راج ہنس کا گیت

وہ شام بہت خوبصورت تھی ۔ ڈھلتے سورج کے رنگ سفید بادلوں کو رنگوں سے رنگین کر رہے تھے ۔ یہ سفید بادلوں کے تیرتے ہوئے گالے جانے کہاں سے اور کیوں ڈھلتے سورج کے نزدیک آجاتے ہیں۔ شاید اپنے آپ کو رنگوں سے آراستہ کرنے کے لیے ۔ یا شاید اپنے آپ کو فن پارہ کے طور پر دیکھنے کے لیے ۔ بارش برسانا تو ان کا محنت طلب کام ہے ۔ یہ فرض فطرت نے اِنہیں سونپا ہے ۔ لیکن سورج کی کرنوں کے رنگوں میں رنگ جانا شاید اُن کی فراغت کے وقفے کو ظاہر کرتا ہے ۔ کیا ڈھلتے سورج کے بکھرتے رنگ ان کو پر کیف اور سہانی آسودگی کا احساس دے رہے تھے ؟ کیا فطرت نے ہر طرف رنگوں کی بھرمار کر کے ہمیں یہ پیغام دیا ہے کہ رنگ ہی زندگی ہیں۔ رنگ ہی پُرکیف زندگی ہیں ۔
آج میں نے رنگوں سے ایک نیا رنگین رشتہ محسوس کیا ۔ تتلیوں کے رنگ۔ پھولوں کے رنگ، پرندوں کے رنگ، درختوں کے رنگ، پتوں کے رنگ، دھرتی کے رنگ، آکاش کے رنگ محسوس کرتے ہوئے میں اپنی سیر پر رواں دواں تھی۔ یک دم مجھے محسوس ہوا کہ میں اُن خوش قسمت لوگوں میں ہوں جنہوں نے زندگی میں بے انتہا ، انواع و اقسام میں رنگ دیکھے ہوئے ہیں ۔میں نے اپنی یاداشت کے اس حصے کو کبھی ری وزٹ کیا ہی نہیں۔ معلوم نہیں کیوں؟۔ لیکن میں صرف زندگی کے خوفناک تجربات کو ہی دوبارہ دیکھنا چاہتی ہوں۔ خیال آیا کہ یہ عقوبت خانہ جو میں نے اپنے اندر تعمیر کر لیا ہے اور زیادہ تر قیام بھی یہیں کرتی ہوں کہیں میرے پچھلے جنم کے کرتوتوں کی سزا تو نہیں۔ یہ جنم میں اپنے اندر لیے پھرتی ہوں کہ جب چاہا عقوبت خانے میں جا کر عقوبت کی چند گھڑیاں گزار لیں اور روح جب نڈھال ہوگئی تو نئے سرے سے جینے کی کوشش شروع کردی۔
گوتم بدھ سے متاثر رہی۔ لیکن دماغ کی مجھے ضائع کرنے کی کوشش کو شکست نہ دے سکی۔ سوچا مرتے وقت بھی شاید یہ سوچتے ہوئے دنیا سے جاﺅں گی کہ کچھ زندگی تو بدصورتی میں گزری اور کچھ زندگی بدصورتی کی یاد میں گزری۔
ڈھلتے سورج کے رنگ آسمان پر،بادلوں پر ، درختوں پر اور مجھ پر بہنے لگے ۔ ہر سو رنگ بہاﺅ پر تھے ۔ ہمیں منور کرنے لگے ۔
مجھے یوں محسوس ہوا کہ میں ٹرانس کی کیفیت میں چلی گئی ہوں۔ ایک ہالے میں ہوں ۔ حسن کا یہ تجربہ ٹھہر سا گیا ہے ایک رنگین سکوت کہ جہاں صرف رنگ ہی دکھائی دے رہے تھے ،رنگ ہی سنائی دے رہے تھے ۔ رنگ ہی محسوس ہو رہے تھے۔ ہر طرف آسودگی اور شانتی تھی۔
میں ٹرانس کا تجربہ کرتے ہوئے اس لفظ کے بارے میں سوچنے لگی۔انسان نے اپنے کون سے تجربے کو یہ لفظ دیا ہوگا ۔وہ کون سا احساسِ جمال ہوگا جس نے اس لفظ کی ضرورت محسوس کی ہوگی۔ وہ کون سی شگفتگی ، تازگی اور سر شاری کی کیفیت ہوگی جس نے اس لفظ کو جنم دیا ہوگا۔ شاید conditioningکے ریزہ ریزہ ہونے پر دماغ نے اپنی آزادی کا جشن منایا ہوگا۔ اس جشن کا نام ٹرانس رکھ دیا ہوگا۔
رنگوں سے شرا بور اور تتر بتر بادلوں نے مجھ پر شاید ایسی ہی کیفیت طاری کردی تھی۔ کیا شاندار کیفیت تھی۔
