سبز پتلون

بات تو بہت معمولی تھی مگر پتہ نہیں کیسے الجھتی چلی گئی۔ اس سے پہلے ایسے چھوٹے موٹے سینکڑوں واقعات گھر کی روز مرہ زندگی میں وقوع پذیر ہوتے رہتے تھے لیکن وہ صرف اس حد تک اثر انداز ہوتے تھے جیسے جھیل کی پرسکون سطح پر کوئی کنکر پتھر کچھ دیر کے لیے ہلچل پیدا کر دے اور اس کے بعد سطح پھر سے ہموار ہوجائے ۔ لیکن اس روز سمے کا چکر تھا یا تقدیر کا نوشتہ، شاید ان دونوں کو خود بھی اندازہ نہ تھا کہ وہ اس حد تک آگے نکل جائیں گے کہ واپسی کے سارے راستے مسدود ہوجائیں گے ۔
بات مضحکہ خیز حد تک معمولی تھی۔ وہ سبز رنگ کی ایک نہایت نفیس اونی پتلون تھی جو فاروق نے بڑے چاﺅ سے نائلہ کو دکھاتے ہوئے کہا تھا ۔ ” تمہارا کیا اندازہ ہے ، یہ کتنے کی ہوگی؟“
اور نائلہ نے یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ ضرور مہنگی ہوگی کہ اس کا شوہر اتنا اترا رہا ہے ، اس نے اسے خوش کرنے کے لیے اپنی طرف سے بہت بڑھا کر قیمت بتائی۔ حقیقت میں اسے قطعی کوئی اندازہ نہیں تھا۔ اسے تو اپنے لباس اور زیوارات کی قیمتوںتک کا اندازہ نہیں تھا چہ جائیکہ مردانہ کپڑوں کی قیمت، مگر فاروق کی بتائی ہوئی قیمت نائلہ کے اندازے سے دس گناہ زیادہ تھی۔
”چلو شکر ہے آپ نے بھی اپنے لیے کوئی اچھی چیز خریدی“۔ نائلہ نے کہا۔
فاروق نائلہ کو تو سونے اور ریشم سے لادے رکھتا تھا مگر اپنے لباس کے معاملے میں کنجوسی کی حد تک کفایت شعار تھا ۔ نائلہ کی بات سے خوش ہو کر ہنستے ہوئے بولا ۔ دیکھو اسے دھونہ دینا ۔ یہ دیکھو اس پر لکھا ہوا ہے کہ صرف پروفیشنلی ڈرائی کلین کرنا ہے “ اور دونوں کھکھلا کر ہنس دیئے۔
”تو بہ ! اب تک یاد ہے آپ کو “ ۔ نائلہ بولی۔
ہوایوں تھا کہ تقریباً پندرہ سال پہلے نائلہ نے فاروق کی ایک گرم پتلون کو واشنگ مشین میں دھوڈالا تھا اور وہ سکڑ کر ایک بچے کے سائز کی ہوگئی تھی فاروق غصے سے دیوانہ ہو اٹھا تھا۔ بات نقصان کی نہیں تھی ۔ فاروق کھلے دل کا آدمی تھا۔ وہ ہزاروں لاکھوں کے نقصان بڑی خندہ پیشانی سے برداشت کر لیتا تھا۔ مگر لاپروائی یا اپنے کہے کی بتایا ہی نہیں تھا کہ وہ پتلون ڈرائی کلین ہونے والی ہے ، دھلنے والی نہیں ۔اور فاروق کا موقف تھا کہ وہ پڑھی لکھی ہے ، اسے خود معلوم ہونا چاہیے۔ آخر وہ کس دنیا میں رہتی ہے کہ اسے گرم کپڑے کی بھی پہچان نہیں ہے ۔اور پھر پتلون پر واضح طور پر ہدایات کی چٹ بھی سلی ہوئی تھی۔
خیر بات آئی گئی ہوگئی لیکن نائلہ ہفتوں زخمی زخمی سی چپکے چپکے آنسو بہاتی پھری کہ اتنا نقصان تو ملازم سے بھی ہوجائے تو آدمی اتنی سختی نہیں برتتا۔ اس نے کوئی جان بوجھ کر تو ایسا نہیں کیا۔ پتہ جو نہیں چلا اور آج فاروق نے اسی بات کا حوالہ دیا تو دونوں ہنس دیئے۔
