے پیچھے پیٹھ پر آرائشی انداز میں لپٹا ہوا ہے۔
وہیں پر سیمنٹ سے بنا شیولنگ زمین میں پیوست تھا۔ جسے ناگ جیسا ڈھانچہ گویا سایہ کیے ہوئے تھا۔سجادہ نشین نے اس کی تشریح اِس طرح گھما پھرا کرکی جس طرح کہ پادری ’’اگر مگر چونکہ چنانچہ ‘‘کرتا رہتا ہے۔ جیسے وہ کوئی جھوٹ بول رہا ہو۔ آپ جب بھی ہزاروں برس پرانی بات کا تذکرہ کرتے ہوئے اسے آج کے اخلاقی معیار کے ساتھ ہم آہنگ کرنا چاہیں گے، تو آپ پھنس جائیں گے ۔ آپ اپنی دانش کی بڑھوتری روک دیں گے اگر آپ مائتھالوجی کو سائنسی پیمانہ دینے کی کوشش کریں گے۔چنانچہ پنڈت پھنس چکا تھا ۔ اُس نے سیدھے سادے شولنگ کے ساتھ فلسفہ جوڑدیا اورہمیں ہمیں سمجھاتے سمجھاتے وہ اور فلسفہ دونوں ہلکان ہوچکے تھے۔ ہم نے اپنے سابقہ علم ہی کو غنیمت جانا جس میں شیولنگ بس شیولنگ ہوتا ہے۔مرد کا آلہِ تناسل۔ شیو کا آلہِ تناسل۔ حتماً جنسی خواہش پیدا کرنے، یا جنسی خواہش کی تکمیل کا نشان۔ بھئی مائتھالوجی آپ کی میری فیوڈل اخلاقیات پر پھٹکار بھیجتی ہے۔ سیدھی بات ہے کہ خواتین میں جنسی خواہشات اور ضرورت کی تکمیل کا ٹوٹکہ ہے شیو دیوتا کا آلہ تناسل ، شیو لنگ۔
یہ بلوچ میتھالوجیکل سائٹ پورے ہند وستان میں بالخصوص کلدیوی ، کھشتر یہ اور دیگر گروہوں میں مقدس ہے ۔ یوں یہ ہند وستان ،پاکستان اور دنیا کے دیگر ملکوں لوگوں اوربلوچستان کے بلوچوں (بالخصوص ہندو) بلوچوں کی ایک مشترک زیارت گاہ ہے ۔یہاں اپریل میں چار روزہ زبردست میلہ ہوتاہے۔ انڈیا، نیپال اوردنیا بھر سے زائرین آتے ہیں۔بلوچ اس میلے میں جوش و خروش سے شامل ہوتے ہیں۔ وہ غیر ملکی زائرین کا خیال رکھتے ہیں۔ ہندوستان کا بادشاہ سمراٹھ وکرم جیت سارا ہندوستان فتح کرنے کے بعد یہاں شکر گزاری کے لیے حاضر ہوا تھا۔ مغل بادشاہت کا راجہ ٹوڈر مل بھی یہاں زیارت کے لیے آیا تھا۔شاہ لطیف سے لے کرہندوستان کے طاقتور وزیر خارجہ جسونت سنگھ (جنوری2006)تک صدیوں سے لوگ زیارت کرنے یہاں آتے ہیں۔
جسونت سنگھ کیا چیز ہے بھئی ،یہاں عبادت کے لیے تو خود رام بھی آیا تھا۔رام کو جانتے ہو ناں؟اُس کا شمار بھی زندہ نمونوں میں ہوتا ہے۔ وہ مشہور داستان ، رامائن کا ہیرو ہے ۔ رام کا مطلب ’’ خوشی ‘‘ یا ’’ خوش کرنے والا ‘‘ ہے ۔ اس دیوتا کے نام کو پوشیدہ طورپر لا زوال طاقت کے متعلق تصور سے وابستہ کیا گیاہے۔اسی سے رام رام ،’’ خوشی ‘‘ یا ’’ تم خوش رہو ‘‘ اخذ کیا گیا ہے ۔ اس نے ہنو مان( بندر دیوتا) کے ہمراہ بہت سی مہمات کیں ۔
’’ ہنو ‘‘ سنسکرت کا لفظ ہے جس کا مطلب ’’ رخسار کی ہڈی ‘‘ ہے۔ سورج کے مدار سے گزرنے کے بعد ، بندر کے رخسارکی ہڈی ٹوٹ گئی ، اسی وجہ سے اسے ہنو مان یا بندر دیوتا کہا جانے لگا ۔ وہ غیر فانی ہے اور انسانوں کو لمبی زندگی عطا کرتا ہے ۔ جنم دنوں پر اس کی پوجا کی جاتی ہے ۔
