ادھورا لمس

 

تمہارا وہ ادھورا لمس
آج بھی
کنوارہ ہے
کہ جس کی تکمیل کی جستجو میں ،
نہ جانے
کتنے
اتصال کر چکی
مگر
ایک کنواری پاکیزگی لیے ،
یہ ازلی کنوارہ پن،
قدیم مندروں میں،
دیوتاوں سے بیاہے  جانے کی
آس میں،
کنواری مر مٹنے والی
داسیوں کی مانند
تمہارے انتظار میں ہے
یہ ادھورا لمس،
ایک اپنی تکمیل کی چاہ میں،
ایک دیوتا کی مانند،
نہ جانے کتنے جسموں کے دان لیتا ہے۔
تمہارا وہ بوسہ
کہ جس کی تراوٹ کو
پی جانے کی خاطر
کتنے ہی سمندر
اپنی ذات میں انڈیل ڈالے
وہ بوسہ
آج بھی
پیاسا ہے
تمہاری وہ نگاہ
کہ جس کی تپش،
میری روح کو خاک کرتی
اس کی حدت کی آگ میں
جنت ہی جل کے خاک ہوئی
مگر
وہ آگ..
آج بھی میرے آتش پرست وجود کے معبد میں  مسلسل جلے جا رہی ہے
جل کر امرہونے کی چاہ میں
تمہاری وہ نگاہیں،
کہ
میرے سراپے کا دیوانہ وار،
طواف کرتی تھیں،
ان کی کھوج میں
سات جنم گزر گئے،
مگر
میرا ہر رواں،
آج بھی صرف ایک تمہاری نظر کی آس میں،
آواگان کی ہر منزل سے گزر کے،
کسی شبدھ مہورت کے انتظارمیں ،
ہر محبت کدے میں،
صرف تمہاری زبان سے نکلے ہوہے،
میرے ایک نام کی پکار پر.
ایمان لانے کی تڑپ میں،
لا دین، بھٹکتا پھر رہا ہے.
تمہارا وہ کبھی بھی
ساتھ نہ نبھانے کا قول.
میرے لئے،
ایک ایسی امر محبت کا وعدہ بن گیا،
کہ جس کو ،
میری روح نے اپنے دل کی اتھاہ گہرائیوں پہ
ایک حرف مقدس کی لازوال  تحریر کے طور  ثبت کر دیا۔
تم نے ظلم کیا.
ہاں….
تم نے کبھی ‘نہ’  ساتھ نبھانے کا وعدہ  کر کے،
مجھے، اکیلا چھوڑ کر ظلم کیا.
تم نے ظلم کیا
اس محبت کے ساتھ
جو صرف وعدے اور قسموں کے بل بوتے پر
پروان چڑھتی ہے.
تم نے ظلم کیا
اس محبت پہ،
جو جسمانی ملاپ کو
اپنے امر ہونے کی دلیل سمجھتی ہے.
تم نے بغیر کسی قسم  و وعید  کے.
، محبت کی ہر حد اس روانی سے  پار کی،
کہ ابّ
محبت بھی،
چاہے جانے کی منتظر.
ایک ادھورے لمس کے انتظار میں،
کسی بیوہ کی مانند ،
سفید لباس پہنے،
دل کی  خونیں لالی کا انتظار کرتی ہے،
جسے وہ اپنی مانگ میں  بھر کر
پھر سے،
ایک انوکھی رسم کی بھینٹ چڑھائی جائے گی

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*