اچانک ایک خاتون مجھے سامنے سے آتی ہوئی نظر آئی۔ گڑیا سی ۔میں نے اُسے دیکھا تو اس کی خوبصورت نیلی آنکھوں کو میری طرف دیکھتے ہوئے دیکھا۔ وہ شاید ایک دوست کی تلاش میں تھی ۔ اور میں اُسے دوست لگ رہی تھی۔ رشتہ بنانے والی پر اسرار طاقتیں مجھے اور اُسے خاموشی سے ایک دوسرے کی طرف دھکیل رہی تھیں۔ میں اُس کے سامنے جاکر رُک گئی۔ کشادہ نیلی آنکھوں نے میری طرف دیکھا تو مجھے محسوس ہو ا کہ یہ بغیر بادلوں کے آسمان جیسی آنکھیں مجھے کچھ ایسا بتانا چاہتی ہیں جو میں نے پہلے کبھی نہ سنا ہو۔
آنکھوں نے آنکھوں میں جھانکا۔
اس نیلی آنکھوں والی نازک سی خاتون نے گفتگو کا آغاز اپنی بیماری سے کیا۔ اُسے دَمہ تھا۔ پھیپھڑے کچھ کام چور ہوگئے تھے بقول اُس کے اس نے کبھی سگریٹ کا ایک کش بھی نہیں لگایا تھا ۔
” یہ ڈاکٹروں کو آسان رستہ نہیں دے رہی“ میں نے دل ہی دل میں سوچا۔
ڈاکٹر نے اُسے صبح شام کی سیر کی ہدایت دی اور یہ سیر ہی اُسے اپارٹمنٹ کی خاموش تنہائی سے باہر لے آئی تھی۔
میرے محدود تجربے میں ابھی تک جتنے امریکن مرد اور خواتین آئی ہیں ایک سے ایک بڑھ کر داستان گو ۔ اپنی زندگی کی داستان سنا نے کے لیے تو سب کے پاس ہے ۔ سوال یہ ہے کہ انہیں اپنی زندگی داستان جیسی کیوں لگتی ہے شاید اس لیے کہ ان پر روایات کا وہ جبر نہیں ہے جو ایک قدیم تہذیب وتمدن میں رہنے والے کا تجربہ ہے ۔ انہیں شاید زندگی ایسی مہلت محسوس ہوتی ہے ۔ جس میں خود آگاہی کا عمل جاری ہے ۔ اپنی دریافت کی کوشش میں انہیں ایسے تجربات ہوتے جو انہیں حیران کر جاتے ہیں۔ شاید یہ لوگ اُن چند خوش نصیب لوگوں میں سے ہیں جو زندگی کو حیرت کدہ سمجھ کر بسر کرتے ہیں۔ شاید خود آگاہ زندگی اُنہیں حیران ہونے کے امکانات فراہم کرتی ہے ۔ داستان بھی تو حیرتوں اور حیرتوں کے امکانات ہی دریافت کر رہی ہوتی ہے ۔
اُ س خاتون نے بتایا کہ اُس کے دادا  جرمنی سے نقل مکانی کر کے امریکہ آئے تھے ۔ وہ اُن کی تیسری نسل ہے ۔ ”بہت خوب“۔ میں نے سوچا۔ ” یہ فلاسفرز اور موسیقاروں کی قوم سے تعلق رکھتی ہے“۔ میرے تبصرے دل ہی دِل میں جاری تھے ۔
دادا اور والد  کی محنت نے خاندان کو خوشحال کر دیا ۔ کسی حد تک۔
زندگی بہت خوبصورت ہے ۔ اسی احساس کے ساتھ میں جوان ہوئی۔ زندگی کو حسین تر کرنے کی کوشش میں مصروف ہوگئی۔ کبھی پینٹنگ سیکھی۔ کبھی موسیقی کے سروں کو اپنی آواز میں ڈھالا۔ کبھی رقص کرتے ہوئے اپنے جسم کے شاندار امکانات کو تلاش کیا۔ انسانی جسم کتنی مسحور کن صورتیں اختیار کر سکتا ہے یہ صرف ایک رقاص ہی کا تجربہ ہوسکتا ہے ۔ قدیم یونانی انسان کے جسم سے بے پناہ محبت شاید اسی لیے کرتے تھے کہ قدرت نے جب اس جسم کو تخلیق کیا تو تخلیق حسن کے سحر انگیز امکانات کا کبھی ختم نہ ہونے والا سلسلہ بھی شروع کردیا۔
میں نے دریافت کیا کہ میں ایک رقاص ہوں۔ اور مجھے زندگی رقاص کے رقص کے ساتھ بسر کرنی ہے ۔ رقاص تو میں اپنے لیے تھی لیکن میرا رقص لوگوں کو بھی بھلا لگنے لگا۔ اور یونہی رقص کرتے میں اُس شخص سے ملی جو مجھے بہت پسند آیا۔ وہ بھی رقص کا شوق رکھتا تھا ۔ لیکن پیشے کے اعتبار سے استاد تھا
”ایک رقاص استاد ۔ یہ combinationخوبصورت ہے“ ۔ میں نے دل میں پھر تبصرہ کیا۔
