اماں جنتے

 

کپکپاتے ہاتھ، چہرے پر جھریوں کا جال، منحنی ساجثہ، میں نے اس پر طائرانہ نگاہ ڈالتے ہوئے پوچھا۔ ”اماں! نام کیا ہے! کام کر لوگی؟“۔ سوچا کہ یہ بوڑھی لاچارسی عورت میری کیا مدد گار ہوگی۔ گھر کے بظاہر معمولی کام بھی جان مانگتے ہیں اور یہ نحیف جان تو جیسے ہڈیوں میں کلپ رہی ہے۔ میری انگاروں جیسی سوچ کی آنچ اس جہاں دیدہ سے پوشیدہ نہ رہی۔ تپتے لفظوں میں بولی۔”جنتے نام ہے جی، جنتے کی جان بڑی ڈھیٹ ہے سب کچھ سہ لیتی ہے۔ کم کیتے بغیر گزارہ بھی تو نہیں“۔

”اماں جنتے!! عمر آرام کی ہے“۔میں نے ہمدردی کی آڑ میں اُسے کریدتے ہوئے کہا”کاہے کو اتنی کھیچل کرتی ہو“ ارام نال روٹی غریب کو نہیں ملتی۔ بیٹوں کی تو اپنی روٹی پوری نہیں ہوتی۔ ان کے بھی چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ اولاد کی بھوک برداشت نہیں ہوتی“۔اماں جنتے نے سپاٹ لہجے میں جواب دیا اور ساتھ ہی پوچھ لیا”باجی گھر میں کتنے واش روماں ہیں؟“ گھر کے پھیلاؤ میں جنتے کو ناپتے تو لتے میری زبان تلخی حیات کا کسیلہ ذائقہ درآیا۔ جسے اماں جنتے نے یہ کہ کر شوگر کوٹڈ کردیا کہ ”جیہڑا وقت ٹپ جاوے مولادا شکراے“۔

اگلے ہی روزاماں جنتے نے کام پر آنا شروع کردیا۔ میں خاموشی سے کاپنتے ہاتھوں کو پھرتی سے کام نبٹاتے دیکھتی رہتی۔ رحم آنے اور رحم کرنے کے مابین خلیج حائل نہ ہوتو شاید دنیا میں اتنے دکھ بھی نہ ہوں۔

اماں جنتے جھاڑن ہاتھ میں لیے چیزوں کے ساتھ ساتھ زمانے کی گرد بھی جھاڑ تی رہتی۔ کسی کے دیکھنے اور سننے کی پرواہ کیے بغیر محو کام اور کلام رہتی۔

”دھیاں بیاہ دیں، اللہ رسول کا کہا پورا کیا،ذراسنبھل کر چلنا شروع کرتیں تو اپنے ساتھ کام پر لگالیا کرتی تھی مجھے بھی آسرا ہوجاتا۔ انہیں بھی کام کرنا اورمن مارنا آجاتا۔ ہم لوگوں نے ساری زندگی صبر ہی تو کرنا ہوتا ہے۔ جومل جائے اللہ دا شکر!“

”اماں! یہ کونا چھوڑدیا۔ادھر سے تو جھاڑو لگا“ میں ٹوکتی تو اچھا باجی کہہ کرکونا صاف کرنے لگتی اور گفتگو کا ٹانکہ ذرا کومہ لگا کر وہیں سے جوڑ لیتی۔

”بیٹوں کو سکولے ڈالا لیکن انہوں نے پڑھ کر نہیں دیا۔ پیٹ ہر وقت روٹی مانگتا ہوتو دماغ نے حرفوں کی کیا پہچان کرنی ہے۔ اسی لوکاں واسطے تو الف سے روٹی اورب سے بھی روٹی“۔

میں نے اپنی بیٹی کی منت سماجت موقوف کردی کہ ”پہلے کھانا کھا لو پھر کمپوٹر دیکھ لینا“۔چکھنا تو درکنا راس نے تو کھانے کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنا بھی گوارانہ کیا تھا۔ بیدلی سے کھانے سے سجی لدی ٹرالی کو کچن کی طرف دھکیلا۔اماں جنتے کی آواز ہلکے سروں میں بہتی ہوئی میرے تعافب میں تھی۔

”ماشٹر کہندے ساڈا بھیجانہ کھاؤ۔ گھر سے سبق یاد کر کے آیا کرو۔ کدی سبق یاد نہ ہونے پر سوٹیاں کھاتے کدی پھٹے نیفارم، فیر سکول جانا ہی چھوڑدیا۔ اب محنت مزدوری کرتے ہیں۔ مولا کا شکر ہے روٹی کھانے کو مل جاتی ہے“۔

