امید اور آزادی کا گیت

ارندھتی رائے کی کتاب “AZADI: Freedom. Fascism. Fiction” (آزادی : آزادی۔ فسطائیت۔افسانہ) پر تبصرہ
*
ارُندھتی رائے(Arundhati Roy) نے اپنی تازہ ترین کتاب میں ادب کی طاقت ، ہندو قوم پرستی کے مضمرات اور صاف گو اور بے باک لوگوں کو درپیش خطرات کا جائزہ لیا ہے۔
ارُندھتی رائے کی تحریر کاکسی مخصوص دائیرہ حیات میں تعین کرنا بے حد مشکل ہے۔اس کے کثیرالجہتی تناظر اور کثیرالابعاد روپ اتنے وسیع ہیں کہ انھیں صرف ایک عینک سے نہیں دیکھا جا سکتا ۔ اس کا نو مضامین اور مذاکرات کا پینگون اسپیشل مجموعہ (Penguin Special) شاندار عنوان کے ساتھ __ آزادی : آزادی ۔ فسطائیت۔ افسانہ___ پُر اثر انداز میں قاری کی توجہ ھمہ گیر بصیرت کے ساتھ ارُندھتی رائے کے متعدد موضوعات کی طرف مبذول کرواتا ہے۔
اس مجموعہ میں ، ہندوستان میں ہونے والے “ نصاب تعلیم کی کثافت اور اس کا دوبارہ برہمانیت (Re-Brahamanization)” پر ارُندھتی رائے غضبناک دکھائی دیتی ہیں ، اور سوشل میڈیا اور ٹیلی ویژن پر پھیلائی جانے والی جھوٹی اور جعلی افواہوں پر ضرب لگاتی دکھائی دیتی ہیں ، ہم دیکھتے ہیں وہ زرعی شعبہ کے مسائل پر کتنی دکھی ہیں، خودکشیوں میں اضافہ ، اور بے گھر ہوجانے کا ہر وقت منڈلاتا خطرہ ، ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ کیسے اروندھتی رائے غیرقانونی طور پر مسلمانوں کو جان سے مار ڈالنے پر اور دلتوں پر سنگدلانہ حملوں کی مذمت کرتی ہیں ، کشمیریوں کے حقوق کی ایک کٹر حامی “ جو جان چکے ہیں کہ زندہ رہنا ہو تو مزاحمت کرنا ہوگا۔”
ایک پُرجوش کارکن ، ایک ادبی اشتراکی (سماجوادی) ، ایک بہادر اور ایماندار روح ، ارُندھتی رائے ان تمام کے لیے ایک ہردلعزیز شخصیت ہے جو چاہتے ہیں کہ انسانیت زندہ رہے اور فروغ پاے۔آج ، انسانی حقوق کی نمایاں وکالت کے لیے وہ دنیا کے تمام مشہور کارکنوں میں سرفہرست ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ اس کے متنازعہ مذاکرات ، جابرانہ گروہوں پر راست حملے،” سخت ظالمانہ قوانین “ اور ادارتی پالیسیوں پر اس کی ترش تنقیدوں کے باوجود عوام الناس میں اس کا مقام قابل احترام و قابل تعظیم ہے۔
وہ پس ماندہ اور مظلوم لوگوں کی آواز ہے اور ان لوگوں کے لیے امید اور آزادی کا گیت جو سماجی اور سیاسی طاقتوں کے اسیر ہیں۔وہ ایک ایسے مستقبل کا خواب دیکھتی ہے جو محفوظ ، آزاد اور روشن ہو۔وہ دعوہ کے ساتھ کہتی ھیکہ “ کمزوروں کو گھیر کر خاموش کردیا جا رہا ہے۔آواز اٹھانے والوں کو قید میں رکھا جا رہا ہے۔خدا ہمارے ملک کو واپس لانے میں ہماری مدد کرے۔” اروندتی کے لیے ریاستی جبر موجودہ عالمی وبا سے کم خطرناک نہیں ہیں جس سے ہم اپنا ذہنی سکون اور زندگیوں کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔
۲۰۱۳ میں ، ارُندھتی رائے نے اس وقت کی انڈین پارلیمنٹ میں ایک کثیرالثقافتی حکومت کو فسطائی نظام حکومت میں تبدیل کرنے کے لیے ایک لیڈر کی نامزدگی کو ‘المیہ’ کہا ۔اس کے نزدیک ہندوستان میں سرمایہ دارانہ قوتیں ، میڈیا ، فوج اور عدالتیں سب سے زیادہ عسکری اور جارحانہ وزیراعظم کے انتخاب کے لیے ذمہ دار ہیں۔وہ بتاتی ہیں کہ جب کوئی فرد سسٹم بن جاتا ہے تو سب ہی اعلٰی اقتدار کی بالادستی کو قبول کرلیتے ہیں۔ موجودہ صورت حال نے ، وہ نوحہ کناں ہے ،” ہندوستان کی روح کو اتنی گہرائی تک زخمی کیا ھیکہ اسے مندمل ہونے کے لیے برسوں لگ جائینگے۔اور اس عمل کو شروع کرنے کے لیے سب سے پہلے ان خطرناک ،خودنمائی کے بھوکے نیم حکیموں کو ووٹ دیکر آفس سے باہر نکالنا ہوگا۔”
