اومنی بس

امریکہ کی ریاست kentuckyکے شہر louisvilleمیں ایک خوبصورت بنچ پر بیٹھی بس کا انتظار کر رہی تھی ۔ ارد گر د دیکھتے ہوئے مجھے یاد آیا کہ اس ریاست کا تخلص Blue grass stateہے۔ آنکھ بہت دور تک سفر کرسکتی ہے خواہ کتنی بھی دور چلی جائے ۔ جنگلوں کا چراگاہوںکا فیض رساں نیلگوں سبزہ اپنے جمال کے ساتھ ہر طرف بکھرا نظر آئے گا۔ آنکھوں کو اس نیلگوں سبزے سے کہیں بھی کبھی بھی فرصت نہیں ملتی۔
بس سٹاپ کے ارد گرد گھنے سرسبز درخت اپنے جوبن کی مستی میں صاف شفاف نرم ہوا میں لہرا رہے تھے۔ پرندوں کی آوازوں میں صبح کی تازگی اور سورج کی نارنجی کرنوں کا حسن شامل ہو کر ان کی آوازوں کے آرکسٹراکو مزید رسیلا بنا رہا تھا۔ کبھی کبھی کوئی کار سڑک پر سے گزرجاتی ۔ ارد گرد گھروں کے مکین شاید سو رہے تھے یا صبح صبح اُٹھ کر اپنے کاموںپر جاچکے تھے ۔ گھر سناٹے میں ڈوبے ہوئے تھے ۔ یہ خاموشی بھی اپنے اندر کئی اقسام کے امکانات کی گونج سمو ئے ہوئے تھی ۔سناٹے کے امکانات کی گونج ، خاموشی کے امکانات کی گونج۔
میرا دماغ بھی اسی سناٹے میں خاموش تھا۔ حواس خمسہ بیدار تھے ۔ آنکھیں سرسبز جنگل دیکھ کر خوش تھیں کان پرندوں کی آوازوں کی نغمگی میں مست ہورہے تھے۔ ناک سبز ے اور پھولوں کی خوشبو سے سرشار تھی۔ ہوا کی خنکی پورے بدن کے مساموں کو آہستگی سے چھوتے ہوئے ہر طرف بہہ رہی تھی۔
اچانک یوں محسوس ہوا کہ دماغ نے بھی انگڑائی لی اور مجھے ماضی کی اُن یادوں میں لے گیا جنوں نے میرے اندر دُکھ پشیمانی اور ناقدری کا احساس تکلیف دہ حد تک پیدا کردیا۔ جن تجربات کو میں بھولنا چاہتی تھی وہ تجربے کسی خوفناک خواب کی طرح میری آنکھوں کے سامنے سے گزرنے لگے ۔ تعصبات او رنفرتوں کے تجربے نے مجھے گھیر لیا اور میں ایک سوئے ہوئے انسان کی بے بسی لیے ماضی کے تجربوں کا عتاب سسکیوں کے ساتھ سہنے لگی۔
پرندوں کی چہکار کہیں گم ہوگئی ۔ ہوا جانے کہاں غائب ہوگئی ۔درختوں نے لہرانا بند کیا۔ تالی بجاتے پتے تالیاں بجانا چھوڑ گئے ۔ وہ نیلگوں سر سبز سبزہ کسی تاریک اوٹ میں چلا گیا۔
میں تھی اور یادوں کا عقوبت خانہ تھا ۔ دکھ اور درد کی خوفناک طاقت نے مجھے بے بس کردیا۔ بہ بے بسی میرے دکھ میں مزید اضافہ کر رہی تھی ۔ پھندے میں پھنسی مچھلی کا تڑپنا شاید اسی تجربے کا نام ہے ۔ تڑپتے ہوئے ارد گر د ہر طرف بکھرے حسن سے یوں لاتعلق ہوجانا بھی ایک اور دکھ تھا ۔ذہن کی وہ دنیا بھی جانے کہاں گم ہوگئی تھی جو ادب فن اور فلسفے نے تخلیق کی تھی۔ وہ پناہ گاہیں جانے کہاں کھو گئی تھیں جو موسیقی کے سروں نے آباد کی تھیں۔
بدصورتی کے کئی کریہہ چہرے بھوتوں کے ٹولے بن کر مجھے گرفت میں لیے جھنجھوڑ رہے تھے ۔ میں بے بس لاش کی مانند اِن زندہ طاقتور طاقتوں کے رحم و کرم پر اپنی بے بسی کا ماتم بھی نہیں کر رہی تھی ۔
مجھے یوں محسوس ہوا کہ میرے ساتھ بنچ پر کچھ لوگ آکر بیٹھ گئے ۔ جذبات اور احساسات کے عقوبت خانے سے نکل کر دیکھا تو تین چار سال کی دو خوبصورت بچیاں اپنی خوبصورت مگر بھاری تن و توش رکھنے والی ماں کے ساتھ میرے ساتھ ہم نشین ہوئیں۔ ان میں سے ایک بچی بہت غور سے میری طرف دیکھ رہی تھی۔ شاید جائزہ لے رہی تھی کہ میں انسان ہی ہوں کہ میری کایا پلٹ گئی ہے ۔ اس کی خوبصورت ننھی ننھی نیلی آنکھیں مجھ پر ٹکی ہوئی تھیں۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے ان آنکھوں کے وسیلے سے زندگی اپنے جمال سمیت میرے اندر دھیرے دھیرے داخل ہورہی ہے۔ دماغ کے اندھیرے عقوبت خانے میں دیے کی لوٹمٹمانے لگی ۔ ارد گرد کا ماحول نیلگوں روشنی میں منور ہونے لگا۔ میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھر گئی ۔
