پردیسی لڑکےکا خط

 

اب میں تجھ کو کیا بتلاؤں
ہونی اَن ہونی کے جتنے دھاگے جوڑوں
جتن کروں یا ڈھونگ رچاؤں
اس نگری سے جی نہیں جُڑتا
لوگ تو یہ بھی اچھے ہوں گے
لیکن ان کے دل اور سڑکیں
ایک ہی جیسے ٹھنڈےہیں
ہنستا بستا شہر ہے پھر بھی
چاروں سمتیں ویرانی کی
گرد اڑاتی رہتی ہیں
دن بھر ذہن میں چہروں کی
پہچان بٹھاتا رہتا ہوں
تھوڑی سی اُجرت کی خاطر
اپنی ہمت سے زیادہ میں
بوجھ اٹھاتا رہتا ہوں
اور جب کالی رات آتی ہے
میرے بخت کا ڈوبتا تارہ
رشتوں کی تھالی میں گھورتی آنکھیں رکھ کر
بند کواڑ سے سَرکاتا ہے
برف کے گالے رگوں میں تیرنے لگتے ہیں
اور پریم کا منتر
پانی بن کر بہہ جاتا ہے
بیگانےاحساس کی چیونٹی
جسم پہ چلتی رہتی ہے
لمس کا بھاری پتھر میری
سانس کی نوک تک آ جاتا ہے
دور بہت ہی دور گھنیرے آم کے پیڑ پہ بیٹھی چڑیا
تجھے خبر ہے
ایک لکیرسے آگے دنیا کے منظر کا سارا رنگ بدل جاتا ہے
تن کا تختہ
کھٹ کھٹ چلتا رہتا ہے
اور من کا سونا سکہ سکہ ڈھل جاتا ہے

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*