مارکس نے ہندوستان میں انسانیت کی اس بے عزتی کا زبردست نوٹس لیا ۔ جہاں انسان جو کہ پوری فطرت کا مالک ہے ‘ہنو مان بندر ، اور سبالا گائے کی عبادت میں اپنے گھٹنوں کے بل گر گیا ۔ہم بھی بلوچ مائتھالوجی کو کسی منظم مذہب کا رخ دینے کے سخت خلاف ہیں۔ اور دانشوروں کو خبردار کرتے ہیں کہ وہ بے شک اپنے مستقبل یعنی گوادر کی حفاظت کریں، مگر اُن کا ماضی، اُن کا کلاسیک اور اُن کی مائتھالوجی کو بھی زبردست خطرہ لاحق ہے۔ لوگ ہمارے ہنگلاج کو ہمارے بلوچستان کوریڑھی پہ لادکر دہلی میں مذہب بنا رہے ہیں اور پھر اُسے سیاست میں بی جے پی کے ذریعے استعمال کرکے سیاسی اقتدار حاصل کررہے ہیں۔
بہر حال، رام نے جب راونڑ کو قتل کردیا تو اپنا یہ گناہ بخشوانے اور کفارہ کرنے وہ ہنگلاج آیا تھا۔ بھئی حیران مت ہوجاؤ۔ مجھے پتہ ہے رام اچھا شریف آدمی تھا جبکہ راونڑ بدکار اور بدمعاش تھا ۔ رام نے اُسے قتل کرکے بہت نیکی کا کام کیا تھا۔ مگر ،اب وہ بلوچستان میں آکر، ہنگلاج میں بیٹھ کر اُس پہ معافیاں مانگ رہا تھا۔ بات یہ ہے جی کہ راونڑ، براہمنڑ ذات کا تھا !۔ اور براہمنڑتو ہمارے سیدوں کی طرح اونچی اور پاک ذات ہوتے ہیں۔ انہیں قتل کرنا بہر حال گناہ ہوتا ہے خواہ وہ راونڑ جتنا بدکردار کیوں نہ ہو، اور قاتل ،رام جیسا پاک اور باغیرت ہی کیوں نہ ہو۔اس لیے رام نے یہاں آکر کفارہ ادا کیا۔
رام سید زادے کے قتل پہ ہی یہاں گڑگڑا کر معافی مانگنے نہیں آیا تھا بلکہ اس لیے بھی وہ یہاں آیا تھاکہ راونڑ ، شیو اور ستی کا بہت بڑا ماننے والا تھا ۔ جس طرح دنیا بھر میں ظالموں، جابروں ، قہاروں، بدمعاشوں اور ڈاکوؤں کے پیر مرشد ہوتے ہیں۔اور وہ وہاں خیراتیں چڑھاوے ،منتیں کرتے ہیں۔ اسی طرح راونڑ بھی شیو کاپکا مرید تھا۔ چنانچہ رام کے لیے شیو کو منانا ضروری ہوگیا تھا ، کہ اس کا مریدِ خاص قتل ڈالا تھا رام جی نے۔۔۔۔۔۔۔
الغرض، بلوچستان اگر ایک طرف شیو اور درگا دیوی کا استھان ہے تو دوسری طرف شری رام اور شاہ لطیف کی عبادت گاہ بھی ہے۔
یہاں، برسبیل تذکرہ ایک بات کہنے کی یہ بھی ہے کہ ہنگول پارک ایسا ٹورازم سپاٹ نہیں جہاں حکومت کو مصنوعی آرائشیں سہولتیں یا عیاشیاں مہیا کرکے لوگوں کو بلانا پڑے ۔ یہاں تو آٹومیٹک طور پر لاکھوں زائرین نے آنا ہوتا ہے۔ کسی نے کوئی برا خواب دیکھا، اُسے رفع کرنے کو ، کسی کی منت پوری ہوگی اُس کا نذرانہ دینے کو، کسی کی کوئی تمنا اور خواہش ہو وہ آئے گا مانگے گا۔۔۔۔۔۔ پوری ایک دنیا ہے جسے حکومتیں ریاستیں مہیا نہیں کرتیں تو وہ مانگنے پیروں فقیروں کے درباروں کا رخ کرتے ہیں۔ نیز یہاں عام سیاحت کے لیے نوجوان لوگ براعظموں کے سفر کرتے ہیں۔ اسی طرح تاریخ، ادب اور مائتھالوجی کے طالب علم تحقیق اور ریسرچ کرنے یہاں کی مسافرت کرتے ہیں۔ لہٰذا حکومت سے یہ کہوں گا کہ اُسے پرکشش بنائے یا نہ بنائے اُسے تکالیف و پریشانیوں سے مبرا علاقہ بنا دے۔