یہ ان دنوں کی بات تھی جب وہ دونوں ہی ایک دوسرے سے بدگمان سے رہتے تھے اور اپنے اپنے طور پر دونوں ہی کو یہ خیال رہتا تھا کہ دوسرے فریق کو اس کی کوئی پروا نہیں اس لیے دونوں ہی ہر بات کو اپنے اپنے زاویہ نظر سے دیکھتے تھے ۔ تیز مزاج فاروق اپنا غصہ چیخ چلا کر نکال لیتا اور نرم خو صابر و شا کر نا ئلہ دکھی ہو کر اور تنہائی میں چپکے چپکے آنسو بہا کر ۔ اپنی اپنی جگہ دونوں ہی خود کو مظلوم سمجھتے تھے۔ دونوں کی توجہ ایک دوسرے سے ہٹتی گئی اور دلچسپیوں کے محور بدلتے گئے اور تب انہیں اندازہ ہوا کہ وہ ایک دوسرے سے کتنی دور چلے گئے ہیں۔
بات جب حد سے بڑھنے لگی تو وہ ایک دن آمنے سامنے آ بیٹھے ۔ فاروق نے بڑی سنجیدگی اور ٹھہراﺅ سے کہا: ”سنو نا ئلہ ! اگر تم اپنا راستہ بدلنا چاہتی ہو تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ مجھے تمہاری خوشی عزیز ہے ۔ جیسے تم پسند کرو۔ آج تک جو کچھ میرے پاس ہے وہ بھی تمہارا ہے ۔ اس کے علاوہ بھی جو کچھ چاہو تو کہہ دو“۔
نائلہ کو یقین تھا کہ وہ جو کچھ کہہ رہا ہے اسے کر دکھانے کا بھی ظرف رکھتا ہے ۔ وہ چونکی اور سوچنے لگی کہ اس نے فاروق کو پہلے کیوں نہیں پہچانا ۔ یہ اتنا بلند انسان اگر ذرا غصیلا ہے تو کیا ہوا۔ پھول کے ساتھ کانٹے بھی تو ہوتے ہی ہیں۔ خاموش سوچتی ہوئی نائلہ کو دیکھ کر فاروق کے دل میں خیال آیا یہ کیسی معصوم اور صابرو شاکر ہے ۔ سب لوگ حتیٰ کہ میرے گھر والے اس کے گن گاتے ہیں وسیع دل و دماغ رکھتی ہے ۔ میں نے اس سے پہلے اس زاویے سے کیوں نہیں سوچا ۔ تھوڑی لاپرواہے تو کیا ہوا۔ مکمل تو کوئی انسان نہیں ہوتا ۔ میں نے ہمیشہ اس سے بے اعتنائی اور سختی روا رکھی ۔ آخر یہ بھی کیا کرتی ۔
دونوں نے اپنے اپنے دلوں میں جھانکا، نظریں اٹھائیں، مسکرائے اور ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیا۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھاکہ وہ زندگی کا اتنا مشکل موڑ اتنی سہولت سے طے کر جائیں گے۔ مگر تلوار کی دھار جیسے اس لمحے پر رک کر ہی تو انہوں نے ایک دوسرے کو پہچانا تھا۔ کون جانے اگر یہ موڑ ان کی زندگیوں میں نہ آتا تو عمر بھر ان کا ساتھ ندی کے دو کناروں جیسا تھا ۔ مگر اب تو وہ صحیح معنوں میں شریکِ حیات تھے ۔ رنج تھا تو صرف اتنا کہ انہوں نے جوانی کے اتنے سارے خوبصورت سال یونہی برباد کر دیئے اور اس طرح کئی سال چپ چاپ سرک گئے ۔
نائلہ نے حفظِ ما تقدم کے طور پر فوراً ہی ملازم کو بلا کر اور پتلون دکھا کر تاکیدکر دی کہ اس بات کا خیال رکھا جائے کہ یہ پینٹ غلطی سے بھی نہ دھلے ۔ صرف ڈرائی کلین ہو۔ ان کا موں کی دیکھ ریکھ اب ملازم ہی کرتا تھا ۔ اور وہ کوئی ایسی بات نہ کرنا چاہتی تھی جو بدمزگی کا باعث ہو۔
