گھڑی

 

زمانے صدیوں سے اپنے پہر بسر کر رہے ہیں۔
جو سورج کی نمود، چاند کے ڈوبنے، اور یلدا کی گھاٹی سے ظاہر ہیں۔
جفت و طاق لمحات ایک ہی چکر میں یکجا نہیں۔
چاروں موسموں کی کیفیت تین سو پینسٹھ دنوں کی وسعت ہے۔
ایک ڈائل آٹھ پہروں کا کنواں ہے۔
جسے چوبیس بیل جوتتے ہیں۔
جو نشیب و فراز کی کھیتی
کی سیراب گاہ ہے۔
چھ اور بارہ سکون مشکیزے ہیں۔
جو راحت کی نوید ہیں۔
تین اور نو طلبی مشکیزے ہیں۔
جو کام کی نوعیت ہیں۔
کششِ ثقل کی فرکشن تین سو ساٹھ ڈگری گھومتی ہے۔
جس کی چُھٹی پہ پابندی عائد ہے۔
انسان وال کلاک کی مانند اس سے جڑ چکے ہیں۔
دل کا پینڈولم اندرونی حساس حالات پہ جھولتا ہے۔

دماغی خلشیں بیرونی کلائیوں کی نبض ٹٹولتی ہیں۔
مجبوری چھوٹی سوئی ہے۔
جو وقاث و کلیان کو نگل جاتی ہے۔
جبر درمیانی سوئی ہے۔
جو دن اور رات کے اوقات غارت کرتی ہے۔
حالات لمبی سوئی ہیں۔
جو زندگی پہ زنگ کی مہر ہیں۔
لمبے سَمے کی بیٹری اونچے نرخوں میسر نہیں۔

ایپل، رسٹ واچ، راڈو، کیسیو، رولیکس، سٹیزن، اور انگنت گھڑیاں سبھی وقت کی مقروض ہیں۔
خوشی کی یلغاروں میں،
نحوست کی پکاروں میں،

” گھڑی ہمیشہ پہروں سے صدیاں اور صدیوں سے عصر تلک کا سفر کرنے میں ناکام رہی ہے۔”

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*