ویسے ہم نے یہاں اچھی خاصی سہولتیں دیکھی بھی ہیں۔ یہاں سولر پلیٹوں کے ذریعے دن رات بجلی موجود ہے اور ایک دور افتادہ ، غیر آباد علاقہ عجیب رنگوں اورمختلف طاقت کے بلبوں سے روشن رہتا ہے۔ ڈیزل جنریٹر اُس کے علاوہ ہیں۔باتھ روم بنے ہوئے ہیں۔
یہاں گیان اور بھجن ہوتا ہے اور پرشاد تقسیم ہوتی ہے ۔میں سوچتے ہوئے حیران ہوتا ہوں کہ اِس میلے سے دیو ما لائی بلوچستان کے حسن و موسیقیت میں کیا اضافہ کیا جاسکتا ہوگا ، خواہ وہ موسیقی بھجن ہی کیوں نہ ہو ۔ بلوچستان کی خاموش نبض اپنے اندر کس قدر متنوع نبضیں رکھتی ہوگی ، کتنے اور ملینیم چاہییں اندازہ کرنے کو۔ بھجن تو اُس خاموش و دھندلی روحانیت کو خوب بے آرام کرتا ہوگا جو ازل سے یہاں موجود ہے۔
نانی مندر کو قدیم کتابوں میں ’’ ماروتِر تھا ہنگلاج‘‘ بھی کہتے ہیں۔ یعنی ہنگلاج، صحرا کی زیارت گاہ ۔ اسی نام کا ایک بنگالی ناول بھی ہے جس میں مصنف نے اپنے سفرِ زیارت کی تفصیلات بیان کی ہیں۔ بعد میں اسے فلمی صورت بھی دی گئی۔
اِس قدر مشہورShrines میں ایک طرح کی گھمبیرتا، ایک طرح کا بھاری پن موجود ہوتا ہے۔ ایک حرمت بھری خاموشی ۔ آپ شاؤلین ٹمپل میں ہوں یا نانی کے مندر میں، عقیدہ نہ رکھتے ہوئے بھی ، اِن کا پیروکارنہ ہوتے ہوئے بھی، اُس بھاری پن سے مبتلا ضرورہوتے ہیں۔ ایک پُر شکوہ عظمت اورحسن آپ کو اپنی آغوش میں لیتا ہے۔
زیارت گاہ کے سامنے والے پہاڑ پر سورج کی طرح کا قدرتی سورج کندہ ہے ۔ عقیدہ ہے کہ چونکہ رام چندرجی سورج و نشی تھا یہ اُسی کی نشانی ہے۔ جب رام نے توبہ اور کفارہ والی اپنی عبادت مکمل کی تو اپنے کمان سے تیر مار کر اپنا یہ نشان یہاں بنالیا۔
اور یہ ساری باتیں ہمیں کوئٹہ اور کیچ کے پی ایچ ڈی نہیں بتارہے تھے بلکہ عام آدمی بتارہا تھا۔ یہ اُس نے آج کے ٹی وی، سمینا ر، اور وڈیو گیمز سے نہیں سیکھے تھے بلکہ تحریر کی سہولتوں سے مبرا، زبانی روایتوں سے سنبھالے، دوسرے لوگوں سے سن کر محفوظ کیے تھے۔ عوام اپنی کلچرل میراث کو خود محفوظ رکھے گی۔ یونان کے اپنے سمیت پورا پوسٹ ٹکنالوجی والا یورپ زور لگا کر دکھائے، عوام الناس کے دلوں سے پرومی تھی اَس نہ مٹا پائیں گے۔
آخر میں بس یہ ، کہ شاہ لطیف بھٹا ئی ہنگلا ج مندر کی زیارت پر آیا تھا۔ میں نے اُس کی شاعری کے اندر اُس کے اِن زیارتی سفر وں کے بارے میں ا شعار پڑھ رکھے ہیں۔ مسرت ہوئی کہ آج شاہ لطیف کے مقدس پیروں کی پیروی میں ہم نا چیزلوگ رینگ رہے تھے۔ گو کہ شاہ لطیف کی حالت کے برعکس ہم پیدل بھی نہ تھے، ننگے پیر بھی نہ تھے،اور بے راشن بھی نہ تھے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر کمٹ منٹ؟؟؟

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*