اس بچی نے خوبصورت مسکراہٹ سے کہا ” میں تمہیں جانتی ہوں“۔ میں نے دل میں سوچا کہ قدرت کی نوازشات میں سے شاید ایک نواز ش یہ بھی ہے کہ ایک خوبصورت چہرہ خوبصورت مسکراہٹ لیے مجھے جاننے کا دعویدار تھا۔ میں شاید اسے کہنا چاہتی تھی کہ میں تو صرف تم ہی کو جاننا چاہتی ہوں لیکن شاید ان نیلگوں آنکھوں سے اپنی واقفیت میں کبھی کبھی بھول جاتی ہوں۔
اس ہنستی کھیلتی بچی نے اپنے پیر میرے سامنے کیے اور چاہا کہ میں اُس کے چاندی جیسے چمکیلے جوتوں کی تعریف کروں۔ میں نے فوراً تعریف کی ۔ اس نے مجھے بتایا کہ یہ Ballerina کے جوتے ہیں۔ اس بچی کا ذوقِ حسن Ballerinaکی موسیقی پر تھرکتے خوبصورت جسم کے تصور میں اظہار پا رہا تھا ۔ یا اس کی نیلی آنکھوں میں خواب بن کر جی رہا تھا ۔
” تمہیں Balletکرنا آتا ہے “ میں نے پوچھا۔ ”ہاں“ اور وہ گڑیا کی طرح دائرے میں ایک ٹانگ پر گھوم گئی، دوسرے ٹانگ پیچھے کی طرف باہر نکالی اور دونوں بازوں کو باہر کی طرف پھیلا کر دو تین چکر لگائے۔ وہ کچھ اپنے رقص کے ہنر کا مزید مظاہرہ بھی دکھاتی لیکن بس پہنچ گئی ۔ اس کی ماں جلدی سے کھڑی ہوئی اور دونوں بچیوں کے ہاتھ پکڑ بس پر سوار ہوگئی۔ میں یہ سوچتے ہوئے بینچ سے اُٹھی کہ بچوں کی طرح ہر لمحہ اپنے خوبصورت خوابوں سے منور اور مست زندگی گزارنا اتنا مشکل کیوں ہے ۔
بس اپنے سفر پر روانہ ہوئی۔ وہ چہکتی ، مہکتی رقاص بچی کھڑکی سے باہر کے نظاروں میں محو ہوگئی۔ بس جنگولوں اور باغوں کے درمیان سڑک پر محو خرام تھی میں بھی کچھ بہتر محسوس کر رہی تھی ۔حواس خمسہ بشمول دماغ دھیرے دھیرے عقوبت خانے سے نکل کر آئے تھے ۔
ایک بس سٹاپ پر بس رکی ۔ بس کا Rampدھیرے دھیرے بس اور سڑک کے درمیان پل بن کر ٹک گیا ۔وہیل چیر پر ایک شخص قہقہے برساتا اندر آیا ۔پہلا جملہ اس نے بس کی حسین ڈرائیور کے حسن کی شان میں بولا ۔ وہ حسین ڈرائیور کے حسن سے اسی طرح لطف اندوز ہو رہا تھا جیسے حسین چیزوں سے لطف اندوز ہونا چاہیے ۔ وہ حسین ڈرائیور اپنی سیٹ سے اُٹھی اور اُس کی وہیل چیر کو دو بڑی بڑی Hooksسے باندھ دیا۔ اپنا فرض پورا کر کے وہ دوبارہ اپنی سیٹ پر گئی اور بس پھر سے محوسفر ہوئی۔
میں اس ہنستے کھیلتے زندگی سے لطف لیتے ہوئے شخص کو دیکھنے لگی ۔ اس کے ہاتھ او رپیر بمشکل پانچ سال کے بچے کے سائز کے ہوں گے ۔ اور اگر وہ کھڑا ہوسکتا تو شاید ڈھائی تین فٹ لمبا ہوتا ۔ لیکن اس کا سر اور چہرہ چالیس یا پچاس سال کی عمر کے مرد جیسا تھا ۔ آنکھوں پر خوبصورت فریم والی عینک تھی ۔ جب تک وہ بس میں رہا بس کی سب سواریوں کو اس نے ہمسفر بنا لیا۔ دوستوں کی طرح باتیں کیں۔ قہقہے لگائے۔ بس کی ڈرائیور کے حسن کو مستقل سراہتا رہا۔ شاعرانہ جملے بولتا رہا ۔وہ بھی ہر جملے پر مسکرا دیتی۔ بس کا ماحول اس کی زندہ دلی سے مہلک اور چہک رہا تھا ۔
جب اُس کا سٹاپ آیا۔ حسب ِ معمول Rampکھولا گیا ۔ بس ڈرائیور آئی اور اس کی ویل چیئر کو hooksسے نکالا۔
وہیل چیر پر بیٹھے اس شخص نے اپنی ہنستی آنکھوں سے ڈرائیور کی طرف دیکھ کر کہا۔
”میری آزادی مجھے واپس کرنے کا شکریہ “
اور وہیل چیر اُسے بس سے لے کر سڑک پر اُتر گئی ۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*