اس کے کچھ ہی دنوں بعد سیرو سیاحت کا پروگرام بن گیا ۔ موسم خوشگوار تھا۔ بچے سکول کالج میں مصروف تھے اس لیے دونوں ہی مختلف ملکوں کی سیاحت پر چل پڑے۔ ساری کاروباری پریشانیاں ، گھریلو مسائل پیچھے چھوڑ کر کسی خوش فکر نو عمر جوڑے کی طرح ، جوہنی مون پر نکلا ہو۔ نائلہ ہوٹل میں جب کپڑے لانڈری کے لیے دینے لگی تو اس نے احتیاط سے سبز پتلون الگ کر لی کہ گھر جا کر ڈرائی کلین کرائیں گے۔ واپسی کے سفر میں پہلا پڑاﺅ فاروق کی بہن کا گھر تھا جہاں چند دن قیام تھا۔ جس دوپہر کو وہ بہن کے گھر پہنچے طویل سفر سے تھکے ہوئے آرام کرنے کے لیے سوگئے ۔ فاروق کی بہن نے سامان کا جائزہ لیا۔ ایک بیگ میں صرف میلے کپڑے تھے ۔ وہ اس نے دھلوا ڈالے۔ ان میں وہ سبز پتلون بھی تھی۔ اسی شام کسی دوست نے افطاری پر بلا رکھا تھا ۔ جلدی جلدی تیار ہو کر وہ چلنے لگے تو سوئے اتفاق فاروق کی بہن صحن سے سوکھے کپڑے اٹھائے اندر داخل ہوئی۔ ان میں سب سے اوپر سبز پتلون تھی۔ فاروق کا تو دماغ بھک سے اڑ گیا ۔ وہ انتہائی وحشت سے بیوی کی طرف پلٹا اور سب کی موجودگی کا خیال کیے بغیر چلانے لگا۔ ”دماغ کہاں ہوتا ہے تمہارا؟ کتنی تاکید کی تھی ۔ اتنا ہی خیال ہے تمہیں!“۔
نائلہ چورسی بنی بیٹھی رہی۔ وقت کم تھا اس لیے دونوں گاڑی میں جا بیٹھے ۔فاروق کا غصہ عروج پر تھا۔
”اس میں میرا کوئی قصور نہں “ نائلہ آہستہ سے بولی۔
”اور میرا ہے کیا؟ میرا کسی سے کوئی واسطہ نہیں ۔ یہ تمہاری ذمہ داری تھی کہ خود دیکھ بھال کر لانڈری کے لیے کپڑے دیتیں۔ اتنا ہی خیال ہے تمہیں میرا؟“
یہاں تک تو بات ٹھیک تھی لیکن اس نے کہا کہ میرا خیال ہے اب ہمیں اپنے راستے الگ کر لینے چاہییں ۔ ایسے ساتھ کا کیا فائدہ کہ ذرا بھی دوسرے کا احساس نہ ہو۔
نائلہ کے اندر کوئی چیز چھن سے چُور چُور ہوگئی۔ اتنی ہی قیمت ہے میری ! کیاغلطیاں انسانوں سے نہیں ہوجاتیں اور کیا یہ زندگی کا حصہ نہیں؟ وہ بھی ان کی کیسی کیسی غلطیوں کو خندہ پیشانی سے سہ جاتی ہے ، اور اس میں تو اس کا براہِ راست قصور تھا بھی نہیں۔ سب کے سامنے دو کوڑی کا کر کے رکھ دیا۔ پھر بھی چین نہیں۔ یہ اسے معلوم تھا کہ بات مالی نقصان کی نہیں۔ اسی سیر و سیاحت میں وہ لاکھوں خرچ کر آئے تھے اور فاروق نے اسے بے شمار تحائف خرید کر دیئے تھے ۔ بس اس نے اسے وقار کا مسئلہ بنالیاتھا اور لطف کی بات یہ ہے کہ اس پتلون کا کچھ بھی نہیں بگڑا تھا اور استری ہونے کے بعد بالکل نئی معلوم ہو رہی تھی۔
”بس آج سے تم میری کسی چیز کو نہ چھونا“ ۔ اس نے اضافہ کیا” باقی باتیں واپسی میں طے کر لیں گے“۔
”ٹھیک ہے “۔ نائلہ نے بھی جب بڑی ٹھہری ہوئی آواز میں کہا تو اندر سے وہ چونکا کہ بجائے عذر معذرت یا معافی تلافی کے کتنا اکڑ کے جواب دیا ہے ۔ اسے تو واقعی کوئی احساس نہیں۔
دعوت پر سب ٹھیک رہا لیکن فاروق نائلہ پر مستقل ڈھکے چھپے طنز کرتا رہا۔ واپسی پر فاروق نے پھر بات چھیڑی ۔ ”کیا سوچا ہے تم نے ؟“
”جو آپ مناسب سمجھیں“
