غزل

 

ذرا کہیں نظر آئے تو اس سے شکوہ کروں
وہ تھا کہیں، نظر آئے تو اس سے شکوہ کروں

ہمارے شہر کا چشم و چراغ تھا وہ چراغ
ہوا کہیں نظر آئے تو اس سے شکوہ کروں

وہ ہر کہیں نظر آتا ہے اپنے ساتھ مجھے
جدا کہیں نظر آئے تو اس سے شکوہ کروں

مرے سکوت میں ڈالا ہے پھر خلل اس نے
صدا کہیں نظر آئے تو اس سے شکوہ کروں

اسی نے روکا ہے رستہ مری صدائوں کا
خلا کہیں نظر آئے تو اس سے شکوہ کروں

ہے مجھ کو سخت شکایت خدا کے بندوں سے
خدا کہیں نظر آئے تو اس سے شکوہ کروں

کوئی یہاں نظر آتا نہیں ذرا بھی مجھے
ذرا کہیں نظر آئے تو اس سے شکوہ کروں

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*