ایک مصنف۔کارکن ، جیسے وہ عام طور پر جانی جاتی ہے ، ارُندھتی رائے ذاتی طور پر خود کو اس تعریف کے مطابق ہی پیش کرتی ہے۔مزاحیہ اور طنزیہ انداز کو اپناتے ہوے ، اسے فخر ھیکہ وہ لوگوں کی رہنمائی اس راستہ کی طرف کرتی ہے جسے دوسرے لوگ شائد “ غلط راستہ” کہتے ہوں ۔اور اسی راستہ کو ، جو“گستاخا نہ بدگمانیوں”سے رنگا ہوا ہے ، ہندوستانیوں کی نجات کا راستہ پاتی ہے جو متضاد طور پر “ اس جدو جہد کی برطانوی حکومت سے آزادی کے لیے کی گئی جدوجہد کے برابر قدر کرتے ہیں …… لیکن بڑی حد تک کشمیریوں کو اتنے شفاف نظریہ سے نہیں دیکھتے جو خود بھی اسی وجہ سے جدوجہد میں مصروف ہیں۔” ہندوستان کو ایک “ اونچی ذات والی ہندو حکومت”کےاعلان پر وہ افسوس کرتی ھیکہ وہ جمہوری یا اشتراکی حکومت کے دعویٰ سے دستبردار ہو چکے ہیں۔ستم ظریفی یہ کہ ذات پات کا چلن ہمیشہ سے زیادہ ، اب اس عالمی وبا کے دوران قابل فہم ہے جو” سماجی فاصلہ” کو فروغ دیتا ہے۔
ارُندھتی رائے جدید نو آبادیت کی مختلف صورتوں پر روشنی ڈالتی ہے اور “اختتام کی طرف اشاروں” کے ذریعہ ایک پوری فہرست فراہم کرتی ہے کہ کیسے شناخت کا انحصار ظاہری وضاحتوں پر ہے جیسے “ میراث کی دستاویز “ ، “لنک پیپرس(link papers)” ، “ تصدیق شدہ نقول ، دوبارہ جانچ (reverification)، حوالہ جات(references)، “مشکوک ووٹر (D-voter)” ،” اعلان کردہ غیر ملکی(declared foreigner)” ، “ووٹر فہرست” ، “ مہاجر سرٹیفکٹ” وغیرہ۔یہ لسانی جابرانہ بولیوں کے بیج ڈر کے عنصر کےساتھ بودیے گیے ہیں ۔زبان کی سیاست تبدیل ہوچکی ہے ، الفاظ کے معنی الٹے کردیے گیے ہیں ، بلکہ مسخ کردیے گیے ہیں ، جن الفاظ کے معنی مختلف ذات پات ، عقیدوں اور نسلوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو ان کے حقوق ادا کرنے سے تفویض تھے۔
ایک سوال کی وضاحت میں کہ ان کی کہانیاں اور سیاسی مذاکرات کیسے ایک دوسرے پر مرتکز ہو تے ہیں ، اروندتی کہتی ہے ، وہ دن کبھی کے بیت گیے جب ادب کو صرف جمالیات کے فروغ کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔وہ پُر زورطریقہ سے اعلان کرتی ھیکہ ، “ میں نے کبھی محسوس نہیں کیا کہ میری افسانوی اور غیر افسانوی کہانیاں سازشی گروہوں سے جنگ کرتی ہیں یا جاگیردارانہ نظام سے لڑتی ہیں۔ادب کا مطلب صرف جدا کرنا ، چیرنا ، پوشیدہ گرہیں کھولنا، ان کہی کہنا ، یا تبدیلی ہئیت( بہروپ) پیش کرنا ہی نہیں بلکہ یہ “ سائبان “ ہے جہاں سے ایسے مذاکرے پیدا کیے جاتے ہیں جو امید کی کرن اور “صحیح الدماغی “ تک پہنچنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔دراصل اس احمقانہ کرہ ارض پر اپنے آلات” pots and pans” کی مدد سے وہ سچائی کی ہانڈی تیار کرتی ہے۔ وہ بحث کرتی ھیکہ جہاں “ سچ کہا نہیں جاسکتا “ ، جیسے کشمیر کے حالات کے تناظر میں ، “ افسانہ ہی سچ بتا سکتا ہے ۔”
مضامین کا مجموعہ”آزادی”، عالمی وبا اور کسی طویل جنگ نامہ کی سی وسعت والے اس کے مضمرات پر ، اروندتی کے مشاہدات کے ساتھ ختم ہوتی ہے۔ اپنے مشہور مضمون “ عالمی وبا ایک گذرگاہ ہے” (The Pandemic is a Portal) جو اپریل 2020 میں فینانشیل ٹائمس(Financial Times) میں چھپا تھا ، اروندتی اس المیہ کی پرتیں کھولتی ہے جو ہمیں ہماری سرحدوں کے بارے میں دوبارہ غور کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔ وہ تیز وار کرتی ہوئی کہتی ھیکہ ایٹمی پھیلاؤ اور پروکسی (proxy) جنگوں کا مضبوط حریف __ روئی کے پھاہے ، ماسکس اور دستانوں کے مقابلے ، تیز قسم کے بم ، جنگی طیارے ، بنکر بسٹرس اور آبدوزیں بالکل غیر اہم ہیں ۔ ہم دوبارہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ “ قیامت کی مشین تو ہم نے خود ہی ہمارے لیے تیار کی ہے”اروندتی اس عالمی وبا کو ‘گذر گاہ’ کہتی ہے۔“ ایک دنیا سے دوسری دنیا میں جانے کی پھاٹک “ ، جہاں سے ہم ایک دن ایک نادرالوجود ( فرضی پرندہ) بن کر اٹھیں گے۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*