ساحر لدھیانوی

 

منہدم فصیلوں میں
زندگی سے آویزش
ابتدا سخن کی ہے

خواب ہیںخمیدہ سر
سوچ پر گرفتِ سخت
بے بسی ہے صد پایہ
بے کنار محرومی
بستیوں میں پھیلی ہے

اک طرف ہیںجاگیریں
اور دوسری جانب
ایک مادرِ بے کس
تار تار چادر سے
جس نے ڈھانپ رکھا ہے
مضمحل وجود اپنا
جس نے بیچ ڈالی ہے
اپنی آخری بالی
کیونکہ پیٹ خالی ہے

ایک وسعت ِ غم ہے
اضطرابِ پیہم ہے
آسماں کا برتاو¿
پائمال روحوں کو پاس پاس لایا ہے

حرف نے پنہ دے دی
شعر نے پکارا ہے
اپنے اور پرائے دکھ
گیت بن کے بکھرے ہیں
لفظ بن گئے مایا
مال و زر فراواں ہے
شہرتوں کی چھایا ہے
چاہتوں کی خوشبوئیں پور پور اتری ہیں
اک خلا ہے لیکن جو آج بھی نمایاں ہے
آج بھی نراشا ہے
اک عجب تماشا ہے
زہر کی امر بیلیں
خشک ہی نہیں ہوتیں
اور دل نے امرت سے
فاصلہ بڑھایا ہے

انتہا سخن کی ہے

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*