” میں اب مزید برداشت نہیں کرسکتا۔ فیصلہ ہو ہی جانا چاہیے “
” ٹھیک ہے ۔ جو آپ کی خوشی“
”میری خوشی کو چھوڑو۔ تم اپنی بات کرو“
”ہاں میرے خیال میں یہی بہتر ہے “ ۔ نائلہ نے سرد لہجے میں کہا۔
جب اتنے برسوں کے ساتھ میںہم ہی ایک دوسرے کو سمجھ نہیں سکے ہیں تو پھر ساتھ رہنا یا الگ رہنا برابر ہے ۔ نائلہ نے سوچا اور فاروق نے سوچا ہاں اب اسے میری کیا ضرورت ہے ۔ مشکل وقت نکل گیا۔ بچے جوان ہوگئے ۔ ویسے بھی ماں سے زیادہ قریب ہیں۔ ماں کا ساتھ دیں گے ۔اکیلا تو میں رہ گیا ہوں۔ اس نے خود کوبہت مظلوم اور تنہا محسوس کیا۔
”اتفاق سے تم یہاں وطن میں ہو۔ اپنے کسی بہن بھائی کو اس فیصلے کے بیچ لانا چاہو تو لاسکتی ہو“۔ فاروق مضبوطی سے کہا۔
اور چور چور نائلہ کے ہاتھ سے آخری امید کا دامن بھی چھٹ گیا کہ شاید غصہ کم ہوجانے پر اسے اپنی زیادتی کا احساس ہو۔ ” نہیں مجھے کسی کی ضرورت نہیں ۔ میں کوئی بچی نہیں ہوں ۔ میرا خیال ہے معاملہ ہم دونوں کے درمیان ہے ۔ کسی تیسرے کی ضرورت نہیں ۔ لیکن اگر آپ اپنے کسی بہن بھائی کو شامل کرنا چاہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں“۔
”تم ایسا کرو کہ سب شرط شرائط لکھ لینا۔ میں دستخط کردوں گا“۔
” نہیں آپ لکھ لائیں۔ میں دستخط کردوں گی“۔
” مجھے کچھ اعتراض نہیں۔ رہی بات اثاثوں کی تقسیم کی ، وہ جو تم کہو گی ویسے کروں گا“۔
فاروق نے دریا دلی کا مظاہرہ کیا اور یہ حقیقت ہے کہ وہ تھا بھی دریا دل ۔ اور فاروق اندر سے بالکل ڈھے گیا۔ وہ باقی ہر معاملہ اس پر چھوڑ چکی تھی اور اثاثوں کی تقسیم پر کیسے کہہ دیا کہ ٹھیک ہے ، یہ وہ طے کرے گی۔ اس معاملے میں کیوںنہیں کہہ دیا، جیسے آپ کی مرضی مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ کیسے عمر بھر ظاہر کرتی رہی کہ اسے مال و دولت کا کوئی لالچ نہیں۔ اور وہ بھی جنم جنم کا بیوقوف ، یہ یقین کرتا رہا کہ وہ بڑی بے غرض اور درویش طبیعت ہے ۔ صرف اسی یقین کے تحت تو اس کی لاپروائی بھی گوارا کی تھی۔ سچ ہے ، انسان کو پہچاننا نا ممکن ہے ۔
دونوں ایک ہی بستر پر کروٹ بدلے اندر ہی اندر جاگتے رہے لیکن مزید کوئی گفتگو نہ ہوئی۔ فاروق سیلف میڈ آدمی تھا۔ اس کا خیال تھا کہ اس کی بیوی اس کی زندگی میں خوش قسمتی لائی ہے اس لیے وہ خوش قسمتی کی علامت کے طور پر ہر چیز اسی کے نام سے خرید تا تھا۔
چند ایک چیزوں کو چھوڑ کر قریب قریب ساری جائیداد نائلہ ہی کے نام تھی۔ بینک اکاﺅنٹ مشترک تھے ۔ جائیداد اس کی ہے ، بچے اس کے ہیں۔ اب میں تو فالتو ہی ہوں۔ جو تھوڑا بہت میرے لیے کرنا پڑتا ہے اور یا کبھی کبھار جو اونچ نیچ ہوجاتی ہے تو وہ بیکار کی کوفت کیوں پالے گی ۔ یہ تو اس کے ہاتھ اچھا موقع آیا ہے جان چھڑانے کا۔ پیش رفت چونکہ میری طرف سے ہوئی ہے تو سچی بھی وہی رہے گی ۔ ایک بار بھی نہیں روکا۔ آنکھوں میں آنسو نہیں آئے۔ پتہ نہیں کب سے حسرت لیے بیٹھی تھی اس موقع کی۔