”اماں! بیٹیوں کو کیوں نہیں پڑھایا؟“ میرے اس سوال نے بھی سپیڈ بریکر کا کام نہ دیا۔ اماں جنتے اسی روانی میں میرا سوال سنا ان سنا کرتے ہوئے اپنی زندگی کے اور اق پھرولتی رہی۔

”دِھیاں اپنے گھر کی ہوئیں۔ بیٹوں سے تو اپنا ٹبر نہیں پلتا۔ میں تین چار گھروں میں کام کرکے اپنی روٹی کمالیتی ہوں،بڈھے کے دوا دارو کابندوبست بھی کرلیتی ہوں“

”بیٹیوں کو پڑھا لیتی تو آج اپنا آپ بھی سنبھالتیں،بوڑھے ماں باپ کی بھی رکھ رکھیل کر لیتیں“

میں نے دخل در معقولات کی۔ اماں جنتے کے ہاتھ تھم سے گئے۔ اس نے پلٹ کر مجھے دیکھا۔ اس کی بوڑھی آنکھوں میں عمر بھر کی تھکن کے پیچھے پچھتاوا بھی جھانک رہا تھا۔ ہارے ٹوٹے لہجے میں دوبارہ ہاتھ میں جھاڑن سنبھالتے ہوئے بولی۔

”نہ باجی! دوحرف پڑھ بھی لیتی توکیا ہوتا! ہمیں کونسا سرکار نے نوکریاں دے دینی تھی۔ انہوں نے تو مابائلاں پریاروں کو میسج ہی کرنے تھے۔ لڑکوں کا کیا ہے۔ انہیں تولوگ بھی بخش دیتے ہیں اور رب بھی۔ نہاد ھو کرپاک صاف ہوجاتے ہیں۔ بھگتان تو عورت ذات نے بھگتنے ہوتے“۔

اماں جنتے احتیاط سے بلوری گلدان صاف کرتے ہوئے بولتی رہی ”لڑکیوں کو تو جیسے ہی کپڑے آئے، گھر آئے پہلے رشتے پر ہی ”ہاں“ کردی۔ ہم غریبوں کے پاس سوائے عزت کے ہوتا ہی کیا ہے“۔

میلی سی، جابجا پھٹی ہوئی،سال خوردہ چادر میں لپٹی ہانپتی کانپتی جنتے کو میں دیکھتی رہ گئی۔ کمرے میں پھیلے سکوت میں برسوں کے سیاپے گونج رہے تھے۔ اس شور مچاتی خاموشی کو اماں جنتے کی آواز نے توڑا”باجی! کام ختم ہوگیا ہے میں جاؤں“ اجازت کے ساتھ ہی میں نے گھر جانے کے لیے روٹی سالن بھی اماں کے ہاتھ میں پکڑایا تو ممنون نظروں سے میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگی”روٹی گھر جا کر پہلے اپنے پوتے کو دیتی ہوں دروازے کے ساتھ ہی لگا بیٹھا ہوتا ہے کہ دادی کچھ کھانے کو لائے گی“

”اماں! پوتی بھی ہے؟“ میں نے یک طرفہ گفتگو میں حصہ ڈالنے کی غرض سے پوچھا۔ اماں نے یک دم چونک کر اپنا جھکا سر اٹھا لیا اپنے کسی اندیشے کو میرے چہرے پر جانچتے ہوئے بولی۔”نہ باجی! میں تو اپنی پوتی پڑھاساں۔ میں اسے کسی کے گھر کام پر نہیں لگاؤنگی“۔

سوکھی ٹہنی جیسے بازوں پر لگے اُستخوانی ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے بتانے لگی۔”اس پچھلی گلی میں تیجا مکان ہے۔ انہوں نے اپنے گھر کام کے لیے مصلیوں کی آٹھ دس سال کی بچی رکھی ہوئی تھی۔ گھر کا سارا کام کرتی اور چھوٹے بچے کو بھی سنبھالتی۔ خورے! کی ہوئیاں؟۔ ظالموں نے اُسے مار کر گھر کے صحن میں ہی دبا دیا۔ پُلس روز چھاپے مارتی ہے پراب کی فیدہ؟۔اللہ جانے اس نے نمانی پرکیا بیتی!“۔

اماں جنتے فرش پر ڈھے سی گئی، دونوں ہاتھ اپنے کانوں سے لگاتے ہوئے بولی”نہ باجی میں تو اپنی پوتی پڑھا ساں“۔

ماہنامہ سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*