سرخ گلاب

 

میں تمہارے لیئے سرخ گلاب لائی تھی
یہ کیسے دوں تمہیں؟
کہ اِک قدم آگے کو بڑھتا ہے
تو دو پیچھے کو ہٹتے ہیں
تمہاری برہمی کا خوف اتنا ہے
کہ کانچ کی وہ ساری چوڑیاں
جو تمہارے نام پہ پہنیں
چھنکنا بھول جاتی ہیں
ٹوٹ جاتی ہیں
تو کلائیوں سے خون رِستا ہے
وہ سارے مناظر جو بھلانے تھے
آنکھوں کے آگے گھوم جاتے ہیں
ایسے عالم میں جراتِ گفتار ہو تو کیسے؟
خام خیالی کا اظہار ہو تو کیسے؟
کیسے دوں یہ سرخ گلاب۔۔۔۔

کہ وہ سارے عفریت
جو دِل کے نہاں خانوں میں رہتے ہیں
باہر نکل کر ہذیانی قہقہے لگاتے ہیں
تو سوچ کا پنچھی سہم کر پرواز بھول جاتا ہے
تمہارے شہر کی فضا ہی ایسی ہے
کہ پر جلا کر راکھ کرتی ہے
اِک خستہ تن اجنبی کہ جس کا
اِس انجان نگری میں کوئی محرم نہیں ہے
کوئی ہمدم کوئی ہمنوا نہیں ہے
شناسائی کے پیمانے نئے ہیں
کوئی اِس برہمی کے موسم میں
بھلا ٹھہرے تو کیسے؟
کیسے دوں یہ سرخ گلاب۔۔۔

اِن اونچی فصیلوں کو
کوئی سوچ کوئی خیال کوئی خواب گرا نہیں پاتا
ساری آوازیں صدا بصحرا ہیں
عمر کے ماہ و سال خیالی تتلیاں اڑنے نہیں دیتے
نمو افکار تازہ کی ہو تو بھلا کیسے؟
ہوا جلتے چراغوں کو بجھاتی ہو
کوئی جگنو یہاں چمکے تو کیسے؟
ضابطوں کے جھرمٹ میں
اسپِ سرکش کوئی دوڑے تو کیسے؟
اِن بے شمار پہروں میں
تیروں کی بارش میں
کیسے دوں یہ سرخ گلاب۔۔۔۔۔

ہم دور دیس کے باسی کہ جن کی قسمت میں
ہجر کے نہ ختم ہونے والے دکھ لکھے ہیں
عشاق کے قافلے اب رکیں کس طرح؟
کہ کوئی روکنے والا نہیں ہے
رات کا پچھلا پہر ہے اور تم سو چکے ہو
اس پر خار رستے پہ چلوں کیسے؟
کہ یہ پنجر کانٹوں کی چبھن اب سہہ نہیں پاتا
خزاں کے موسم میں نئی کہانیاں لکھی نہیں جاتیں
بس لمحے بھر کی نیند کا قرض چکانا ہے
دریچے پہ اِک گلاب چھوڑے جاتی ہوں
صبح دم اٹھا لینا
کہ یہ تمہارے نام کا ہے
میں تمہارے لیئے سرخ گلاب لائی تھی

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*