جُھوٹے بہانے چھوڑ جاؤ

میں جانتی ہوں کہ وقت بہت آگے نکل گیا ہے
اور میں بہت پیچھے رہ گئی ہوں
مجھے اس بات کا کوئی بھی شکوہ نہیں ہے
کہ تُم کُچھ بھی کہے سُنے بغیر جا چُکے ہو
پر یہاں بہت کُچھ چھوڑ گئے ہو
وہ بھی اپنے ساتھ لے جاتے تو اچھا تھا
اِک مشترکہ لمحہ تھا
اِسے آدھا کر سکو تو
آدھا لے جاؤ اور آدھا چھوڑ دینا
وہ لمحہ بھی خیالی تھا
خیال کی تقسیم کیسے ہوگی؟
میں حساب کتاب میں بہت ہی کوری ہوں
سو یہ بھی تُم پہ چھوڑتی ہوں
میرے بستر کی شکنوں میں کُچھ بھی نہیں ہے
وصال کا ایک لمحہ بھی نہیں ہے
صرف چند سلوٹیں ہیں
شاید وقت انہیں ٹھیک کر دے گا
نہ بھی ٹھیک ہوئیں تو
نیند نہ بھی آئی تو
کیا لوگ سلوٹوں بھرے بستر پہ لیٹنا چھوڑ دیتے ہیں؟
کُچھ روشنی کی بُجھی ہوئی کرنیں ہیں
امیدوں کی راکھ ہے
اور اِک وعدہ بھی آنے کا
جو کبھی پورا نہ ہونا تھا
اور بہت سی خموشی جو رگِ جاں سے لپٹی
ہر وقت کچوکے لگاتی رہتی ہے
بہت سی کڑوی کسیِلی باتیں ہیں
وہ سارے سوال جن کے جواب کبھی نہیں ملے
تمہارے اَن لکھے خط جن کے جواب میں لکھتی رہی
میں اُن کا کیا کروں گی؟
وہ بھی لے جانا
کہ یہ سب کُچھ مُجھے بہت ستاتا ہے
اپنے دُکھ درد
ٹُوٹے ہوے خوابوں کی کرچیاں جو چبھتی رہتی ہیں
یہ چُبھن ہی زندگی کا کُل اثاثہ ہے
وہ سب میں نے رکھ لیا ہے
اور
ہاں اِک لفظ ہے
جو وفورِ جذبات میں تُمہارے ہونٹوں سے پھسل گیا تھا
بس اُسے چھوڑ دینا
میں تمہاری طرح پریکٹیکل نہیں ہوں
کہ مجھے اِس شام کے جُھٹپُٹے میں
جینے کے لیئے بہانوں کی ضرورت اب بھی پڑتی ہے
چاہے وہ جھوٹے ہی کیوں نہ ہوں

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*