ماہنامہ سنگت جولائی کا اداریہ

جھوٹ موٹ کی رونق

پسماندہ ممالک میں بجٹ بھی دیگر بہت سی بے کرامت اور بے اثر رسومات میںسے ایک ہے ۔ گوکہ کپٹلزم اُسے ایک بڑا ایونٹ بنانے کے لیے پروپیگنڈہ کے سارے دروازے کھول دیتا ہے ۔ پری بجٹ سیمنار کرائے جاتے ہیں، خزانے کے آئی ایم ایفی وزیر کی ٹی وی پہ آنیاں جانیاں کرائی جاتی ہیں اور ”ہر فن مولا “اینکرز کے تخمینے ،انداز ے اور شورو غوغا آسمان سر پہ اٹھا لیتے ہیں۔
اسی طرح کپٹلزم میں دکھاوے کا ایک حزبِ اختلاف بھی ہوتا ہے ۔ بجٹ کے دنوں میں متعین کام کے عین مطابق اُسے بھی حرکت میں لایا جاتا ہے ۔ ”ایسا کریں گے ، یہ نہیں کرنے دیں گے“ ۔ اور اس سارے فکس کھیل میں حکومت اور اپوزیشن دونوں ”عوام عوام “ کا ورد کرتے رہتے ہیں۔
خلق دوست دانشور اِس سارے ابال اور مصنوعی میلے کا پول لوگوں کے سامنے کھولتے رہتے ہیں۔ اور اب تو خود لوگوں کو بھی اس کا اچھا خاصا تجربہ ہوچکا ہے ۔ مثلاً یہ کہ تیسری دنیا کے سارے بجٹ نہ تو پیش کرنے والے دن پیش ہوتے ہیں اور نہ ہی منظور ہونے کے دن منظور ہوتے ہیں ۔ چنانچہ پارلیمنٹ میں پیش کیا جانے والا بجٹ اصل بجٹ نہیں ہوتا ۔ یہ تو نقلی اور دکھاوے کی رونق ہوتی ہے جو سرمایہ دارانہ جمہوریت کے کھوکھلے پن کی علامت ہوتی ہے ۔ پیش کرنے والا بھی جانتا ہے کہ وہ اصل بات نہیں کر رہا ہے ، مخالفت کرنے والا بھی جانتا ہے کہ وہ تفریح کے بطور تقریر کا فن دکھا رہا ہے ۔ ۔۔ اور آخر میں منظوری دینے والے اسمبلی ممبروں کو بھی پتہ ہوتا ہے کہ اصل کھیل بند دروازوں کے پیچھے ابھی سجناہے۔
یہ بھی اب سب کو معلوم ہے کہ تیسری دنیا کا اصل بجٹ آئی ایم ایف بناتا ہے ۔ اُس بجٹ کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ ملک کے اندر جاگیرداروں سرمایہ داروں کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے ۔ اور ملک کے باہر امریکی اسلحہ ساز کمپنیوں کے مفادات کا خیال رکھتا ہے ۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ حکومت خواہ جس پارٹی کی بھی ہو مگر بجٹ ایک جیسا ہوتا ہے ۔
عوام کے حصے میں ٹیکس آتے ہیں ، مہنگائی آتی ہے اور بے روزگاری آتی ہے ۔ مگر وہ مہنگائی بجٹ والی ہوتی تو بھی غنیمت ہوتا ۔اس لیے کہ وہ ایک ہی دن نافذ ہوجاتی۔ مگر یہاں مہنگائی تو بجٹ کی منظوری کے دس پندرہ دن بعد آتی ہے، او رپھر آتی ہی رہتی ہے ۔ ہر پہلی تاریخ کو پٹرول ، بجلی اور گیس کے نرخ بڑھا ئے جاتے ہیں ۔اور مہنگائی کرنے کے اعلان کے ساتھ ہی کوئی ایسا واقعہ ضرور کرایاجاتا ہے کہ سارے میڈیا کا رُخ اُس واقعہ کی طرف ہوتا ہے اور مہنگائی کی خبر اُس میں دب کر رہ جاتی ہے ۔ بہت استادی کے ساتھ یہ سب باتیں کی جاتی ہیں۔
یہ جھوٹ بھی پھیلاجاتا ہے کہ ہم آئی ایم ایف سے اپنی ضرورت کی وجہ سے قرض لیتے ہیں۔ نہیں نہیں ، ایسا بالکل نہیں ہے ۔ ہم تو آئی ایم ایف کے حکم پہ اُس سے قرض لیتے ہیں۔ وہی ہمیں قرض کی ضرورت کی عرضی لکھواتا ہے ، قرض کا حجم لکھواتا ہے ، سود کی شرح پر دستخط کرواتا ہے اور ادائیگی کا طریقہ طے کرتا ہے ۔ ہم قرضہ لیتے جاتے ہیں اور اپنا سب کچھ اُس کے ہاں رہن رکھتے جاتے ہیں۔ یوں پھر، ہماری خارجہ پالیسی آئی ایم ایف طے کرتی ہے ، داخلی پالیسی وہی بناتی ہے ۔وہی ہمارے اداروں کی لاغری فربہی کا فیصلہ کرتا ہے ، ہمارے الیکشن سلیکشن وہی مانیٹر کرتی ہے ، اور حتیٰ کہ وہی چاہتا ہے کہ ہماری معیشت تحریری یا دستاویزی نہ ہو۔ اسی کے حکم پہ ہم جاگیرداروں کو ٹیکس سے آزاد رکھتے ہیں۔