اور نائلہ کی آنکھوں کی برسات رکنے میں نہ آئی تھی۔ نہ ہچکی نہ سسکی ، بس ندی کی روانی سے آنسو بہے جارہے تھے ۔ وہ سوچ رہی تھی ، ہر چیز دے کر بھی وہ جان چھڑانے کے در پے ہیں۔ مفت تو کروں، منا تولوں مگر زبردستی چمٹے رہنے کی بھی کیا خوشی۔ جب ان کے دل میں گنجائش ہی نہیں بچے بڑے ہوگئے ہیں ۔ ان کے پاس روپیہ پیسہ ہے ، دولت ہے ۔میری ضرورت بھی کیا ہے ۔ میرے جیسے دس اور مل جائیں گی۔ انہیں عمر بھر کی رفاقت کا کوئی لحاظ نہیں تو ایسے بے معنی ساتھ میں کیا رکھا ہے ۔ اور بات اتنی بڑی بھی نہیں تھی۔ یہ اس طرح بہانے کیوں ڈھونڈ رہے تھے ۔ نہ معلوم کیا ٹھان رکھی ہے انہوں نے ۔ آخرمیں ان کے پروگراموں اور خوشیوں میں کیوں حارج ہوں۔
ویسے دونوں کے دلوں میں اپنی اپنی جگہ پر موہوم سی امید تھی۔ کتنے مشکل حالات اور کیسے کیسے معاملات انہوں نے اتنی آسانی سے نمٹا لیے تھے مگر پتہ نہیں یہ کوئی سمے کا چکر تھا یا نوشتہ تقدیر ، دونوں آگے ہی آگے بڑھتے گئے اور آخروہ دورا ہا آگیا جہاں سے دونوں کے راستے الگ ہوگئے۔
دستخط کرنے سے پہلے فاروق نے نائلہ کو دیکھا” اثاثوں کے متعلق پہلے طے کر لیں یا علیحدگی کے کاغذات پر پہلے سے دستخط کریں“۔
”کیا آپ کا خیال ہے کہ اثاثوں کے معاملے میں ہم میں اختلاف رائے ہو جائے گا؟“
”نہیں “۔ فاروق نے امختصر جواب دیا۔
”علیحدگی تو اسی وقت ہوجاتی ہے جب دل جدا ہوجائیں۔ اب تو صرف دستخط کی رسم باقی ہے “ نائلہ نے کہا۔
اور فاروق نے فوراً ہی دستخط کر دیئے ۔ ستائیس سال کی از دواجی رفاقت کچے دھاگے کی طرح ٹوٹ گئی۔
نائلہ نے بڑے تحمل سے کاغذات وصول کیے ۔ انہیں چند لمحے دیکھتی رہی اور پھر بڑی احتیاط سے انہیں لفافے میں ڈال کر اپنے سامنے رکھ دیا۔ ” یہ میں اثاثوں کے متعلق کاغذات تیار کر لائی ہوں۔ میں نے دستخط کر دیئے ہیں ۔آپ کر کے اپنے پاس رکھ لیں“۔
فاروق نے سرسری نظر کا غذات پر ڈالی ۔ وہ ساری جائیداد اس کے نام منتقل کروالائی تھی۔ فاروق کی زبان گنگ ہوئی۔
”سب کچھ آپ ہی کا تھا۔ میرا کیا تھا“ نائلہ عجیب انداز سے مسکرائی ۔ ” بس آپ۔۔۔“
وہ رُکی اس کی آواز بھیگی مگر چند لمحے کی خاموشی کے بعد جیسے اس نے سارے آنسو گلے میں اتار لیے۔
”بس آپ وہ سبز پتلون مجھے دے دیں“۔ اس نے کھوکھلی سی آواز میں کہا ۔ فاروق نے چونک کر نظر اٹھائی۔
اس نے اب تک جو پتھر کی طرح بے حس چہرہ بنا رکھا تھا ، اس میں بے شمار درا ڑین سی پڑی ہوئی معلوم ہورہی تھیں، یوں جیسے اگر چھوﺅ تو ریزہ ریزہ ہو کر بکھر جائے گا۔ آنکھوں میں صحرا پھیلے ہوئے تھے اور چہرے پر یوں گرداڑ رہی تھی جیسے کسی عزیز ترین ہستی کی میت دفنا کر آئی ہو۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*