اُس رقاص استاد سے میں نے شادی کرلی۔ اور زندگی ایک حسین تخلیقی سفر بن گئی۔ وہ بہت اچھا انسان بھی تھا۔ میں خوشی اور سر شاری کے ساتھ اُس کے ساتھ جینے لگی۔ یونہی جیتے جیتے ہم نے محسوس کیا کہ زندگی میں کچھ نفرتیں ،کچھ تعصبات ، کچھ بوریت شامل ہوگئی ہے ۔ زندگی کا تخلیقی سفر لڑکھڑا نے لگا۔ کچھ منفی جذبے جیسے زندگی کو نگلنے اپنے اپنے کچھاروں سے نکل آئے ۔ رقص آہستہ آہستہ دل و دماغ سے اوجھل ہونے لگا۔ دُکھ ، درد اور اضطراب کی کیفیت نے چاروں طرف سے گھیرنا شروع کردیا ۔ ایسی زندگی ہم دونوں کے لیے ناقابل برداشت تھی۔ ہم نے علیحدگی کا فیصلہ کرلیا۔
زندگی نفرتوں میں جینے کے لیے تو نہیں ہے ۔ مجھے محسوس ہوایہ نفرتیں میرے دل کو دیمک کی طرح چاٹنے لگ پڑیں اور مجھے مٹی کا ڈھیر بنانے لگ گئی ہیں۔ چلتا پھرتا امکانات سے خالی مٹی کا ڈھیر۔
علیحدگی کے فیصلے کے بعد زندگی پھر سے اپنے آپ کو تعمیر کرنے لگی۔ اگر تعمیر سے محبت ہے تو پھر دیمک سے نجات ضروری ہے ۔
زندگی میں حسن سے محبت واپس آئی۔ جب تک حسن دیکھنے والی آنکھ زندہ ہے ، محبت دل میں زندہ ندی کے پانی کی طرح چمکدار روانی سے بہتی ہے ۔
میری ملاقات اپنے دوسرے ساتھی سے ہوئی ۔ وہ حسن اور محبت سے لبالب بھرا انسان تھا۔ا س کا ہر فیصلہ ، ہر قدم محبت کے لیے اُٹھتا تھا اور محبت سے اُتھتا تھا ۔ اُس کے دل کے محبت کے چشموں نے میرے دل کی حسن افزا طاقتوں کو سیراب کردیا۔ میں ایک چھوٹے شہر کی سٹیج سے نکل کر ایک بین الاقوامی سٹیج پر رقص کرنے لگی۔ لوگ مسحور میرے محو رقص بدن کو دیکھتے ۔ انسان کا محو رقص بدن اپنے بھر پور اظہار میں حیرت کدہ ہے ۔ میں خود بھی حیرت سے اپنے بدن کے امکانات دریافت کرتی گئی۔
وہ ہمیشہ میرے ساتھ رہا۔ اس کے ساتھ زندگی ایک مست لگن تھی۔ اور اسی مست لگن میں کئی سال بیت گئے ۔ ہر دن محبت کے پہلے دن کی طرح مسرور گزرا۔ خوابوں سے مزین گزرا۔ دھنک کے رنگوں سے رنگا گزرا۔
پھر وہ گھڑی آئی جب موت چیل کی طرح جھپٹی اور اُسے چھین کرلے گئی۔
وہ دنیا سے کیا گیا کہ دنیا بھی بیمار ہوگئی۔وہ محبت بھری زندگی جیسے پانی کا بلبہ تھی۔
جب مجھے ہوش آیا تو ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ زندگی اور موت کے درمیان چھڑی جنگ میں مجھے میدان ِ جنگ بنے کئی ہفتے بیت گئے ہیں۔ دھیرے دھیرے یاداشت واپس آنے لگی۔ زندگی کا وہی دور فوراً یاد آیا جو اُس کی ہمرا ہی میں کٹا تھا ۔ اُس کے علاوہ زندگی تو جیسے میں نے جی ہی نہیں تھی۔
ہسپتال سے گھر آگئی۔ زندگی کو پھر سے جینے کی کوشش کرنے لگی۔ اس کے ساتھ کٹے مہ و سال موسیقی کی طرح مجھے مسحور و معمور رکھتے ہیں۔
اب جی رہی ہوں ۔ کمزور ہوگئی ہوں۔ بیمار بھی رہتی ہوں اُداس بھی ہوجاتی ہوں لیکن تنہا نہیں ہوں۔ تنہائی تو اُسی وقت ختم ہوگئی جب وہ میری زندگی میں شامل ہوا تھا اور ایسا آیا کہ پھر کبھی گیا ہی نہیں۔
اُس کی شفاف نیلی آنکھیں شاید مسکرا رہی تھیں۔
میں یہ سوچتے ہوئے اس سے رخصت ہوئی کہ اُن لوگوں کی تعداد شاید زیادہ نہیں ہے جن کو مل کر یہ احساس ہو کہ ان کے تخلیقی سفر کو محبت بھری رفاقت میسر تھی۔ زندگی نے اپنے بھرپور اور حسین اظہار کے لیے شاید ان جیسے چند خوش قسمتوں کو منتخب کیا۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*