موجودہ حکومت شاید پچھلی ساری بورژوا حکومتوں سے یہ فرق رکھتی ہے کہ اس کی پروپیگنڈہ مشنری بہت منظم اور طاقتور ہے ۔اُس کے طبلچی جب بھی چاہیں کسی ”نان اِشو “کو سب سے بڑا قومی وبین الاقوامی مسئلہ بنا کر پیش کریں۔ چنانچہ اچانک ایک صبح پھوں پھوں بجنے لگے گا کہ بہت ترقی ہورہی ہے ۔ ہٹ دھرمی اور آنکھوں میں پانی نہ ہونے کی انتہا دیکھیے کہ پیداوار جامد ہے ، بحران انتہا ئیں چھو رہا ہے مگر سرکار کہتی ہے خوشحالی بڑھ رہی ہے ۔ عام آدمی تنزل کی پست ترین سطح پہ پٹخا جاچکا ہے مگر پھر بھی ترقی اور گروتھ ریٹ میں اضافے کے اعداد وشمار پیش کیے جارہے ہیں۔
تعلیم اور صحت جو سب سے اہم سماجی شعبے ہیں، بجٹ ایلوکیشن کے حساب سے سب سے نیچے ہیں۔ اور جو کچھ ہے وہ بھی پرائیویٹ شعبہ کے لیے ہے ۔ ہیلتھ کارڈ کیا ہے سارے کا سارا پرائیویٹ ہسپتال چلانے کے لیے سرکاری امداد ہے ۔
سو، جھوٹے اعداد و شمار کی بارش ہو رہی ہے ۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ عام آدمی جس پیمانے کی مہنگائی سہہ رہا ہے اُس کے سامنے سارے اعداد و شمار صفر بن جاتے ہیں ۔ سرکار خواہ جی ڈی پی کہے یا گروتھ ریٹ بولے ،عام آدمی اُسے اپنے پیٹ سے ناپتا ہے ۔ خالی پیٹ سب کچھ بتادیتا ہے ۔ گھر کا چولہا سب سے بڑا پیمانہ ہوتا ہے ۔ اُس کے بچے کے پیروں میں جوتوں کی عدم موجودگی سارے اعداد و شمار سے زیادہ باوثوق ہوتی ہے ۔سلکٹڈ سرکار سب کچھ بدل سکنے کی اہلیت رکھتی ہوگی مگر وہ گھر کے چولہے کی حالت کبھی نہیں بدل سکے گی۔ اُس میںیہ سکت ہی نہیں ہے کہ غربت دور کر سکے ، مہنگائی قابو کرسکے یا ، روزگار دے سکے ۔ یہ ناکامی اُس کی تعمیر میں، اُس کے خمیر میں موجود ہوتی ہے ۔ کپٹلزم میں مہنگائی پہ قابو کیا ہی نہیں جاسکتا۔
سچی بات بلکہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں حکومت ،عوام کے اندر غربت پھیلانے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے ، یہ غربت دور کرنے کے لیے ہوتی ہی نہیں ہے ۔ جب تک موجودہ سیٹ اپ قائم ہے عوام کا بھلا ہونا ناممکن ہے ۔ کچھ بھی ہو لوڈ شیڈنگ رہے گی، نہری پانی میں بلوچستان کا حصہ دبا یا جاتا رہے گا، غیر پیداواری اخراجات بڑھتے ہی رہیں گے ، اور پٹرول کی قیمت بڑھتی ہی رہے گی ۔
چنانچہ جھوٹ موٹ کی رونق لگ چکی ہے۔ بجٹ ”پیش“ ہوچکا ہے ۔ اس پر اسمبلی کے اندر اور باہر گالیوں میں ملفوف بحث کروائی جاچکی ہے ، اخبارات نے بے شمار اداریے لکھ مارے ہیں، ریڈیوٹی وی اور سوشل میڈیا کے اکھاڑے پہ مذاکرات کے کئی دور چل چکے ہیں، در آمد کردہ وزیرخزانہ کی تعریفیں ہوچکی ہیں ۔ اپوزیشن والے اس بجٹ کو غریب کا دشمن بجٹ قرار دے چکے ہیں۔ اور یوں ایک آدھ لفظ بدل کر پورا ماہ ، وسائل اوروقت ضائع کر کے عوام کے خلاف بجٹ منظور ہوچکا ۔
مگر بجٹ نے تو ابھی آنا ہے ، آتے رہنا ہے ۔ ہر ماہ عوام کے نرخرے پہ استحصال کی گرفت مضبوط ہوتی رہے گی۔ ہر ماہ اُس کی زندگانی تنگ ہوتی رہے گی۔ یہی کپٹلزم ہے ۔ باقی ساری رونقیں جھوٹی اور مصنوعی ہیں۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*